شکوۂ بے جا

سابق صدر آصف علی زرداری کا واویلا قابل فہم ہے۔ ڈاکٹر عاصم حسین کی گرفتاری پر انہوں نے اینٹ سے اینٹ بجانے کی دھمکی دی تھی‘ ان دنوں لندن اور دبئی میں وہ اینٹ سے اینٹ بجا رہے ہیں مگر اس کی آواز جیالوں کو بھی سنائی نہیں دیتی۔ شنید یہ ہے کہ میاں نواز شریف کی امریکہ سے برطانیہ واپسی پر وہ وزیر اعظم کو قصۂ غم سنانے کی تگ و دو کر رہے ہیں مگر اُمید کم ہے کہ ملاقات ہو۔
گزشتہ روز نیب نے جن سیاستدانوں کے خلاف کارروائی شروع کرنے کا عندیہ دیا اتفاق سے ان کا تعلق پیپلز پارٹی سے ہے جس پر زرداری صاحب سیخ پا ہیں۔ انہوں نے طنزیہ انداز میں نیب سے یہ بھی کہا ہے کہ وہ اپنا دفتر چھوڑ کر پیپلز پارٹی سیکرٹریٹ میں منتقل ہو جائے۔ تجویز معقول ہے ۔ پیپلز پارٹی سیکرٹریٹ کی ویرانی میں کمی آئے گی اور نیب کا کرایہ بھی بچے گا۔ مگر اس سے پیر مظہرالحق‘ ارباب جہانگیر‘ عاصمہ جہانگیر اور امین عمرانی کو کیا فائدہ ؟ 
بلا شبہ پیپلز پارٹی کے سوا سب ٹھیک نہیں‘ کرپشن کے حمام میں دوسرے سیاستدان بھی ننگے ہیں مگر دو سال پہلے تک پیپلز پارٹی وفاق میں برسر اقتدار تھی‘ سندھ میں اس کی اپنی حکومت تھی اور نیب کو کسی کے خلاف کارروائی کے لیے حکومت کی طرف دیکھنا پڑتا تھا مگر اس وقت زرداری صاحب پر مفاہمت کا بھوت سوار تھا اور' من ترا حاجی بگویم تو مرا حاجی بگو‘ کی پالیسی پر گامزن تھے اب بھی وہ کسی دوسرے کا نام نہیں لیتے بس اپنے ساتھیوں کی کرپشن پر مٹی ڈالنے اور ان سے کسی قسم کا تعرض نہ کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں جس کی پزیرائی موجودہ حالات میں مشکل نظر آتی ہے۔
ماضی میں احتساب کے نام پر سیاسی انتقام کا بازار گرم رہا۔ ایوب خان کے دور میں ایبڈو کا قانون آیا تو کنونشن لیگ میں شامل ہونے اور فیلڈ مارشل کے سامنے کورنش بجا لانے والوں کے سات خون معاف کر دیئے گئے مگر قائد اعظم کے جن ساتھیوں نے درباری بننا قبول نہ کیا انہیں سیاست اور انتخابات میں حصہ لینے سے روک دیا گیا۔ ان میں سے بعض وہ تھے جن کے بارے میں بلا خوف تردید کہا جا سکتا ہے کہ وہ 'دامن نچوڑ دیں تو فرشتے وضو کریں‘۔الطاف گوہر‘ قدرت اللہ شہاب اور م ب ماجد کی کتابوں میں فہرست موجود ہے۔جنرل پرویز مشرف تک یہ سلسلہ جاری رہا۔
محترمہ بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف کے دور میں بھی احتساب اور انتقام میں لکیر کھینچنا مشکل تھا تاہم اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ سیاستدان پیدائشی پوتّر ہیں اور قومی خزانے کو انہوں نے لوٹا ہی نہیں۔ لوٹا اور بے دردی سے لوٹا۔ ان کے بیرون ملک بینک اکائونٹس ‘ اثاثے اور کاروبار اور ملکی معیشت کے علاوہ اداروں کی تباہی‘عوام کی حالت زار اس کا ثبوت ہے۔ زرداری صاحب اور ان کے ساتھی بیرون ملک عیش و عشرت کی جو زندگی بسر کر رہے ہیں یا موجودہ حکمرانوں کے عزیز و اقارب اور ذاتی و جماعتی وفادار وںکے کاروبار اور اثاثوں میں جو دن دگنی رات چوگنی ترقی ہوئی وہ لوٹ مار کا شاخسانہ اور اختیارات کے ناجائز استعمال کا نتیجہ ہے۔ ع
جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے
ریلوے‘ سٹیل ملز‘ پی آئی اے‘ آئی این سی ایل‘ بیت المال ‘ او جی ڈی سی ایل میں جو لوٹ مچی اس کا علم کس کو نہیں۔ گزشتہ دو سال کے دوران گشتی قرضوں کی ادائیگی میں جو گھپلے ہوئے قائد اعظم سولر پارک‘ نندی پور اور نیلم جہلم پاور پراجیکٹ کے حوالے سے جو اطلاعات میڈیا کے ذریعے منظر عام پر آ رہی ہیں اور نیپرا کے علاوہ آڈیٹر جنرل کی رپورٹ میں جن ڈکیتیوں کا ذکر ملتا ہے ان کا ذمہ دار کوئی سول و خاکی بیوروکریٹ نہیں ہمارے سیاستدان ہیں جن کی ملی بھگت ‘ چشم پوشی یا نااہلی کے سبب کھربوں روپے خرد بُرد ہوئے اور معدنی وسائل ‘ قدرت کی عطا کردہ نعمتوں اور محنتی افرادی قوت سے مالا مال یہ ملک حریص لٹیروں کی چراگاہ بن گیا۔
زرداری صاحب نے اگر اپنے دور حکمرانی میں وزیروں‘ مشیروں اور لاڈلوں کو ندیدے پن سے روکا ہوتا‘ یوسف رضا گیلانی ‘ راجہ پرویز اشرف‘ مخدوم امین فہیم‘ ڈاکٹر عاصم حسین اور دیگر کو امانت میں خیانت نہ کرنے کی تلقین کی ہوتی اور فریال تالپور کو مختلف وزارتوں کے علاوہ سندھ و آزاد کشمیر کی حکومتوں میں دخل اندازی کی اجازت نہ دی ہوتی تو کیا پھر بھی نیب یا رینجرز کو کسی کے خلاف کارروائی کی جرأت ہوتی‘ اگر کوئی ادارہ انتقامی کارروائی کرتا تو عوام الزامات پر یقین کرتے؟ اور اگر ایم کیو ایم نے بھتہ خوروں‘ ٹارگٹ کلرز اور دہشت گردوں کو اپنی صفوں سے نکال باہر کیا ہوتا تو اس حال کو پہنچتی کہ وہ کراچی و حیدر آباد میں ہڑتال کرانے کے قابل نہ اپنے سیکٹرز کمانڈرز کی صفائی پیش کرنے کی پوزیشن میں۔ بالآخر حکومتی شرائط پر اسے استعفے واپس لینے کی تدبیر سوجھی۔
زرداری صاحب کا یہ مطالبہ بجا کہ دوسروں کا احتساب بھی ہونا چاہیے‘ قوم کسی سے امتیازی سلوک اور انتقامی کارروائیوں کے حق میں نہیں احتساب وہ چاہتی ہے بلا تفریق اور کسی تعصب کے بغیر۔ایسا احتساب نہیں‘ پنجاب کا لفظ سنتے ہی جس کی ٹانگیں کانپنے لگیں اور غشی کا دورہ پڑ جائے۔ مگر کیا یہ وہی نیب نہیں جس کے چیئرمین کا تقرر مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی نے مل کرکیا تھا اور دونوں جمہوری قوتوں کی فخریہ پیشکش قرار دیا گیا تھا۔ نیب اگر اپنی ترجیحات کے مطابق آگے بڑھ رہی ہے اور فوج و رینجرز کی پشت پناہی اُسے حاصل ہے تو احتساب کے عمل کو یکطرفہ اور مبنی بر امتیاز ثابت کرنے کے بجائے اس بات پر زور کیوں نہ دیا جائے کہ اس کا دائرہ دوسری جماعتوں ‘ اور دوسرے صوبوں تک وسیع کیا جائے اور احتساب کو نیشنل ایکشن پلان کا حصہ بنا کر دہشت گردوں‘ بھتہ خوروں‘ ٹارگٹ کلرزکی طرح قومی لٹیروں کی بیخ کنی کی جائے یہ معاشی دہشت گرد کسی نرمی کے مستحق ہیں نہ ترس کے قابل۔
غضب خداکا‘ ملک لٹتا رہا‘ اب بھی لٹ رہا ہے مگر پارلیمنٹ کو پروا ہے نہ جمہوریت کا راگ الاپنے والوں کو فکر۔ جرم اور سیاست کو ایک دوسرے سے الگ کرنے کی کوشش ہو یا لوٹ مار اور جمہوریت میں تفریق پیدا کرنے کی تدبیر دونوں پر اس ملک کی قسمت کی مالک اور جمہوریت کی علمبردار اشرافیہ کو اعتراض ہے اور وہ ایسی ہر سعی کو ناکام بنانے کے لیے متحد ہونے میں دیر نہیں لگاتی۔ کراچی میں سرکاری واٹر سپلائی کا پانی بک رہا ہے۔ ڈینگی کے خاتمے کے لیے منگوائی جانے والی ادویات سٹور میں پڑے پڑے خراب ہو گئیں۔ لاکھوں ایکڑ سرکاری زمین من پسند افراد کو الاٹ ہوئی‘ ایمبولینس تک کرائے پر چلتی رہی مگر مجال کہ کسی نے روک تھام کی کوشش کی ہو۔ بلاول‘ قائم علی شاہ اور زرداری سب کو سانپ سونگھ گیا مگر ڈاکٹر عاصم حسین گرفتار ہوئے تو جمہوریت خطرے میں پڑ گئی۔ گزشتہ روز سندھ کے ایڈووکیٹ جنرل نے ہائی کورٹ کے سامنے ڈاکٹر عاصم حسین کی گرفتاری کو غیر قانونی دے ڈالا۔
ضرب عضب آپریشن کی طرح کراچی و بلوچستان ٹارگٹڈ آپریشن ہماری ملکی بقاء‘ سلامتی کا ضامن ہے اور کامیابی کے سوا ریاست کے سامنے کوئی آپشن نہیں‘ بلا امتیاز و تفریق احتساب کے بغیر قومی استحکام اور حقیقی جمہوری نظام کی پائیدار بنیادوں پر ترویج ممکن نہیں لاہور اور اوکاڑہ کے انتخابات نے ثابت کیا ہے کہ دھن دولت‘ نظریے اور جماعتوں پر غالب آ جاتا جا رہا ہے اور یہ بے محابا کرپشن اور پیسے کی اندھی دوڑ کا اعجاز ہے۔ ہر بار انتخابی کامیابی‘ بار بار حکومت سازی ‘ہمیشہ دوسروں پر معاشی بالادستی کے لیے بے تحاشا دولت‘ حکمران اشرافیہ کا عقیدہ و ایمان بن چکی ہے۔ جائز ذرائع سے کمائی دولت سے انتخابی سیاست کا مہنگا کاروبار چل سکتا ہے نہ وڈیروں‘ لٹیروں اور وسائل خوروں کا دربار۔
احتساب کی سست رفتاری اور دو جماعتوں تک محدود رکھنے کی پالیسی البتہ محل نظر ہے اور لٹیروں کو پروپیگنڈے کا سنہری موقع فراہم کرنے کے مترادف۔بعض لوگ نیب کو لانڈری قرار دیتے ہیں جو لٹیروں کے داغ دھبے صاف کر تی ہے۔ اگر واقعی احتساب مطلوب ہے تو سیاسی مصلحتوں سے بالاتر ہو کر بلا تمیز کیا جائے ورنہ گناہ بے لذت سے بہتر ہے اس کی بساط لپیٹ دی جائے ۔کم از کم احتساب کے لفظ کا تقدس اور عوام کی اُمیدیں برقرار رہیں۔ کیا ضروری ہے کہ عوام کے ہر خواب کی تعبیر بھیانک ہو اوروہ خواب دیکھنا بھی چھوڑ دیں۔
زرداری صاحب کا شکوہ مگر بے جا ہے ۔ وہ لٹیروں کا احتساب کرتے تو 2013ء کے انتخاب میں پارٹی کی وہ درگت نہ بنتی جس کا دکھ ہر جمہوریت پسند کو ہے۔ع
شکوہ بے جا بھی کرے کوئی تو لازم ہے شعور

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں