پیرس معصوم ‘نہتے اور اپنی دنیا میں مگن انسانوں کی قتل گاہ بن گیا۔ وحشت‘ درندگی اور سنگدلی کی اس ظالمانہ واردات پر امریکہ و یورپ کاردعمل توازن اور اعتدال سے محروم ہے‘مگر کیا مسلمانوں کا بھی؟ ایک راسخ العقیدہ مسلمان اور غیر متعصب انسان کے لیے یہ افسوس ناک‘ تکلیف دہ اور شرمناک کارروائی ہے جس کے مرتکب انسان کہلانے کے مستحق نہیں۔ بلا لحاظ رنگ و نسل‘ مذہب و عقیدہ اور زبان و علاقہ اس کی مذمت ہونی چاہیے اور ہوئی۔یہ جذبۂ انتقام ہے یا شوق قتل و غارت گری‘ بہر صورت قابل مذمت ہے کیونکہ اسلام نے ہمیں یہ نہیں سکھایا ۔ فرمایا ''کسی قوم کی دشمنی تمہیں اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم عدل و انصاف کا دامن چھوڑ دو‘‘ ۔
میدان جنگ میں بھی کسی مسلمان مجاہد کو یہ اجازت نہیں کہ وہ غیر مسلح شہریوں‘ عورتوں‘ بچوں‘ بوڑھوں پر حملہ کرے۔درخت کاٹے‘ کھیت اجاڑے‘ مویشیوں کو نشانہ بنائے۔حتیٰ کہ میدان جنگ سے بھاگنے والے فوجیوں کا پیچھا نہ کرنا بھی مستحسن ہے۔ پیرس میں عام شہری ہرگز اس سلوک کے مستحق نہ تھے جو حملہ آوروں نے روا رکھا۔لہٰذا ان کی غیر مشروط مذمت ہماری مذہبی و اخلاقی ذمہ داری ہے۔
امریکہ اور یورپ سے اہل اسلام کو جو شکایات ہیں وہ ہرگزمبالغہ آمیز‘ غلط اور بے جا نہیں۔ مغرب کے دوہرے معیار نے دنیا کو جہنم بنا دیا ہے۔ سابق برطانوی وزیر اعظم ٹونی بلیئر نے بالآخر اعتراف کر لیا کہ بے بنیاد اطلاعات پر اتحادی فوجوں نے عراق کو روند ڈالا اور لاکھوں بے گناہ انسان لقمۂ اجل بن گئے۔ بش کے کئی ساتھی بھی کیمیاوی ہتھیاروں کی عراق میں موجودگی کو افسانہ قرار دے چکے ہیں جو سی آئی اے نے محض صدام حکومت کو ہٹانے اور عراق پر قبضہ کرنے کے لیے گھڑا۔ اُسامہ بن لادن اور افغانستان کو ورلڈ ٹریڈ سنٹر گرانے کی جو سزا ملی ‘بش اور ٹونی بلیئر کیا اس سے زیادہ کے مستحق نہیں؟ مگر نہیں۔ وہ گورے ہیں اور برتر قوم کے نمائندہ۔
افغانستان میں چودہ سال سے وحشت و درندگی کا جو کھیلا کھیلا جا رہا ہے‘ طالبان اور القاعدہ کی بیخ کنی کے نام پر دس لاکھ بے گناہ افغان شہری‘ مرد و خواتین‘ بوڑھے بچے تہہ تیغ کر دیئے گئے ہیں اور بستیوں کی بستیاں اجڑ گئی ہیں‘ غربت و افلاس کے مارے افغانوں کو اب جنگ سے متاثرہ اپنے معذور و مفلوج پیاروں کی دیکھ بھال بھی کرنی پڑتی ہے اور تباہ کن ہتھیاروں کی گھن گرج سے مرتب ہونے والے طبی و نفسیاتی اثرات کا ازالہ کرنے کا جتن بھی۔یہ امریکہ و یورپ کے جنگی جنون اور ہوس ملک گیری کا شاخسانہ ہے۔ بش جونیئر نے افغانستان میں اپنے بقول صلیبی جنگ کا آغاز کیا توصرف یہی ایک ملک تھا جسے دہشت گردوں کی جنت قرار دیا جاتا تھا مگر آج مغرب کے دانشور‘ سیاستدان اور صحافی تسلیم کرتے ہیں کہ پورا شرق اوسط دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گا ہ ہے اور یورپ سمیت پوری دنیا دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے‘ امن عالم تباہ ہو گیا اور ہر خطے کا انسان زیادہ غیر محفوظ نظر آ رہا ہے۔
عراق‘ لیبیا ‘ شام ‘ مصر اور دیگر عرب ممالک میں فرقہ واریت اور عسکریت پسندی کی آگ عراق جنگ کا شاخسانہ ہے۔عالم اسلام کے لیے بھڑکائی جانے والی اس آگ میں اب فرانس جل رہا ہے اور امریکہ و برطانیہ خوفزدہ ہیں کہ کہیں اس کی لپیٹ میں ان ممالک کے عوام بھی نہ آ جائیں۔ پیرس میں دہشت گردی کے واقعات پر بارک اوباما نے کہا ''یہ مسئلہ فرانس کا نہیں بلکہ انسانیت کا ہے‘‘ جبکہ ڈیوڈ کیمرون نے کہا کہ ''اب یہ جنگ انسانیت کی جنگ بن گئی ہے‘‘ مگر جب فلسطین ‘ کشمیر ‘ برما‘ افغانستان‘ عراق ‘ شام‘ لیبیا ‘ بوسنیا ‘ چیچنیا اور دیگر علاقوں کے نہتے مسلمان اور بے گناہ عوام اس وحشت و درندگی کا شکار تھے‘ بچوں کی لاشیں بے گورو کفن پڑی تھیں اور عصمت مآب خواتین کی عزتیں سرعام لٹ رہی تھیںتو کسی کو انسان یادتھے نہ انسانیت ؎
ماڑے دی مر گئی ماں تے کوئی نہ لیندا ناں
تگڑے دا مر گیا کُتا ‘ سارا پنڈ نہ سُتا
کالوں اور گوروں کا رنگ ہی نہیں شائد خون بھی مختلف ہوتا ہے۔ ایک کا رنگ سرخ اور دوسرے کا سفید ہوتا ہے۔بے مایہ‘ بے وقعت اور ارزاں۔
ایک ستم ظریف نے سوشل میڈیا پر تبصرہ کیا کہ لاکھوں انسانوں کے قتل پر ٹونی بلیئر نے سوری کر کے معاملہ نمٹا دیا۔ کسی نے کوئی سوال نہیں اٹھایا ؎
نہ مدعی‘ نہ شہادت حساب پاک ہوا
یہ خونِ خاک نشیناں تھا‘ رزقِ خاک ہوا
داعش کو بھی پیرس کے واقعہ پر'' سوری ‘‘کر کے فرانس‘ یورپ اور امریکہ سے کہنا چاہیے کہ معاملہ رفت گزشت کریں‘ ما بخیر شما بسلامت۔ مگر یہ وقت طعن و تشنیع کا ہے‘ نہ عالم اسلام سے امریکہ و یورپ کی مسلسل زیادتیوں کے تذکرے سے کوئی جواز گھڑنے کا۔ ہم نبی ٔ رحمت ﷺ کے ماننے والے ہیں اور خدائے واحد کے نام لیوا۔ ہمیں بحیثیت مسلمان انسان دوستی کے اعلیٰ اسلامی معیار کے مطابق عالمِ مغرب کو یہ باور کرانا چاہئے کہ ''ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے‘‘ کا فلسفہ آپ کو اس وقت یاد آیا جب افغانستان‘ عراق‘ لیبیا‘ شام ‘ یمن ‘ مصر میں لگائی ہوئی آگ نے آپ کے شہروں اور شہریوں کو لپیٹ میں لیا مگر ہمیں یہ تعلیم اس وقت دی گئی تھی جب انتقام افراد و قبائل کا پیدائشی و فطری حق سمجھا جاتا تھا اور قوت و طاقت سے لیس اقوام کی شناخت۔ تب مسلمانوں کو انتقام نہیں عدل کی تلقین کی گئی اور قصاص کو زندگی اور عفو و درگزر کو اعلیٰ انسانی اوصاف قرار دیا گیا۔
شکوہ و شکایت کے انبارلگاناآسان ہے۔بَرما میں روہنگیا مسلمانوں کی مظلومیت کا قصۂ درد سنانا مشکل ہے نہ چیچنیا ‘کشمیر‘ فلسطین کے مظلوم و بے بس مسلمانوں پر انسانیت سوز مظالم کی یاد دہانی معیوب۔ برما میں تو مغرب کی آنکھ کا تارا انسانی حقوق کی علمبردار اور نوبل انعام یافتہ سوچی نے حالیہ الیکشن میں اپنی پارٹی کے کسی ایک مسلمان کارکن کو ٹکٹ دینا گوارا نہ کیا کہ انتہا پسند اکثریت کو ناگوار نہ گزرے جبکہ بھارت میں نریندر مودی کی حکومت نے مسلمانوں ‘ مسیحیوں‘ اور دلتوں کا جینا حرام کر رکھا ہے مگر جی 20سربراہ کانفرنس میںمودی بھی سانحہ پیرس پر مگر مچھ کے آنسو بہا رہا ہے اور کوئی اس سے پوچھنے والا نہیں کہ پیرس سے زیادہ انسان گجرات میں قتل ہوئے اور اتنے ہی سمجھوتہ ایکسپریس میں ۔کیا آپ نے کبھی ان واقعات کی مذمت بھی کی۔پوپ کا بیان تہذیبوں کے تصادم کا نقطہ آغاز قرار دیا جا سکتا ہے جو تیسری جنگ عظیم کے حوالے سے دیا گیا اور مغربی سربراہوں کو یاد کرانا مشکل نہیں کہ آپ سب نے رسول اکرم ﷺ کے خاکے چھاپنے والے میگزین چارلی ایبڈو سے اظہار یکجہتی پیرس کی سرزمین پر کیا تھا ایک ارب پچاس کروڑ مسلمانوں کے زخموں پر نمک چھڑکا تھا مگر ہم وہ نہیں جو اظہار ہمدردی بھی کریں تو سو احسان جتلا کر۔اوباما‘ کیمرون اور مودی کی طرح جو آرمی پبلک سکول کے المناک واقعہ پر اظہار تعزیت کرتے ہوئے پاکستان کی حکومت اور فوج کو یہ یاد دلانا ضروری سمجھیں کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کو مزید تیز کریں ۔
امریکہ و یورپ کو مسلم دشمن پالیسیوں کے مضمرات سے آگاہ کرنے کے بجائے ہمیں مغرب کی ساختہ‘ پرداختہ‘ گماشتہ اپنی حکمران اشرافیہ کے گریبان پر ہاتھ ڈالنا پڑے گا جس نے اسلام کے نام لیوائوں کو غربت‘ جہالت ‘ پسماندگی ‘ بے روزگاری اور ذہنی پستی کے اندھیروں میں دھکیل کر خود کو اوباما‘ ڈیوڈ کیمرون‘ اولاند‘ انجیلا مرکل اور نیتن یاہو کا غلام بے دام ثابت کیا اور 9/11‘7/24اور 11/13پر تو وہ غمزدہ نظر آتے ہیں‘ عالمی برادری کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے مرے جاتے ہیں مگر روہنگیا ‘ کشمیری‘ فلسطینی‘ مصری‘ شامی ‘ یمنی اور عراقی مسلمانوں پر ہونے والے مظالم پر صدائے احتجاج بلند کرنا تودرکنار اُلٹا ان کے زخموں پر نمک پاشی کرتے ہیں‘ یہ ملوک و سلاطین اپنے وحشیانہ طور طریقے بدلنے پر تیار ہیں نہ عوام کو وہ کچھ دینے پر آمادہ جو ان کا حق ہے۔9/11پر امریکی‘ 7/24پر برطانوی اور 11/13پر فرانسیسی عوام اور حکمران تڑپ اٹھے ۔پوپ نے اسے تیسری جنگ عظیم کا آغاز قرار دے ڈالا مگر ہمارے ہاں اس طرح کے واقعات روز مرہ کا معمول ہیں۔ کسی حکمران نے انتقام کا نعرہ بلند کیا نہ مذہبی رہنما نے اسے تیسری جنگ عظیم کا نقطہ آغاز سمجھا۔ یہ سوچ کا فرق ہے جو ہم برقرار رکھیں تو اخلاقی برتری کے ساتھ اپنے خدا اور رسولؐ کے سامنے سرخرو ہوں گے۔ ایک مسلمان کی اس سے زیادہ خوش بختی کیا ہو سکتی ہے۔