آصف علی زرداری کا گلہ

لڑائی‘ مارکٹائی‘ سرپھٹول‘ الزام تراشی‘ دھونس اور دھاندلی سے بھر پور بلدیاتی انتخابات کا دوسرا مرحلہ مکمل ہو گیا۔ آصف علی زرداری مگر اس پر برہم ہیں۔الیکشن کمشن پر آصف علی زرداری کا برہم ہونا بنتا ہے۔ بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے میں ریاستی وسائل اور حکومتی اختیارات کے بل بوتے پر پیپلز پارٹی نے سندھ میں جو معرکہ مارا‘ اس نے پست حوصلہ قیادت اور مستقبل سے مایوس کارکنوں میں اُمید کی جوت جگائی‘ وہ بے چارے یہ کہنے کے قابل ہوئے کہ ذوالفقار علی بھٹو مرحوم اور بے نظیر بھٹو کی پارٹی کمزور ضرور ہوئی ہے مگر اتنی نہیں کہ دوبارہ کبھی اپنے پائوں پر کھڑی نہ ہو سکے ؎
ہری ہے شاخِ تمنّا ابھی جلی تو نہیں
دبی ہے آگ جگر میں‘ مگر بجھی تو نہیں
دوسرے مرحلے میں بلاول بھٹو کو بھی میدان میں اس لیے اتارا گیا کہ وہ اس کامیابی کا کریڈٹ لے سکیں۔ پہلے مرحلے میں وہ شائد اس بنا پر انتخابی مہم نہ چلا پائے کہ کہیں واقعی مخالفین کے اندازوں کے مطابق پارٹی کا سندھ میں دھڑن تختہ نہ ہو جائے اور الزام نوجوان قیادت پر لگے کہ وہ احیا کی کوششوں میں ناکام رہے۔ پہلا مرحلہ بخیرو خوبی طے پا گیا تو قیادت کو کچھ حوصلہ ہوا اور نوجوان قیادت کو سندھ میں انتخابی مہم پر روانہ کر دیا گیا۔
پہلے مرحلے میں انتظامی مشینری کی طرح الیکشن کمشن نے بھی سندھ کی حکمران جماعت سے بھر پور تعاون کیا‘ کہیں کھنڈت نہیں ڈالی حتیٰ کہ جب خیر پور میں پیر صاحب پگارا یا فنکشنل مسلم لیگ کے گیارہ کارکنوں کو گولیوں سے بھون دیا گیا تو سب تماشا دیکھا کئے مگر کچھ مخالفین کے شورو غوغا‘ قدرے میڈیا کی تنقید اورکسی نہ کسی حد تک سپریم کورٹ کے دبائو پر الیکشن کمشن نے اس بار جھرجھری لی‘ اپنی ساکھ بہتر بنانی چاہی اور 81 یونین کونسلوں میں انتخابات ملتوی کرنے کے علاوہ بعض ایسے اقدامات بھی کئے جس سے دھاندلی آسان نہ رہی۔ جس پر آصف علی زرداری برہم ہیں اور وہ اسے پیپلز پارٹی سے زیادتی اور اس کے مخالف سیاسی یتیموں کی سرپرستی سے تعبیر کرتے ہیں۔ ہماری مروجہ سیاست میں دھن‘ دھونس‘ دھاندلی سیاستدانوں اور حکمرانوں کا پیدائشی اور فطری حق ہے جس سے دوسرے مستفید ہو رہے ہیں تو آصف علی زرداری کی پارٹی کیوں نہیں؟
گزشتہ روز سندھ اور پنجاب میں پولنگ کے دوران آزاد میڈیا کے ذریعے جو مناظر دیکھنے کو ملے‘ وہ ان اخبار نویسوں کے لیے انوکھے ہرگز نہیں جو ماضی کے عام اور بلدیاتی انتخابات کا بچشم خود نظارہ اور کوریج کرتے رہے۔ سرگودھا میں ایک خاتون نے آٹھ بیلٹ پیپر اکٹھے صندوقچے میں ڈالے تو ٹی وی اینکر نے تبصرہ کیا کہ یہ دیکھیں کیمرے کے سامنے دھاندلی ہو رہی ہے جبکہ میانوالی اور دیگر مقامات پر اخبار نویسوں اور کیمرہ مینوں کی پٹائی ہوئی تو ایک بار پھر ٹی وی سکرینوں پر شور مچا۔حالانکہ یہی چوری اور سینہ زوری جمہوریت کا حسن اور انتخابی نظام کا طرہ امتیاز ہے جس کے خلاف آواز بلند کرنے والوں کو یہاں جمہوریت دشمن قرار دیا جاتا ہے اورغیر جمہوری قوتوں کا آلۂ کار۔اس طرح کے واقعات بھارت سمیت تیسری دنیا میں ہر جگہ ہوتے ہیں مگر ایک تو وہاں حکومت اور اس کے ادارے شرمندگی محسوس کرتے ہیں دوسرے اصلاح احوال کی کوشش جبکہ ہم جواز گھڑنے لگتے ہیں۔
زرداری صاحب اپنے طور پر حق بجانب ہیں کہ جب دوسری جماعتوں کو کھلی چھٹی ہے اور ''میثاق جمہوریت‘‘ پر عملدرآمد جاری ہے‘ جس کے تحت لوٹ مار کی مکمل آزادی اور مرضی کے انتخابی نتائج حاصل کرنے کی سہولت حاصل ہے تو صرف سندھ میں حفاظتی اور امتناعی اقدامات کا کیا جواز ہے۔ پنجاب میں منی لانڈرنگ کا ارتکاب کرنے والوں سے کوئی باز پرس کرتا ہے نہ روزانہ بھارت اور افغانستان کی طرف سرمائے کی دھڑا دھڑمنتقلی پر کسی کو اعتراض ہے اور نہ سب سے بڑے صوبے کے کسی ڈاکٹر عاصم حسین سے تعرض کیا جاتا ہے تو سندھ کی قیادت کے دعویداروں سے امتیازی سلوک کیوں؟ بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی۔
کوئی مانے نہ مانے موجودہ پارلیمانی ‘انتخابی نظام نے اپنی کمزوریاں ‘ خامیاں اور کوتاہیاں خود کھول کر عوام کے سامنے رکھ دی ہیں۔ بڑی سیاسی جماعتوں بالخصوص مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی نے ملک سے نظریاتی سیاست اور نظریاتی کارکن کا صفایا کیا‘ سیاسی کارکنوں کی جگہ خوشامدیوں‘ مفاد پرستوں اور فصلی بٹیروں نے قیادت کا قرب حاصل کر کے سیاسی تنظیموں میں نظریاتی کارکنوں کا رہنا بلکہ جینا حرام کر دیا پھر قیادت نے نظریات کو پارٹی سے بے دخل کیا۔ اب پاکستان میں ایک ایک کر کے سیاسی جماعتوں کا خاتمہ ہو رہا ہے۔ سیاسی جماعتیں ہر صوبے میں پریشر گروپ کا روپ دھار رہی ہیں۔ چاروں صوبوں میں موثر تنظیم‘ معقول پارلیمانی نمائندگی‘ نظریہ اور منشور نہ ہونے کی وجہ سے کسی جماعت کو وفاقی اور قومی قرار دینا مشکل ہو گیا ہے۔ رہی سہی کسر بلدیاتی انتخابات میں سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے منافقانہ تصور نے پوری کر دی ہے۔
ماضی میں ہم خیال و ہم نظریہ سیاسی و مذہبی جماعتوں کے مابین سیٹ ایڈجسٹمنٹ کا تصور رہا ہے اور مختلف الخیال سیاسی جماعتوں نے اتحادوں میں اکٹھے انتخابات بھی لڑے ہیں۔ پی این اے ‘ آئی جے آئی اور پی ڈی ایف اس کی نمایاں مثال ہیں جبکہ ایم آر ڈی اور اے آر ڈی کبھی انتخابی اتحاد میں نہ ڈھل سکیں مگر سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے نام پر یہ کبھی نہیں ہوا کہ دو جماعتیں ایک حلقے ‘ شہر یا صوبے میں دوسری جماعت سے اتحاد کر کے شیرو شکر ہیں اور دوسرے حلقے‘شہر یا صوبے میں ایک دوسرے کی قیادت کو نااہل‘ بدعنوان‘ سکیورٹی رسک بیرونی طاقتوں کا ایجنٹ اور غیر جمہوری طاقتوں کا آلہ کار قرار دے کر عوام کو ان سے دور رہنے کی تلقین فرما رہی ہیں۔اس معاملے میں پیپلز پارٹی‘ مسلم لیگ ن‘ تحریک انصاف‘ جماعت اسلامی اور اے این پی میں سے کسی کا دامن صاف نہیں۔ 
اس پر مستزاد ہر سیاسی جماعت کی ذات برادری‘ دولت‘ جرائم پیشہ گروہوں کی سرپرستی کے اوصاف اور دھڑے کے اعتبار سے طاقتور امیدواروں کے سامنے پسپائی اور انہیں اپنی صفوں میں خوش آمدید کہنے کے لیے بے تابی ہے۔ انہی امیدواروں کی وجہ سے سیاسی جماعتیں تحلیل ہو کر پریشر گروپوں میں تبدیل ہو رہی ہیں اور وہ کارکنوں اور ووٹروں کو نظریے‘ منشور اور اخلاقی برتری کی بنا پر اپنی طرف متوجہ کرنے کے بجائے الیکٹ ایبلز کے ذریعے حکومت سازی پر توجہ دیتی ہیں‘ خواہ یہ الیکٹ ایبلز گراں فروش‘ ذخیرہ اندوز‘ بھتہ خور‘ اغوا کار اور ٹارگٹ کلرز ہوں یا سمگلر ‘ منشیات فروش اور دہشت گردوں کے سہولت کار۔پنجاب میں کئی درجن جرائم پیشہ افراد منتخب ہو چکے ہیں‘ سندھ میں اس سے سوا ہوں گے۔
بلدیاتی انتخابات کے دوسرے مرحلے میں سیاسی جماعتوں کی پوزیشن مزید کمزور ہوئی ہے۔ اپنے نظریے‘ کارکنوں‘ ووٹروں اور زور دار انتخابی مہم کے بجائے ان کا انحصار الیکٹ ایبلز‘ انتظامی مشینری اور دھونس دھاندلی پر بڑھا ہے جبکہ الیکشن کمشن کی ناکامی بھی اظہر من الشمس ہے۔ سارا دن پولنگ سٹیشنوں پر سینہ زوری‘ ٹھپہ بازی اور لڑائی جھگڑے کے جو مناظر ٹی وی سکرینوں پر دیکھنے کو ملے‘ اسے انتخابی عمل‘ صرف وہی ڈھیٹ قرار دے سکتا ہے جسے خوف خدا ہے نہ ضمیر کے سامنے جوابدہی کا احساس اور نہ آزادانہ رائے دہی کے انفرادی عمل کی تقدیس کا خیال‘ بے حیا باش وہر چہ خواہی کن۔ آصف علی زرداری کو یہی گلہ ہے ؎
تمہاری زلف میں پہنچی تو حسن کہلائی
وہ تیرگی جو مرے نامۂ سیاہ میں ہے
کئی عشروں سے ملک میں وسائل خوری گناہ ہے‘ نہ ووٹ چوری جرم۔ قومی خزانہ حکمران اشرافیہ کے لیے شیر مادر ہے جسے ہضم نہ کرنے والا گردن زدنی ہے اور مرضی کی حلقہ بندیاں ‘ اپنی سہولت کے مطابق پولنگ سٹیشنوں کا قیام اور مخالفین کو باہر نکال کر ضرورت کے مطابق ٹھپہ زنی مروجہ سیاسی‘ انتخابی اور جمہوری کلچر کا لازمی حصہ ہے جس پر فوج‘ رینجرز‘ الیکشن کمشن کو اعتراض ہے تو یہ ایک ایسی جماعت کے ساتھ زیادتی ہے جو عوامی نمائندگی کی دعویدار اور جمہوریت کی ٹھیکیدار ہے۔ میثاق جمہوریت کے بعد کوئی روک ٹوک کرتا ہے تو اس بندئہ گستاخ کا منہ بند کرنا ضروری ہے کہ یہ تو سراسر سیاسی یتیموں کی سرپرستی ہوئی اور حکمران اشرافیہ کی اجارہ داری ختم کرنے کی سازش ۔ اس پر تو ایک احتجاجی تحریک بنتی ہے مگر احتجاجی تحریک ؟یہ حکومت سے بگاڑنے کے مترادف ہے اور سڑکوں پر مار کھانے‘ جیلوں میں سڑنے اور کھایا پیا اگلنے کی نوبت آ سکتی ہے جو مفاہمتی سیاست دانوں کے بس کی بات نہیں‘ سو فی الحال سندھ میں کم بیک سے دل پشوری کرنا کافی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں