قصۂ درد سناتے ہیں کہ مجبور ہیں ہم

دوسروں کا تو مجھے علم نہیں مگر میں ہمیشہ مدینۃ الاولیاء ملتان میں دبے پائوں داخل ہوتا ہوں ، مجھے حضرت شیخ بہاء الدین زکریاؒ کی یہ نصیحت ہمیشہ یاد رہتی ہے: 
ملتانِ ما بجنّتِ اعلیٰ برابر است 
آہستہ پا بنہ کہ مَلک سجدہ می کنند 
صدیوں سے یہ شہر جس کے، بقول سید ہجویرؒ، مضافات میں لاہور واقع ہے، علم و عرفان کا منبع اور ذہین و طبّاع ہنر مندوں کا مرکز رہا ہے۔ ہر لمحہ ، ہر جا، سمرقند و بخارا اور سبزہ و گل ، طوطی و بلبل کو یاد کر کے آہیں بھرنے والا تیمور گورگانی جب ملتان میں داخل ہوا تو یہاں کی تہذیب و ثقافت ، علم پروری اور ہنر مندی دیکھ کر چونک اٹھا۔ محلہ آہن گراں کے ایک کاریگر نے اسے کاٹ میں تیز اور وزن میں ہلکی سات دھاتوں سے بنی تلوار تحفہ کی تو مرحبا پکار اٹھا اور پھر سال بھر اسی شہر میں پڑا رہا۔ ملتان نے قدم پکڑ بلکہ جکڑ لئے ۔ ملتان کی سیاسی اہمیت کا احساس یہ کہہ کر دلایا جاتا تھا کہ جس کا ملتان مضبوط اس کا ہندوستان مضبوط!
خالصہ عہد میں مہاراجہ رنجیت سنگھ کے جرنیل کھڑک سنگھ نے اس نادر روزگار شہر کو اجاڑا تو پھر ڈھنگ سے بس نہیں پایا۔ اجڈ، گنوار ،غیر مہذب اور بد ذوق خالصے قابض ہوئے تو یہ کہاوت وجود میں آئی:
چہار چیز است تحفۂ ملتان 
گرد و گرما ،گدا وگورستان 
مخدوم یوسف رضا گیلانی نے شہر کی شناخت بدلتے ہوئے فلائی اوورز کا جال بچھایا تو میاں شہباز شریف میٹرو بس لے کر پہنچ گئے۔ کسی کو اس کی تہذیبی شناخت اور علمی و ثقافتی تشخص بحال کرنے کی فکر ہے نہ عوام کے اصل مسائل سے دلچسپی۔ صرف ملتان ہی پر کیا موقوف، پورا سرائیکی وسیب اپنوں کا گزیدہ اور بیگانوںکا ستم رسیدہ ہے۔ ملتان دو عشرے پہلے تک باغوں کے جھرمٹ میں گھرا تھا مگر پھر دور دور تک رہائشی کالونیاں اُگ آئیں اور وہ دن دور نہیں جب لوگ حسرت سے اپنے بچوں کو بتائیں گے کہ یہاں کبھی آموں کے باغات ہوا کرتے تھے اور امریکہ و یورپ میں ہمارے چونسہ ، انور رٹول اور ثمر بہشت کی دھوم مچی تھی۔ 
سرائیکی وسیب کے جاگیرداروں، مخدوموں، وڈیروں اور تمنداروں کو ملک اور صوبے کے اقتدار میں ہمیشہ وافر حصہ ملا۔ صدر، وزیر اعظم، گورنر، وزیر اعلیٰ اور وفاقی و صوبائی وزیروںکو شمار کرنے بیٹھیں تو دن ڈھل جائے، نام ختم نہ ہوں۔ سردار فاروق احمد خان لغاری، میر بلخ شیر مزاری، مخدوم یوسف رضا گیلانی، غلام مصطفی کھر، نواب عباس خان عباسی، مخدوم سجاد حسین قریشی، مخدوم صادق حسین قریشی، مخدوم حمید الدین حاکم، مخدوم احمد محمود، مخدوم جاوید ہاشمی، مخدوم شاہ محمود قریشی اور درجنوں دیگر اہم ترین مناصب پر فائز رہے مگر علاقے اور عوام کی قسمت بدلنا تھی نہ بدلی۔ پاکستان سے الحاق کے وقت ریاست بہاولپور تین اضلاع پر مشتمل تھی۔۔۔۔ بہاولپور، بہاولنگر اور رحیم یار خان۔ وسطی اور شمالی پنجاب کی ہر تحصیل ضلع بن چکی اور ضلع کو ڈویژن کا درجہ مل گیا مگر فو رٹ عباس سے صادق آباد کے آخری سرے تک بہاولپور کے تین اضلاع میں مزید انتظامی تقسیم تو درکنار تعلیمی سہولتوں میں کوئی اضافہ ہوا نہ صحت کے مراکز بن سکے۔ بہاولپور وکٹوریہ ہسپتال نواب صاحب بہاولپور کا تحفہ ہے، وہی نواب صادق محمد خان عباسی مرحوم جس کے اقبالؒ مداح تھے۔ اور ملتان کا نشتر ہسپتال 1950ء کے عشرے میں قائم ہوا، پھر اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی۔ 
پانی کی کمی کے علاوہ زیر زمین نمکین اور آلودہ پانی کی وجہ سے سرائیکی وسیب کا ہر تیسرا چوتھا باسی ہیپاٹائٹس سی، گردے اور آنکھوں کی مہلک بیماری میں مبتلا مگر طبی سہولتوں کا فقدان ہے۔ نشتر ہسپتال اور بہاولپور وکٹوریہ ہسپتال میں اتنی گنجائش کہاں کہ وہ آدھے پنجاب کا بوجھ اٹھا سکے۔ حکمران خواہ لاہور کے ہوں یا سرائیکی وسیب کے نمائندگان، سب کا اصرار یہی ہے کہ لوگوں کو میٹروبس، فلائی اوورز اور پختہ سڑکوں کی ضرورت ہے۔ میگا پراجیکٹس حکمرانوں کے علاوہ ان کے مقامی چہیتوں اور گماشتوں کے لئے نقد آور اور منافع بخش ہیں، لہٰذا وہ انہی کو ترجیح دیتے ہیں۔ 
بیماریوں اور وڈیروں کے علاوہ سرائیکی وسیب کو دہشت گردوں، ڈاکوئوں اور اغوا کاروں نے یرغمال بنا رکھا ہے۔ دریائے سندھ کے ارد گرد بیٹ کے علاوہ کوہ سلیمان کے دامن میں دہشت گردوں، ڈاکوئوں اور اغوا برائے تاوان کے مجرموں کی پناہ گاہیں ہیں، جن کی سرپرستی بعض تمندار، وڈیرے اور با اثر سیاسی خاندان کرتے ہیں۔ ضلع راجن پور اور رحیم یار خان کے بعض علاقوں میں تو مجرموں کے حوصلے اس قدر بڑھ چکے ہیں کہ وہ پولیس اہلکاروں کو بھی اٹھا کر لے جاتے اور من مانی شرائط پر رہا کرتے ہیں۔ وقتی طور پر آپریشن ہوتا ہے مگر مستقل اقدامات کی ضرورت کسی نے کبھی محسوس نہیںکی۔
یہ صورت حال سیاسی حقوق سے مسلسل محرومی، جہالت، پسماندگی اور بے روز گاری کا نتیجہ ہے۔ لوگ الگ صوبہ مانگتے ہیں، حکمران انہیں ترقیاتی منصوبوں کی نوید سناتے ہیں۔ پیپلز پارٹی نے پانچ سال تک صوبہ صوبہ کھیلا ، 2013 ء کے انتخابات میں اس شعبدہ بازی کی قیمت چکائی، اب مسلم لیگ ن کی باری ہے، جس نے سرائیکی وسیب سے دو صوبوں کا وعدہ کیا مگر بنایا ایک بھی نہیں۔ ذمہ دار صرف تخت لاہور نہیں یہاں کے تمندار، جاگیردار، وڈیرے اور مخدوم شریک جرم ہیں بلکہ مرکزی مجرم! جب اٹھارہویں آئینی ترمیم پر بحث مباحثہ جاری تھا، میاں نواز شریف تیسری ٹرم مانگ رہے تھے، آصف علی زرداری پانچ سال پورے کرنے کی یقین دہانی اور اسفندیار ولی خان صوبے کی الگ شناخت، تو سرائیکی نمائندگان منہ میں گھنگنیاں ڈالے اپنے اپنے علاقوں میں ترقیاتی منصوبوں اور مرضی کے تھانیدار، تحصیلدارکی تعیناتی کے طلبگار تھے تاکہ ترقیاتی منصوبوں سے مال پانی بنانے اور مرضی کے افسروں کی تعیناتی سے مخالفین کا مکو ٹھپنے میں بھرپور مدد ملے۔ 
شہر و دیہات میں نوجوانوں سے بات کریں تو ہر ایک کشتہ ٔستم ہے اور الگ قصۂ غم سنانے کو بے تاب: 
دلٹری تپے، سینہ جلے 
جیڑا ڈُکھے، جندڑی گلے 
ہڈ چم سڑے لوں لوں تلے 
اکھیاں ڈُکھن دیداں سکن 
مونس تے نہ غم خوار ہے 
چو گوٹھ سخت اجاڑ ہے 
پل پل غماں دی دھاڑ ہے 
مشکل نبھاواں رات دن 
روٹی روزگار کے متلاشی گلہ کرتے ہیں کہ ہمارے غریب و بے وسیلہ ماں باپ نے زندگی بھر کی پونجی بھیڑ بکری ، چند بیگھے زمین بیچ کر زیور تعلیم سے آراستہ کیا، خود بھوکے رہے، ہماری فیس ادا کی اور بھلے وقتوں کے انتظار میں اپنی جائز خواہشات کا گلا گھونٹ دیا مگر ہمیں جوتیاں چٹخانے کے سوا کوئی کام نہیں۔ بیماریوں نے اب انسانوں کے علاوہ درختوں اور فصلوں پر حملہ کر دیا ہے۔ آم اور شیشم کے بعد انار کے باغات اس وائرس کی زد میں ہیں مگر کوئی ان کا پرسان حال نہیں۔ انار کے درخت کھڑے کھڑے سوکھ جاتے ہیں اور باغبان بے چارے بے بسی سے یوں تکتے رہتے ہیں جیسے سندر فیکٹری میں دب جانے والے مزدوروں کے ورثاء چار پانچ روز تک حسرت ویاس سے دیکھا کیے۔ 
علامہ اقبالؒ کے نیازمند اسد ملتانی کا ایک شعر نوابزادہ نصر اللہ خان اکثر پڑھا کرتے ؎
رہیں نہ رند یہ زاہد کے بس کی بات نہیں 
تمام شہر ہے دو چار دس کی بات نہیں 
یہ جہالت و پسماندگی، بیماری و بے روزگاری اور محرومی و لاچارگی مگر جنوبی پنجاب کے عوام کا دائمی مقدر نہیں۔ ظلم و ناانصافی کا نظام زیادہ دیر چل نہیں سکتا۔ جنوبی پنجاب کا اصل چہرہ زین کا قاتل مصطفیٰ کانجو اور غریبوں کی عزت و آبرو، جان و مال کے دشمن زور آور وڈیرے نہیں، دہشت گرد ، ڈاکو اور اغوا کار بھی نہیں۔ دھرتی کے ماتھے کا جھومر وہ اولیاء ، صوفیاء ، علماء ، قلم کار اور شاعر ہیں جن کی وجہ سے سرائیکی وسیب کی انسان دوستی، عاجزی وانکساری، مہمان نوازی، نرم مزاجی اور زبان کی مٹھاس ضرب المثل ہے ۔
روزنامہ دنیا ملتان سے اشاعت کے باقاعدہ آغاز پر اپنے قارئین اور خطے کے عوام سے یہ عہد استوار کر رہا ہے کہ وہ مظلوم و بے بس کا سنگتی، محروم کا ساتھی اور ظالم، جابر، زورآور، ووٹ چور اور وسائل خور اشرافیہ کے مد مقابل ہوگا ۔ ناانصافی، جبر و استحصال اور سینہ زوری کے خلاف آواز بلند کرے گا اور خطے کے محروم، مجبور اورکمزور طبقات کی آواز اقتدار و اختیار کے ایوانوں تک پہنچانے کا ذریعے بنے گا۔ خواجہ فرید ؒکی دھرتی پھر سے گل و گلزار ہو یہ کون نہیں چاہتا: 
تھی خوش فرید تے شاد ول 
ڈکھڑیں کوں نہ کر یاد ول 
جھوکاں تھیسن آباد ول 
ایہا نیں نہ وہسی ہک منڑی

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں