گواہ کیا کرتے

بالآخر وہی ہوا جو زور آوروں اور ستمگروں کے معاشرے میں ہوتا ہے۔ ایک یتیم بچے کے قتل میں ملوث سابق وزیر اورجاگیر دار کا صاحبزادہ اور اس کے پانچ محافظ باعزت بری ہو گئے۔ زین رئوف کی بیوہ ماں محض اتنا شور مچا کر چپ ہو گئی کہ اس کے لخت جگر کے خون کی قیمت صرف چار لاکھ روپے لگائی گئی ہے۔
سوشل میڈیا پر زین کے ماموں اور دیگر ایک درجن گواہوں پر لعن طعن ہو رہی ہے کہ وہ پولیس کے سامنے دیے گئے بیانات سے مُکر گئے۔ چھ ملزموں میں سے کسی کو بھی پہچان نہ پائے جس کے بعد انسداد دہشت گردی کی عدالت کے لیے ملزموں کو بری کرنے کے سوا کوئی چارہ نہ رہا ؎
نہ مدعّی‘ نہ شہادت حساب پاک ہوا
یہ خونِ خاک نشیناں تھا‘ رزق خاک ہوا
گواہی ایک مقدس فریضہ اور انسان کی بنیادی ذمہ داری ہے، جس سے انحراف ظلم کا ساتھ دینے اور ظالم کے حوصلے بلند کرنے کے مترادف ہے۔ مگر جس معاشرے میں گواہوں کو کسی قسم کا تحفظ ہونہ شہادت کی کوئی اہمیت ‘وہاں یہ جرأت کوئی کرے تو کیوں؟ کراچی میں مقتول شاہ زیب کے قاتلوں کے خلاف گواہی دینے والوں کو کیا ملا؟ باپ کو اپنے نور نظر‘ ماں کو لخت جگر اور بہنوں کو دل کے سرور کا خون معاف کرنے پر مجبور کر دیا گیا کیونکہ اپنے اوپر آنے والے بے پناہ دبائو‘ مستقبل کے اندیشوں اور خوف تنہائی کا مقابلہ کرنے کی سکت کسی میں نہ تھی۔ طاقتور افراد اور ادارے قاتلوں کے مددگار تھے اور مقتول کے خاندان کو معلوم تھا کہ یہاں انصاف ملنے کے بعد اس کی کیا قیمت چکانا پڑتی ہے۔
شاہ زیب تو پھر بھی خوش قسمت تھا کہ جب مقتول کے ورثاء نے قاتلوں سے صلح کر لی تو اس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے سیاسی دبائو کے تحت ہونے والی اس اندر خانے سودے بازی کا از خود نوٹس لیا‘ آئی جی سندھ کو طلب کیا اور شاہ رخ سمیت ملزموں کی رہائی روک دی مگر زین رئوف کی بیوہ ماں کی تو کوئی فریاد سننے والا بھی نہیں۔ گواہ بے چارے کیا کرتے جبکہ انہیں کراچی کے صحافی ولی خان بابر کے گواہوں کا انجام یاد ہے‘ ایک ایک کر کے دس گواہ قتل کر دیئے گئے اور گزشتہ روز اس کیس کی پیروی کرنے والے وکیل کی حفاظت پر مامور دو پولیس اہلکار اسلم اور شاہنواز کو بھی نامعلوم قاتلوں نے اگلے جہاں پہنچا دیا۔
پاکستان میں یوں تو کئی قسم کے قوانین نافذ ہیں‘ شرعی قوانین‘ اینگلو سیکسن لاز اورفاٹا پاٹا میں ایف سی آر، مگر سب سے مؤثر،مقبول اوررائج الوقت یہ غیر تحریری قانون ہے کہ قاتل‘ ڈکیت‘ ٹارگٹ کلر‘ بھتہ خور اور قبضہ گیر اگر طاقتور ‘ بارسوخ‘ دولت مند اور اقتدار کا کھلاڑی ہو تو اس کے صرف سات نہیں سات سو خون معاف ہیں۔ قومی دولت لوٹنا جرم نہیں‘ اعلیٰ مناصب کے لیے سب سے بڑی کوالیفکیشن ہے؛ البتہ اس الزام میں کوئی غریب قانون کے ہتھے چڑھ جائے تو اکیلا ملزم نہیں پورا خاندان گردن زدنی ‘ گھان بچہ کو لہو پلوا دیا جائے۔
لاہور میں اکیلا زین رئوف قتل نہیں ہوا‘ روزانہ درجنوں قتل ہوتے ہیں۔ کسی کا قاتل گرفتار نہیں ہوتا، ہو جائے تو رہا ہوتے دیر نہیں لگتی، سزا بہت کم کو ملتی ہے۔چند روز قبل ڈی ایس پی کا صاحبزادہ جوہر ٹائون میں ایک ٹی وی چینل سے وابستہ کارکن رانا بلال کو گاڑی تلے کچل کر فرار ہو گیا جبکہ گرفتاری کے بعد پولیس سٹیشن میں اس کی آئوبھگت یوں ہوتی رہی جیسی یہ پولیس سٹیشن نہیں ماسی دا ویہڑا ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان میں ایسا کوئی جزیرہ نہیں جہاں طاقت‘ دولت اور اثرو رسوخ کا سکّہ نہ چلتا ہو اور جہاں یہ دھمکی نہ ملتی ہو کہ ایک بیٹا چلا گیا‘ اب باقی اولاد کی خیر منائو۔ مقتول کی کوئی بہن ہو تو اس کی عزت خطرے میں اور پیروی کرنے والا باپ‘ بھائی یا ماموں یکساں دھمکیوں اور دبائو کا شکار۔
پاکستان میں ریاست کی رٹ اور قانون کی عملداری صرف کمزور‘ بے وسیلہ اور غریب تک محدود ہے۔ طاقت ور افراد‘ گروہوں اور مافیاز کا دبائو یہ برداشت نہیں کر سکتی۔ قتل کے عینی شاہدین کو تحفظ دینے سے یہ قاصر ہے اور عدالتیں اگر کبھی بھولے چوکے کسی مظلوم و بے کس کے حق میں فیصلہ کر دیں تو اس پر عملدرآمد اُن کا فرض اولین نہیں۔ اس ملک میں صرف گواہ نہیں‘ تفتیشی افسر اور جج مارے جاتے ہیں اور قاتلوں کا علم ہونے کے باوجود کوئی ان سے تعرض نہیں کرتا۔ مقتولوں کو انصاف ملنا تو درکنار ان کے لواحقین کا پرسان حال بھی کوئی نہیں ہوتا۔ریاست نہ معاشرہ اور نہ سول سوسائٹی۔
لاہور میں ماڈل ٹائون کا سانحہ ہو ا‘چودہ پندرہ افراد کی جان چلی گئی۔ اسّی پچاسی زخمی‘ جن میں کئی زندگی بھر کے لیے معذور ہو گئے مگر اس واقعہ کے حقیقی ذمہ داروں کا ''سراغ‘‘ نہیں ملا۔ ماتحت پولیس اہلکار محض احکام ماننے کی سزا بھگت رہے ہیں‘ کوئی پوچھنے والا نہیں۔ ان پولیس اہلکاروں کی ڈاکٹر طاہر القادری یا ان کے پیروکاروں سے دشمنی کیا تھی؟ ایک منظم فورس کے ارکان سرکاری اسلحہ سے نہتے شہریوں پر کیوں چڑھ دوڑے اور ایک سو افراد کو گولیوں سے چھلنی کر دیا؟کسی نے پوچھا نہ جواب ملا۔
سب جانتے ہیں کہ اس ملک میں جینے کے دو طریقے ہیں! طاقت و دولت اور اختیار کے زور پر اندھیر مچائے رکھو۔ قتل‘ ڈکیتی‘ دھونس‘ دھاندلی اور دیگر سرگرمیوں کو شعار کرویا پھر قاتلوں‘ اغوا کاروں‘ وحشی درندوں‘ عزتوں‘ عصمتوں کے لٹیروں کے سامنے سرنگوں ہو کر اپنا وقت گزارو۔ باقی سب کہنے کی باتیں ہیں۔ مقتول زین کے وارثوں اور گواہوں نے دوسرا طریقہ اختیار کیا کیونکہ انہیں نظر آ گیا کہ وہ ڈٹ کر کھڑے رہیں، پھربھی جیت دولت‘ طاقت اور اثرو رسوخ کی ہو گی۔ گواہ اگر مرضی سے پیچھے نہ ہٹیں تو پولیس اور قاتلوں کے ہمنوا زبردستی مجبور کر دیتے ہیں ہر عدالت میں جھوٹے گواہ پیش کرنے اور سچے گواہ منحرف کرانے کا کاروبار آج بھی جاری ہے اور انہیں روکنے والا کوئی مائی کا لال ابھی پیدا نہیں ہوا۔
برسوں قبل مظفر گڑھ میں مختاراں مائی کا مشہور زمانہ کیس قومی اور بین الاقوامی ذرائع ابلاغ کی زینت بنا۔ لاہور ہائی کورٹ کے ملتان بنچ نے سیشن کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دے کر مختار مائی کیس میں ماخوذ ملزمان کی رہائی کا حکم دیا۔ حکومت نے فی الفور ملزمان کو امتناعی قوانین کے تحت نظر بند کر دیا‘ رہائی عمل میں نہیں آئی۔ شاہ زیب کیس میں سپریم کورٹ نے ملزموں کو رہا کرنے سے روک دیا مگر اس وقت زین کی بیوہ ماں ایک طرف ہے اورطاقت‘ دولت‘ اثرورسوخ جسے حکومتی سرپرستی حاصل ہے‘ دوسری طرف۔ انسداد دہشت گردی کی عدالت نے فیصلہ شہادتوں پر کرنا تھا‘ گواہوں کے مُکرنے سے عدالت کے سامنے رہائی کے سوا بظاہر کوئی چارہ کار نہ تھا۔ حکومت البتہ اپیل کر سکتی ہے اور دوبارہ تفتیش کے احکامات جاری بھی‘ کہ آخر سارے گواہ شہادتوں سے کیسے مُکر گئے اور میڈیا کے سامنے دیے گئے مُدعّی‘ گواہوں اور ملزمان کے بیانات غیرمؤثر کیوں ہو گئے۔
مصطفی کانجو اور اس کے پانچ محافظوں میں سے کوئی بھی اگر زین کا قاتل نہیں اور عدالتی فیصلہ کی روشنی میں ہرگز نہیں تو پھر بھی سوال یہ ہے کہ چودہ پندرہ سال کا نوجوان اچانک مر کیسے گیا؟ کیا اس نے کسی محافظ کی بندوق چھین کر خود کشی کر لی؟ یا کچھ اور ہوا ؟ یہ معمّہ ضرور حل ہونا چاہئے‘ مگر مجھے یقین ہے کبھی حل نہ ہو گا‘ کچھ بھی نہیں ہو گا۔
زور‘ زبردستی‘ ظلم اور ناانصافی کے لیے سازگار اس شقی القلب نظام میں عدالتیں کسی بیوہ اور یتیم کی داد رسی کر سکتی ہیں نہ میڈیا کا شورو غل کسی قصور وار کو کیفر کردار تک پہنچا سکتا ہے اور نہ ریاست کسی کمزور کی لاٹھی بننے کیلئے تیار ہے۔ لعنت اس نظام شر اور زور و زرپر جو سرعام ہونے والے قتل کے عینی شاہدوں کوکتمان حق پر مجبور کر دیتا ہے۔ مگر ہم ہیں کہ اسے برقرار رکھنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں۔ اس کے خلاف آواز تو کیا سوال اٹھانے والوں کو بھی جمہوریت دشمن‘ آمریت کا آلہ کار اور سسٹم کا مخالف‘ معلوم نہیں کیا کیا طعنہ سننا پڑتا ہے اور طعنہ دینے والے انسان دوست کہلاتے ہیں۔
زین کی بیوہ ماں کے سامنے گواہوں کے مُکرنے پر ملزموں کی بریت کا کوئی جواز پیش کرنا آسان نہیں۔ ساحر لودھیانوی ہوتے تو مقتول کی ماں کو تسلی دیتے ؎
ظلم پھر ظلم ہے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے
خون پھر خون ہے ٹپکے گا تو جم جائیگا
خاک صحرا پہ جمے یا کفِ قاتل پہ جمے
فرقِ انصاف پہ یا پائے سلاسل پہ جمے
تیغ بے داد پہ یا لاشۂ بسمل پہ جمے
خون پھر خون ہے ٹپکے گا تو جم جائیگا
مگر فی الحال تو اس مظلوم کو زین کی آخری ہچکی اور اپنی بے بسی رلاتی ہے ع
جانے کس جرم کی پائی ہے سزا یاد نہیں!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں