فرزند اقبالؒ ڈاکٹر جسٹس جاوید اقبال اپنی نشست سے اٹھے‘ باریش بزرگ کا مصافحے کے لیے بڑھا ہاتھ تھاما‘ فرط عقیدت سے چوما اور پھر آنکھوں سے لگا لیا۔ عمومی شہرت کے مطابق دل کے بجائے دماغ سے سوچنے‘ عقل واستدلال سے رہنمائی لینے کے عادی لبرل عالم و فاضل کی طرف سے اس قدر جذباتی اور والہانہ پذیرائی پر بزرگ کی آنکھیں بھر آئیں اور شہید کا باپ ہونے پر افتخار و وقار کے جذبے سے سرشار آگے بڑھ گیا۔
یہ یوم شہدا کی پانچویں سالانہ تقریب تھی اور یادگار شہدا کے سامنے سٹیج سے اُتر کر فرزند اقبال کی دست بوسی کا خواہش مند بزرگ کیپٹن ضرار شہید کا والد تھا۔ تقریب کے اختتام پر میں نے ڈاکٹر جاوید اقبال سے نیازمندانہ مصافحہ کیا اور پوچھا ''حضور! آپ بھی جذبات کی رو میں بہہ گئے‘ اس سے پہلے کبھی آپ کو اتنا جذباتی نہیں دیکھا‘‘۔ ڈاکٹر صاحب کے جواب دینے سے قبل ولید اقبال بولے :''عارف صاحب ! میں تو حیران ہوں ڈاکٹر صاحب اتنے جذباتی کبھی نہیں ہوئے‘‘ ۔یہ ڈاکٹر جاوید اقبال سے میری آخری ملاقات تھی اور نماز جنازہ کے دوران بہت یاد آئی۔
اقبالؒ نے کہا تو اپنے بارے میں تھا مگر جزوی طور پر یہ شعر ڈاکٹر جاوید اقبال پر بھی صادق آتا تھا ؎
کہتا ہوں وہی بات سمجھتا ہوں جسے حق
نے اَبلۂ مسجد ہوں‘ نہ تہذیب کا فرزند
ڈاکٹر جاوید اقبال پسر اقبالؒ کے طور پر تو مرجع خلائق تھے‘ اندرون و بیرون ملک ان کے مداحوں میں قدامت پسند‘ جدّت پرست اور پیر و جواں شامل تھے مگر ایک قانون دان‘ فلسفی اور اقبال شناس کے طور پر ان کی الگ پہچان تھی۔ تاہم انہیں اقبالؒ سے الگ شناخت کے لیے پاپڑ بہت بیلنے پڑے حتیٰ کہ آخری عمر میں وہ یوم اقبال ؒ کی تقریبات میں شرکت سے بھی گریز کرنے لگے کیوںکہ انہیں گلہ تھا کہ تقریبات میں اقبالؒ کے فکر و فلسفہ ‘ سیاسی‘ معاشی‘ عمرانی تصوّرات پر گفتگو اوّل تو ہوتی نہیں‘ ہو تو ہر شخص اپنے ذاتی خیالات و نظریات کو اقبال پر مسلط کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ دوسرے وہ ان مجالس کو ''عرس‘‘ قرار دیتے اور بزرگوں کے عرس پر سجادہ نشین کی حیثیت سے شرکت کو ناپسند کرتے۔
دوسرے بڑے لوگوں کی طرح ڈاکٹر جاوید اقبال کے خیالات میں تنوع تھا اور وہ جدّت و انفرادیت کا پہلو لیے ہوئے تھے۔ غورو فکر اور تجسّس و تعقّل کی عالمانہ عادت نے بعض معاملات میں انہیں ہماری قدیم فقہی روایت سے بغاوت پر آمادہ کیا جس میں سے ایک اجتہاد کا موضوع بھی تھا۔ اقبالؒ نے اس موضوع پر سوچا تو عمیق مطالعہ کے بعد اس نتیجے پر پہنچے کہ موجودہ دور میں انفرادی اجتہاد کی گنجائش نہیں ‘ یہ فقہی مسالک اور فرقہ ورانہ اختلاف کی بنا پر اجماع کا درجہ حاصل نہیں کر پائے گا۔ لہٰذا اجتہاد کو اداراتی شکل دیتے ہوئے عوام کی منتخب پارلیمینٹ کو ‘جس میں قرآن و سنت‘ قدیم و جدید علوم اور فقہی تحقیق پر کامل دسترس رکھنے والے افراد موجود ہوں یہ فریضہ سونپ دیا جائے۔
اقبالؒ برطانوی طرز کی مطلق العنان جمہوریت کے بجائے روحانی جمہوریت کا تصّور پیش کرتے ہیں۔ برطانوی جمہوریت کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ
They can bastardize a legitimate and legitimate a bastard.
جبکہ جس ریاست کا خواب اقبال نے دیکھا وہاں مسلمانوں کی اکثریت ہو گی اور روحانی جمہوریت پروان چڑھے تو مسلمانوں کی الگ ریاست کا مقصد پورا ہو سکتا ہے تاہم اقبال کے نام ایک تصوراتی خط میں جاوید اقبال اپنے والد محترم سے پوچھتے ہیں کہ ''آپ نے وضاحت نہیں کی کہ ''روحانی جمہوریت‘‘ سے آپ کی مراد کیا ہے؟ وہ پدر محترم سے یہ بھی پوچھتے ہیں کہ آپ کی''مجوزہ اسلامی ریاست ‘‘ میں اسلام کیسے نافذ کیا جائے گا؟‘‘
اقبالؒ برصغیر کے مسلمانوں ہی نہیں عالم اسلام کی ذہنی‘ علمی اور اخلاقی حالت سے بخوبی واقف تھے اور عوام کے ''حسن انتخاب‘‘ کے تجربے سے بھی گزرے۔ وہ خود پارلیمانی انتخاب میں ایک موری ممبر محمد دین کے ہاتھوں شکست کھا چکے تھے ‘ اس بنا پر انہوں نے پارلیمنٹ کی بالادستی کے کھوکھلے نعرے سے مرعوب ہونے کے بجائے اجتہاد کے لیے ایک ایسے طریقہ کار پر اصرار کیا جو قابل عمل ‘ قابل قبول اور اسلام کے آفاقی اصولوں سے ہم آہنگ ہو۔ جس پارلیمنٹ کا رکن بننے کے لیے ڈاکٹر جاوید اقبال کو بھی ان لوگوں کا مرہون منت ہونا پڑے جو شریعت بل پر سپریم کورٹ کے سابق جج‘ فرزند اقبالؒ اورمایہ ناز بیرسٹر کی رائے کو ردی کی ٹوکری میں آسانی سے پھینک دیں اسے اجتہادِ مطلق کا حق دینا دل گردے کا کام ہے۔
شریعت بل کا ذکر ڈاکٹر جاوید اقبال نے اپنی خود نوشت سوانح''اپنا گریباں چاک‘‘ میں کیا ہے۔ میاں نواز شریف نے ایسے شریعت بل کو پارلیمنٹ میں منظور کرانا چاہاجو دستور سے '' سوپرا‘‘ یا ماورا قوت کا حامل تھا۔ ڈرافٹ بل مسلم لیگ پارلیمانی پارٹی کی میٹنگ میں رکھا گیا۔ وزیر اعظم نے اس کی حمایت میں تقریر کی مگر بعض ممبران مثلاً میاں خورشید محمود قصوری‘ بیگم عابدہ حسین اور فخر امام وغیرہ نے اعتراض کیا۔ خورشید قصوری کو میاں صاحب نے جھاڑ پلا دی کہ اگر شریعت بل کی یہ شکل قبول نہیں تو آپ استعفا دے دیں اور وہ استعفا دینے پر تیار ہو گئے تھے۔ مجھے بھی ان لوگوں نے تبصرہ کرنے کے لیے کہا مگر میں نے خاموش رہنے کو بہتر سمجھا۔ یہ بل منظور ہو جاتا تو میاں صاحب کو وہ اختیارات مل جاتے جو افغانستان میں ملا محمد عمر کو حاصل تھے۔‘‘
آگے چل کر ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں :''میں نے بڑی محنت سے شریعت بل کا نیا ڈرافٹ تیار کیا جو خالصتاً جمہوری نوعیت کا تھا۔ میں نے مجید نظامی کی منت کر کے وزیر اعظم سے ملاقات کا وقت لیا اور جسٹس (ر) نسیم حسن شاہ کو بھی ساتھ لے گیا۔ میاں صاحب نے ڈرافٹ بل مجھ سے لے کر اپنی جیب میں رکھ لیا اور ادھر ادھر دیکھنا شروع کر دیاجو چلے جانے کا اشارہ تھا۔ نیشنل اسمبلی میں وزیر اعظم نے شریعت بل کو اپنی اصل شکل میں پیش کیا ۔ظاہر ہے میرا ڈرافٹ بل میاں صاحب کو پسند نہ آیا اور وہ پھینک دیا گیا۔‘‘ شریعت بل کا تنازع چل رہا تھا تو چودھری شجاعت حسین نے گلہ کیا کہ ڈاکٹر جاوید اقبال شریعت بل پر ووٹ دینے کے لیے تیار نہیں ‘ کہتے ہیں پہلے وزیر اعظم مجھے قائل کریں‘ کوئی پُچھے وئی ٹکٹ لیندیں تُسی کسے نوں قائل کیتا سی کہ ہُن اسی تہانوں قائل کر ئیے۔
1997ء میں میرے عزیز بھائی خورشید گیلانی صاحب مرحوم نے ڈاکٹر صاحب کی معیت میں جمال الدین افغانی ؒ(جنہیں ایرانی اسد آبادی قرار دیتے ہیں) کی حیات و خدمات کے سلسلے میں کانفرنس میں شرکت کے لیے ایران کا دورہ کیا۔ خورشید صاحب ‘ڈاکٹر صاحب کی شخصیت سے پہلے بھی متاثر تھے مگر واپسی پر گرویدہ نظر آئے۔ بتایا کہ ڈیڑھ ہفتے کے قیام میں ڈاکٹر صاحب کی درویش صفت‘ فنافی العلم شخصیت دیکھنے کو ملی جو چوبیس گھنٹے میں کم سوتے‘ کم کھاتے اور زیادہ سے زیادہ تفکّر و تجسّس پر وقت صرف کرتے ہیں یا مختلف علمی‘ ادبی‘ روحانی اور فلسفیانہ موضوع پر بحث و مباحثہ میں مصروف رہتے ہیں۔ عجزو انکسار اس قدر کہ طالب علم سے بحث و تمحیص میں بھی کبھی اپنی رائے پر اصرار کرتے ہیں نہ رعب جھاڑنے کی کوشش ورنہ یہاں تو ہر ایک اپنی ذات اور رائے کو دوسروں پر مسلط کرنے کے لیے بے تاب نظر آتا ہے۔ گستاخی فرشتہ بھی پسند نہیںاپنی جناب میں۔
عرصہ دراز تک میں نے جس اخبار میں کام کیا ڈاکٹر صاحب کا وہاں آنا جانا بہت تھا۔ ہمیشہ شفقت سے پیش آئے۔1993ء میں اسمبلی بحال ہوئی تو میں نے ڈاکٹر صاحب سے نواز‘ اسحٰق تعلقات اور مستقبل کے امکانات پر انٹرویو کیا۔ ڈاکٹر صاحب کی رائے تھی کہ اگر دونوں نے ہوش کے ناخن نہ لیے تو آرمی چیف کو مداخلت کرنی پڑے گی اور دونوں کی ایوان اقتدار سے بے دخلی یقینی ہے۔ پھر وہی ہوا‘ باقی تاریخ ہے۔ ڈاکٹر صاحب نجی محفلوں میں بذلہ سنجی کا مظاہرہ بھی کرتے اور مخالفانہ رائے سنجیدگی اور توجہ سے سنتے۔ جذباتی کبھی نہ ہوتے تاہم انہیں ایک شہید کے والد سے عقیدت سے ملتے میں نے پہلی بار دیکھا اور سوچتا رہا کہ ڈاکٹر صاحب محض عقل کے غلام نہیں ‘اللہ تعالیٰ نے انہیں گداز دل عطا کیا ہے ۔ ڈاکٹر جاوید اقبالؒ رخصت ہو گئے۔ اقبالؒ شناسی کا ایک عہد ختم ہوا ؎
جو بادہ کش تھے پرانے وہ اٹھتے جاتے ہیں
کہیں سے آب بقائے دوام لے ساقی