لاہور میں بچوں کے سرکاری ہسپتال میں پانچ بچوں کی اموات سے مجھے وہ وین یاد آئی جو ہفتہ میں ایک بار ہمارے قصبے کا چکر لگاتی اور اس میں موجود ڈاکٹر یا میڈیکل پریکٹیشنر ہر مریض کو چیک اپ کے بعد دوائی مفت فراہم کرتا۔ بشرط ضرورت انجکشن بھی لگاتا اور احتیاطی تدابیرسے بھی آگاہ کرتا۔ سال میں دو بار سکول میں بچوں کو احتیاطی انجکشن لگائے جاتے جو بچوں کے لیے خاصہ تکلیف دہ عمل تھا مگر ہر ایک کو یہ انجکشن لگوانا پڑتا۔
یہ ایوب خان کا فوجی دور تھا پھر سلطانیٔ جمہور کا زمانہ آیا تو ایک ایک کر کے ایسی عیاشیوں کو ترک کر کے ''باشعور عوام‘‘ کو سرکاری ڈپوئوں پر چینی‘ آٹا اور گھی حاصل کرنے کے بہتر کام پر لگا دیا گیا کیونکہ ان دنوں روس اور چین میں یہی رواج تھا اور ہم نے ان دونوں ممالک کا مقابلہ کرنے کی ٹھان لی تھی‘ پہلے دور دراز علاقوں کے شہریوں کو طبی سہولتوں سے محروم کیا گیا‘ پھر دارالحکومتوں سے دور شہروںکے سرکاری ہسپتالوں اور تعلیمی اداروں کی باری آئی اور اب صوبائی دارالحکومت میں بھی حالت یہ ہے کہ کچھ عرصہ قبل امراض قلب کے مشہور ہسپتال میں ناقص ادویات کے باعث اموات واقع ہوئیں‘ اب بچوں کے ہسپتال میں خناق سے متاثرہ بچے ادویات نہ ملنے کے باعث اپنے والدین کو روتا چھوڑ کر اگلے جہاں کو سدھار گئے۔
یہ کوئی اتفاقی واقعہ یا کبھی کبھار پیش آنے والا حادثہ نہیں‘ وہاڑی اور سرگودھا میں درجنوں بچوں کے ساتھ جو ہوا وہ زیادہ پرانی بات نہیں۔جب صوبائی دارالحکومت میں حالت یہ ہے کہ بچوں کے ہسپتال میں ادویات دستیاب نہیں تو روجھان ‘ چکوال اور منچن آباد کے سرکاری ہسپتالوں کی حالت زار کا اندازہ ہر ذی شعور بآسانی لگا سکتا ہے اور سندھ و بلوچستان میں تو اوّل سرکاری ہسپتال مفقود ہیں جہاں کمیشن خور سیاستدانوں نے عمارتیں بنوا لیں وہاں ڈاکٹر ہیں نہ ادویات۔ سابق صدر آصف علی زرداری کے ایک عزیز سیلاب متاثرین کے علاج معالجے کے لیے ملنے والی ایمبولینسیں کرائے پر چلاتے رہے وہ بھی وین کے طور پر۔ جبکہ بجٹ میں ادویات کے لیے منظور ہونے والا پیسہ عموماً بندر بانٹ کی نذر ہو جاتا ہے۔ پاکستان دنیا کے ان چند پسماندہ اور درماندہ ممالک میں شامل ہے جہاں ملیریا‘ٹی بی اور پولیو جیسے امراض موجود ہیں ورنہ پوری دنیا ان کا خاتمہ کر کے چین کی بنسری بجا رہی ہے۔
تعلیمی سہولتوں کی صورتحال کا اندازہ ہر اس شخص کو ہے جسے محدود وسائل میں ہر ماہ پانچ پانچ مرلے کے مکانوں میں قائم‘ معمولی درجے کے نجی سکولوں میں زیر تعلیم بچوں کی فیس ہزاروں روپے ادا کرنی پڑتی ہے کیونکہ سرکاری سکولوں میں کوئی پڑھانے آتا ہے نہ دیگر سہولتیں دستیاب ہیں۔ عذر یہ پیش کیا جاتا ہے کہ سرکاری ملازمت حاصل کرنے والے ٹیچر پڑھاتے نہیں‘ سختی کریں تو ہڑتالوں پر اُتر آتے ہیں یہی حال سرکاری ہسپتالوں کا ہے جہاں خدمات انجام دینے والے ڈاکٹروں کا بیشتر وقت نجی ہسپتالوں اور باقی ماندہ سڑکوں پر احتجاج میں گزرتا ہے۔ حکومت کیا کرے۔ غنیمت ہے نجی سکول اور ہسپتال عوامی ضرورتیں پوری کر رہے ہیں۔
میرا خیال ہے کہ آج ہی اگر ہر عوامی نمائندے اور سرکاری ملازم کو پابند کر دیا جائے کہ وہ اپنا اور اپنے اہل خانہ کا علاج معالجہ صرف سرکاری ہسپتال میں کرائے گاتو بہتر نتائج برآمد ہو سکتے ہیں بیرون ملک اور نجی ہسپتالوں میں سرکاری خرچ پر علاج معالجے پر پابندی لگا دی جائے کہ اب ماشاء اللہ امریکہ‘ برطانیہ اور دیگر ترقی یافتہ ممالک کے معیار کی سہولتیں پاکستان میں دستیاب ہیں۔ مشینری وہی ہے جو وہاں کے سرکاری اور پاکستان کے نجی ہسپتالوں میں نصب ہے مگر فرق یہ ہے کہ نجی ہسپتال اس سے نوٹ بنا رہے ہیں جبکہ سرکاری ہسپتالوں کی مشینری بند پڑی مریضوں کا مُنہ چڑا رہی ہے۔ یہ فیصلہ بھی ہو کہ عوامی نمائندوں اور سرکاری ملازمین کے بچے تعلیم انہی سرکاری سکولوں اور کالجوں میں حاصل کر سکتے ہیں جہاں غریب کے بچے پڑھنے پر مجبور ہیں اور وہی نصاب پڑھیں گے جو سرکار کا منظور کردہ ہے تو یقین مانیے صرف ایک سال میں نہ صرف سرکاری سکولوں بلکہ سرکاری ہسپتالوں میں بھی عالمی معیار کی جدید سہولتیں دستیاب ہوں گی۔ٹیچر‘ فرنیچر‘ مشینری‘ ڈاکٹر اور آپریشن تھیٹر۔ مگر جب حکمرانوں کو یہ سہولت حاصل ہے کہ وہ نزلہ زکام کا علاج بھی سرکاری خرچ پر بیرن ملک کرا سکتے ہیں تو غریب غربا کے لیے قائم ہسپتالوں پر وسائل ضائع کرنے کی کیا ضرورت ہے۔
جب ڈاکٹروں نے مشورہ دیا تو قائد اعظم نے بیرون ملک علاج کرانے سے انکار کر دیا مگر اب حالت یہ ہے کہ ہر عہدیدار وزیر اعظم‘ وزیر اعلیٰ‘ وزیر‘ مشیر اور رکن اسمبلی مُنہ اٹھائے بیرون ملک چیک اپ کے لیے جا رہا ہے کوئی پوچھنے والا نہیں کہ جس ملک کو آپ نے ترکی‘ ملائشیا وغیرہ بنانے کا دعویٰ کیا بلکہ بنا دیا وہاں اپنا طبی معائنہ کرانا کیوں پسند نہیں کرتے اور اپنے بچوں کوان سکولوں سے تعلیم کیوں نہیں دلاتے جن کے قیام پر آپ فخر کرتے ہیں۔ سندھ ‘ پنجاب ‘ خیبر پختونخوا‘ بلوچستان کا کون سا وزیر اعلیٰ اور وزیر ہے جو یہ دعویٰ نہیں کرتا کہ اُس نے تعلیمی اورطبّی سہولتوں پر اربوں ڈالر خرچ کیے مگر انہی اداروں میں اپنا اور اپنے اہل خانہ کا داخلہ ممنوع قرار دے رکھا ہے۔ وجہ صاف ظاہر ہے کہ یہ اربوں ڈالر عوامی نمائندوں اور ان کے چہیتے سرکاری افسروں نے ڈکار لیے اور ہسپتالوں کے علاوہ سکولوں میں اُلّو بولتے ہیں ۔یہ اس قابل نہیں کہ حکمران اشرافیہ ان سے استفادہ کر سکے۔ اگر اچھے ادارے ہوں تو یہ ندیدے کسی غریب کے بچّے کو گھسنے ہی نہ دیں پہلے اپنے‘ اپنے خاندان اور عزیز و اقارب کی طبی و تعلیمی ضرورتیں پوری کریں پھر کسی اور کی باری آئے۔
امن و امان کی صورتحال کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ جاتی عمرا کا محفوظ قلعہ مزید حفاظتی انتظامات سے مزین کرنے کے لیے قوم کی خون پسینے کی کمائی‘ کروڑوں روپے ایک نئی سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی تعمیر پر خرچ کیے جا رہے ہیں حالانکہ اس علاقے میں عام آدمی تو درکنار مسلم لیگ (ن) کے کارکنوں کا داخلہ بھی ممنوع ہے۔ بچوں کے ہسپتال میں دوائیوں کے لیے فنڈز نہیں مگر وزیر اعظم کے محفوظ گھر کی حفاظت کے لیے رقوم وافر مقدار میں موجود ہیں۔ مال مفت دل بے رحم ایسے ہی مواقع پر بولا جاتا ہے۔ اگر اپنی اور اپنے خاندان کی حفاظت ہی مطلوب ہے تو اسلام آباد میں موجودہ وزیر اعظم ہائوس منتقل کیوں نہیں ہو جاتے اور وزراء اعلیٰ و وزراء کو بھی ذاتی اقامت گاہیں چھوڑ کر سرکاری گھروں میں رہنے کی ہدایت کیوں نہیں کی جاتی تاکہ ریاستی خزانے پر زائد اخراجات کا بوجھ نہ پڑے اور کثیر تعداد میں پولیس اہلکار بھی نجی گھروں پر ڈیوٹی نہ دیں۔
لاہور میں چوری ڈکیتی کی وارداتیں اب اس کثرت سے ہونے لگی ہیں کہ بعض اوقات کراچی کا گمان ہوتا ہے۔ لاہور کی معروف شاہراہ پر صبح سے شام تک اہم شخصیات کا گزر ہوتا ہے مگر گزشتہ روز ہمارے دو صحافی بھائی سلمان غنی اور رانا عظیم اسی شاہراہ پر دن دیہاڑے لٹ گئے۔ چند قدم کے فاصلے پر موجود ٹریفک وارڈن بھی انہیں ڈکیتی سے نہ بچا سکے۔ میں یہ بدگمانی نہیں کر سکتا کہ ان دونوں خوش پوش آسامیوں کی نشاندہی شائد وارڈنز نے کی ہو کیونکہ پولیس کی ملی بھگت کے بغیر سرعام وارداتوں کا تصور محال ہے۔ خاص طور پر اس صورت میں کہ یہاں خادم اعلیٰ کی گڈ گورننس کا چرچا ہے اور ان کی مستعدی‘ چوکسی اور سخت گیری سے پولیس و انتظامیہ کا پِتّہ پانی ہوتا ہے۔
'گڈ گورننس‘‘ کی طرف فوج کی اعلیٰ قیادت نے توجہ دلائی تو وفاقی حکومت تڑپ اُٹھی اور فوری جوابی بیان سے اپنے ہی اس دعوے کی تردید کر دی کہ سول ملٹری تعلقات مثالی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ امن و امان ہو تعلیم و صحت کا شعبہ یا انصاف کی فراہمی کا معاملہ ہم زوال کی آخری حدوں کو چھونے لگے ہیں مگر کسی کو احساس زیاں ہے نہ اصلاح احوال کی فکر‘ بس چرب زبانی اور تشہیری اقدامات سے دن کو رات اور سیاہ کو سفید ثابت کیا جا رہا ہے‘ قربان جائیے ان باشعور عوام کے جوبنیادی انسانی سہولتوں سے محروم مگر اس گڈ گورننس پر ایمان لاچکے ہیں اور کوئی سوال اُٹھائے تو لڑنے مرنے پر تُل جاتے ہیں۔ ایسی راضی برضا قوم کی حکمران اشرافیہ کو بھلا اپنا طرز عمل اور انداز حکمرانی تبدیل کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے۔؟
پس تحریر۔ متعدد قارئین نے پوچھا ہے کہ اسحٰق ڈار کے نزدیک عام آدمی کو ن ہے؟ جو چالیس ارب کے ٹیکسوں سے متاثر نہیں ہو گا۔ میری ناقص رائے میں بیرون ملک علاج معالجے اور تعلیمی سہولتوں سے مستفید ہونے والا ''عام آدمی‘‘ ہرگز متاثر نہیں ہو گا۔ یہی حکمرانوں کی ترجیح اوّل ہے ۔ بنا ہے عیش تجمل حسین خان کے لیے۔