ہر گھر سے بھوکا نکلے گا ‘تم کتنے بھوکے مارو گے

لاہور کا حلقہ این اے 122اس لحاظ سے خوش نصیب ہے کہ اڑھائی سال کے دوران دو بار انتخابی عمل سے گزرا‘ تاحال میڈیا کی شہ سُرخیوں میں ہے‘ یہاں پاکستان کا مہنگا ترین الیکشن لڑا گیا اور پوری دُنیا میں اس حلقے‘ متحارب اُمیدواروں اور مہنگے الیکشن کی دھوم مچی ہے۔
حقیقی اعداد و شمار تو دستیاب نہیں‘ اندازہ یہ ہے کہ ایک ارب روپے کے اخراجات ہوئے۔ یہ اس غریب ملک کے الیکشن کا حال ہے جہاں کی نصف آبادی کو دو وقت پیٹ بھر کر کھانانصیب نہیں‘ عید کے پُر مسرت مواقع پر بعض مفلس والدین اپنے بچوں کی معصوم خواہشات پوری نہ ہونے کے سبب موت کو گلے لگا لیتے ہیں اور غذائی کمی کے باعث مرنے والوں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ ضمنی الیکشن پر ایک ارب کے اخراجات موجودہ غیر منصفانہ‘ غیر مساویانہ سیاسی‘ سماجی‘ معاشی اور انتخابی نظام کے منہ پر زناٹے دار تھپڑ ہے مگر کوئی سوچے تو؟۔ نمودو نمائش ‘ فضول خرچی ‘ بے ضابطگی اور وسائل کے ضیاع کو جمہوریت کا حسن اور حالات کا تقاضا قرار دینے والے مگر کیوں سوچیں؟
موجودہ بے ننگ و نام‘ دشمنِ عوام نظام کے ثنا خوانوں کو تکلیف تو بہت ہوتی ہے مگر اس سوال کا جواب اُن کے پاس بھی نہیں کہ الیکشن مہنگے سے مہنگے اور چند خاندان امیر سے امیر تر‘ مافیازطاقتور سے طاقتور ترین اور سیاسی جماعتوں کے علاوہ سیاسی کارکن روز بروز کمزور سے کمزور ترین ہوتے رہے تو نتیجہ کیا نکلے گا؟۔ چند متمول خاندانوں اور مافیاز کی بلا شرکت ِغیرے اجارہ داری یا کچھ اور؟۔ صرف مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی ہی نہیں دیگر بڑی جماعتیں بھی اسی نظام زر کو مضبوط کر رہی ہیں اور مخلص‘فعال اور نظریاتی کارکن صرف ایندھن کے طور پر استعمال ہو رہے ہیں۔ بلدیاتی انتخابات میں پشاور سے کراچی تک مختلف جماعتوں سے ٹکٹ حاصل کرنے والوں کی فہرست پر اچٹتی سی نظر ڈال کر بآسانی معلوم کیا جا سکتا ہے کہ انہیں دولت‘ برادری اور طاقت کے سوا کس میرٹ پر نامزدگی کا مستحق سمجھا گیا۔
حکمران اشرافیہ کی سوچ یہ نظر آتی ہے کہ عوام کھلونوں سے بہلنے اور ڈگڈگی پر اچھلنے والے بچے ہیں جنہیں نعروں سے بیوقوف بنایا جا سکتا ہے۔یہ اپنے پائوں میں جوتی‘ تن پر کپڑا اور منہ میں لقمہ نہ ہونے پر بھی استحصالی طبقے کی امارت دیکھ کر خوش ہوتے ہیں‘ ورنہ یہ کیسے ممکن ہے کہ صرف موجودہ نہیں سابقہ حکومتیں بھی بجلی کے سستے منصوبوں کو ٹھپ کرکے مہنگے اور ماحول دشمن پراجیکٹس کو اپنا کارنامہ قرار دیں اور پریشان نہ ہوں۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کے دور میں تھرمل پاور پراجیکٹس کا غلغلہ بلند ہوا‘ ہر گھر میں بجلی آئے گی کا نعرہ گونجا تو ''باشعور عوام‘‘ کی باچھیں کھل گئیں۔ لوٹ مار کا بازار گرم تھا۔ قومی سرمایہ کک بیکس کی صورت میں بے دردی سے بیرون ملک منتقل ہو رہا تھا۔ صاف نظر آ رہا تھا کہ درآمدی تیل سے چلنے والے یہ پاور پلانٹ وقتی طور پر لوڈشیڈنگ کا خاتمہ کریں گے مگر بالآخر قومی معیشت کا بیڑہ غرق ہو گا اور لوگ بل دینے کی نسبت جان دینے کوترجیح دیں گے مگر جیالے حکومت کی کامیابی و کامرانی پر دھمال ڈال رہے تھے۔ موجودہ حکومت نے گشتی قرضے ختم کرنے کے لیے ایک بار پانچ کھرب روپے کی ادائیگی کی مگر لوڈشیڈنگ ختم نہیں ہوئی۔ ان قرضوں کا حجم پھر پانچ کھرب تک پہنچ گیا ہے اور کئی پاور پلانٹ بند پڑے ہیں۔یہ رقم اگر نیلم جہلم پاور پراجیکٹ اور بھاشا دیامیر کے لیے مختص کی جاتی تو دیر سے سہی مگر عوام کو سستی بجلی مل سکتی تھی مگر دور کی کون سوچتا ہے۔
میاں نواز شریف 1995-96ء میں تھرمل پاور پلانٹس کے سب سے بڑے ناقد تھے۔ پچھلے دور حکومت میں انہوں نے رینٹل پاور پلانٹس کو ہدف تنقید بنایا اور خواجہ آصف نے ان کے خلاف عدالت عظمیٰ کا دروازہ بھی کھٹکھٹایا مگر جب اپنی باری آئی تو کم سے کم وقت میں بجلی کی پیداوار بڑھانے اور لوڈشیڈنگ کے خاتمے کا کریڈٹ لینے کے لیے تھرمل ‘ سولر اور دیگر مہنگے منصوبوں کا افتتاح شروع کر دیا۔ ترجیح صرف یہ ہے کہ بجلی کی پیداوار بڑھنی چاہیے ‘خواہ عام شہری اسے خریدنے کے قابل نہ ہو اور صنعتی و زرعی شعبے کی پیداواری لاگت کئی گنا بڑھ جائے‘ مصنوعات اور اجناس کو کوئی اندرون ِملک خرید سکے ‘نہ بیرون ملک۔
خوشحال بالائی طبقہ کی ضرورت بجلی کی پیداوار میں اضافہ ہے۔ بجلی کے نرخ بجلی چوروں کا مسئلہ ہے‘ نہ گراں فروشوں اور ناجائز منافع خوروں کا۔سو روپے فی یونٹ بجلی بھی انہیں وارا کھاتی ہے۔ انہوں نے یہ بوجھ نیچے منتقل کر دینا ہوتا ہے۔حکمران ویسے ہی مفت کی بجلی استعمال کرتے ہیں۔ اصل مسئلہ تو حلال کی کمائی سے بل ادا کرنے والوں کا ہے جو پرویز مشرف کے دور میں بجلی کا بل ہزار بارہ سو ادا کرتے تھے‘آصف علی زرداری کے دور میں دو اڑھائی ہزار اور اب چار پانچ ہزار کی ادائیگی پر مجبور ہیں۔ حالانکہ گزشتہ ایک سال کے دوران عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں ڈیڑھ سو ڈالر فی بیرل سے گر کرچالیس ڈالر فی بیرل تک پہنچ گئی ہیں اورتھرمل پاور پراجیکٹس کی پیداواری لاگت کافی کم ہو چکی ہے۔
داسو اوربھاشا دیا میر کو تو چھوڑیے کہ ابھی ابتدائی مرحلے میں ہیں اور کئی تکنیکی و سیاسی مسائل سے دوچار ۔ نیلم جہلم پاور پراجیکٹ سستی پن بجلی کا منصوبہ ہے مگر زرداری حکومت کی طرح موجودہ حکومت بھی اپنے دعوئوں کے مطابق دسمبر2015ء تک تکمیل کا وعدہ ایفا کرنے میں ناکام ہو گئی ہے کیونکہ حکومت اس منصوبے کے لیے مطلوبہ فنڈز فراہم کرنے پر تیار نہیں۔دو تین روز قبل سکھر بیراج کی ریکارڈ مدت میں مرمت کرانے والے جنرل (ر) محمد زبیر نے نیلم جہلم پاور پراجیکٹ کے سی ای او کے عہدے سے استعفیٰ دیدیا کیونکہ ایک طرف تو انہیں وعدے کے مطابق فنڈز نہیں دیے جا رہے تھے اور کام جاری رکھنے میں رکاوٹ پیش آ رہی تھی، دوسرے اخبارات میں نئے سی ای او کی تقرری کے لیے اشتہار شائع کرا دیا گیا جسے جنرل زبیر نے اپنی توہین سمجھا ۔ 
سابقہ حکومت کی مجرمانہ غفلت‘ ٹھیکیدار چینی فرم کے بڑھتے ہوئے مطالبات اور اس پراجیکٹ کو فنانس کرنے والے کنسورشیم کی طرف سے لیت و لعل کے سبب یہ پراجیکٹ2007ء سے زیر تعمیر ہے۔ اسّی کروڑ ڈالر کے اس منصوبے کی لاگت پیپلز پارٹی کے دور میں اڑھائی ارب ڈالر تک جا پہنچی جبکہ موجودہ حکومت کے دور میں لاگت کا تخمینہ کم و بیش چار ارب ڈالر ہے۔ پاکستان میں بجلی کا ہر صارف عرصۂ دراز سے نیلم جہلم سرچارج کے نام سے ماہانہ مخصوص رقم ادا کرتا چلا آ رہا ہے‘ اس کے باوجود پہلے منصوبے کی تکمیل کی مدت دسمبر 2015ء سے بڑھا کر دسمبر2016ء کی گئی ‘اب 2017ء کے اوائل میں تکمیل کا مژدہ سنایا گیا ہے جو حتمی نہیں جبکہ اس منصوبے سے 969میگاواٹ سستی بجلی پیدا ہو گی۔ قائد اعظم سولر پارک کے مہنگے منصوبے کے برابر مگر نرخ نصف سے بھی کم۔
گزشتہ روز عمران خان اور وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا پرویز خٹک نے صوبے کے عوام کو مژدہ سنایا کہ پن بجلی کے پندرہ منصوبے زیر تکمیل ہیں جن سے شہریوں کو سستی بجلی میسر آئیگی۔ پنجاب کے مقابلے میں یہ بہتر سوچ ہے کاش عمران خان میاں نواز شریف کے ساتھ مل کر کالا باغ ڈیم کے حق میں مہم چلاتے اور تین ہزار میگاواٹ سستی بجلی کے اس منصوبے کی تکمیل کے ذریعے ملک بھر کے عوام کی دعائیں لیتے مگر وہ بھی پرویز خٹک کے سامنے بے بس ہیں جبکہ وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا بھی کالا باغ ڈیم کا نام سن کر سرخپوشوں کی طرح لال پیلے ہونے لگتے ہیں۔
عوام کی ضرورت دو وقت کی روکھی سوکھی روٹی‘ باعزت روزگار‘ بچوں کے لیے تعلیم کے مواقع‘ جان و مال کا تحفظ‘ طبی سہولتیں ہیں اور ایک بلب‘ ایک پنکھا چلانے کے لیے سستی بجلی مگر اشرافیہ کے مشاغل مہنگے انتخابات‘ میگا پراجیکٹس اور امریکہ و فرانس کے ہم پلّہ سہولیات و مراعات۔ موجودہ نظام ان مشاغل کے لیے سازگار ہے مگر معاشرے میںبدامنی‘ بے چینی‘ غربت و افلاس‘ عدم مساوات ‘ ناانصافی اور بھوک بڑھ رہی ہے جس کا کسی کو احساس تک نہیں۔شاید اس وقت کا انتظار کیا جا رہا ہے جب چہار سو یہ نعرہ گونجے گا ؎
تم پیٹ پہ لات تو مار چکے
اب کتنے پائوں پسارو گے
تم روٹی کپڑا کیا دو گے
تم لوگ کفن بھی اتارو گے
یہ بازی بھوک کی بازی ہے
یہ بازی تم ہی ہارو گے
ہرگھر سے بھوکا نکلے گا
تم کتنے بھوکے مارو گے

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں