ایک اور اجمل قصاب

امریکی حکومت تو معلوم نہیں ثابت کر سکتی ہے یا نہیں مگر ہمارا فعّال‘چوکس اور آزاد میڈیا تاشفین ملک کو پاکستانی شہری اور داعش کی اندھی پیروکار ثابت کر کے رہے گا۔جنوبی پنجاب کے پسماندہ قصبہ کروڑلعل عیسن سے تعلق‘ لال مسجد والے مولانا عبدالعزیز کے ساتھ تصویر اور سعودی عرب میں برس ہا برس قیام القاعدہ‘ داعش اور طالبان سے تعلق ثابت کرنے کے لیے کافی ہے۔اجمل قصاب کے بعد ایک اور موٹی آسامی میڈیا کے ہاتھ لگی ہے۔
ہمارے ہاں امریکی میڈیا اور حکام کی ہر بات پر ایمان لانے والے دانشوروں کو شاید علم نہ ہو مگر امریکی ذرائع ابلاغ اس بات کے گواہ ہیں کہ اس سال 2015ء کے 336 دنوں میں ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے مختلف مقامات پر فائرنگ کے 355 واقعات پیش آئے جن میں سینکڑوں افراد ہلاک اور زخمی ہوئے۔ سان برناڈینو واقعہ کے علاوہ صرف ایک آدھ واقعہ میں کوئی غیر امریکی اور مسلمان ملوث تھا‘ باقی سب میں گورے یا کالے امریکیوں نے نشانہ بازی کی۔ کسی نے ان واقعات کے تانے بانے القاعدہ یا داعش سے نہیں ملائے کیونکہ دو صدیوں سے امریکہ میں فائرنگ کے ایسے جان لیوا واقعات ہو رہے ہیں‘ اس کے باوجود تمام ریاستیں اسلحہ کی آزادانہ خریدوفروخت اور استعمال پر پابندی لگانے کو تیار ہیں نہ اسلحہ کی تیاری‘ کاروبار اور اسمگلنگ میں ملوث بااثر امریکی تاجر قانون سازی ہونے دیتے ہیں‘ کیونکہ امریکی معیشت کا زیادہ تر دارومدار چھوٹے بڑے اور مہلک ہتھیاروں کی تیاری‘ فروخت اور استعمال پر ہے ۔ اسلحہ لابی اس قدر موثر ہے کہ وہ ہر سال سینکڑوں بے گناہ افراد کی ہلاکت کے باوجود کسی قسم کے اسلحہ کی آزادانہ خریدوفروخت‘ نقل و حمل اور استعمال پر پابندی لگانے نہیں دیتی۔
گزشتہ روز میں نے امریکی سکولوں میں فائرنگ کے واقعات کی تعداد معلوم کی تو میری آنکھیں کُھلی کی کُھلی رہ گئیں۔ صرف 29 فروری 2000ء سے 2 دسمبر 2015ء تک پندرہ سال کے دوران سکولوں میں فائرنگ کے 130 واقعات ہوئے جن میں سے 15 اکتوبر 2015ء کو روزبرگ کے ایک سکول میں ہونے والی فائرنگ میں آٹھ معصوم بچے اور ایک ٹیچر‘ نشانہ بنے جبکہ 31 دسمبر 2012ء کو نیوکنٹی کٹ کے سکول میں چھ سے سات سال کی عمر کے 20 بچے فائرنگ کی زد میں آ کر موت کے مُنہ میں چلے گئے۔ ہلاک شدگان کی مجموعی تعداد 28 تھی۔ 16 اپریل 2007ء میں ورجیناٹیک میں فائرنگ کادرد ناک واقعہ پیش آیا جس میں 35 طالب علم ہلاک اور 25 زخمی ہوئے۔ یہ امریکی تاریخ میں کسی سکول میں ہونے والا سب سے سنگین واقعہ تھا۔ پچھلے ہفتے کلوارڈو کے ہیلتھ کیئر سینٹر میں محکمہ پولیس میں ملازم ایک شخص نے اپنے ایک افسر اور دو سویلین کو ہلاک کیا جس کے اسباب آج تک معلوم نہیں ہو سکے۔ 
ایک ایسے معاشرے میں جہاں سکولوں‘ طبی اداروں‘ پولیس سٹیشنوں اور پبلک مقامات پر کسی اشتعال اورمعقول وجہ کے بغیر فائرنگ کرنے اور لمحوں میں بے گناہ افراد کو موت کے گھاٹ اتارنے کا کلچر ہے وہاں سید فاروق اور تاشفین ملک کی طرف سے فائرنگ کا واقعہ بھی معمول کی کارروائی قرار پا سکتا تھا لیکن چونکہ ایک تو یہ دونوں میاں بیوی مسلمان ہیں‘ دوسرے ان کی نسبی جڑیں پاکستان میں ہیں اور تیسرے تاشفین ملک پیدا جنوبی پنجاب میں ہوئی‘ پلی بڑھی سعودی عرب میں اس لیے امریکی حکام اورپاکستانی میڈیا کی تشویش قابل فہم ہے۔ تاشفین ملک کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کی غرض سے میں نے اپنے ایک رفیق کار اور نوجوان صحافی احمد اعجاز سے رجوع کیا جو لّیہ کے 
رہائشی ہیں۔ احمد اعجاز کا کہنا ہے کہ تاشفین کے چچا جاوید ربانی جو اُس کے والد گلزار ملک کے سوتیلے بھائی ہیں‘ کروڑلعل عیسن میں ''لعل عیسن ادبی سوسائٹی‘‘ کے سرگرم رکن ہیں۔ تاشفین کا گھرانہ ایک عام روایتی مذہبی گھرانہ ہے۔ اُن کا کسی مذہبی فرقہ وارانہ جماعت یا گروہ سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ تاشفین کے والد ایک طویل عرصہ سے سعودی عرب میں روزگار کی خاطر مقیم تھے‘ جبکہ تاشفین کی فیملی ملتان سیٹل تھی۔ وہاں سے وہ سعودی عرب منتقل ہو گئے۔ تاشفین نے 2005-6ء میں بہائوالدین زکریا یونیورسٹی ملتان سے بی فارمیسی کی تعلیم حاصل کی۔ تاشفین کے والدین کروڑلعل عیسن وارڈ نمبر 13‘ گلی ڈاکٹر محمد رفیق والی کے رہائشی تھے۔ یہاں سے وہ قریباً تیس پینتیس برس قبل ملتان اور وہاں سے سعودی عرب شفٹ ہوئے۔ اُن کے محلے داروں کے مطابق تاشفین سعودی عرب سے ملتان تعلیم کے لیے آئی تھی۔ کروڑلعل عیسن لیّہ کی تحصیل ہے۔ یہ لیہ سے پچیس کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ یہاں بزرگ صوفی لعل عیسن کی درگاہ ہے۔ اسی نسبت سے اس شہر کا نام کروڑلعل عیسن ہے۔ کروڑلعل عیسن دریائے سندھ کے کنارے آباد شہر ہے۔ تقریباً چالیس کلومیٹر کے فاصلے پر ضلع بھکر ہے۔ کروڑلعل عیسن کی کچھ بستیاں مذہبی فرقہ وارانہ سوچ کے زیراثر رہی ہیں‘جن میں بستی سبحانی اور بستی قاضی کے نام لیے جا سکتے ہیں۔ ماضی میں سپاہ صحابہ کا زور رہا ہے‘ مگر اب ایسی صورتحال نہیں ہے۔ یہاں سے کچھ ایسے افراد کے نام بھی سامنے آئے جو افغان جہاد کا حصہ رہے اور القاعدہ سے تعلق بھی رہا‘ لیکن مجموعی طورپر لیہ شہر اور اردگرد کا علاقہ ترقی پسند سوچ کا حامل رہا ہے۔ یہاں کی سماجی زندگی میں مل بیٹھنے کے مواقع بہت ہیں۔ لوگ ایک دوسرے سے میل جول رکھتے ہیں۔ یہاں کے شاعروں اور ادیبوں کی تحریروں میں سماجی طبقاتی نوعیت کے مسائل زیادہ پیش کئے گئے ہیں۔ سرائیکی ادیب اوشولعل‘ ڈاکٹر خیال امروہوی‘ رئوف کلاسرا جیسے روشن خیال افراد لیہ کی پہچان ہیں۔ اسی طرح سیاستدان جو ملکی سیاسی منظرنامے پر رہے‘ وہ بھی اعتدال پسند سیاست کے نمائندے تھے۔ کروڑہی سے تعلق رکھنے والے صاحبزادہ فیض الحسن اس وقت قومی اسمبلی کے رکن ہیں‘ اُن کا تعلق ایک ایسے خانوادے سے ہے‘ جن کے بزرگ انسان دوستی کو فروغ دیتے رہے۔ یہاں کئی بزرگوں کی درگاہیں ہیں۔ لہٰذا صوفیانہ افکار اور اُن کے مزارات کی بدولت لوگ اعتدال پسند ہیں۔
سید فاروق اور تاشفین ملک کا تعلق اگر کسی دہشت گرد گروہ سے تھا بھی تو اس میں پاکستان کا کوئی قصور ہے نہ یہاں کے کسی تعلیمی ادارے یا دینی مدرسے کا‘ کیونکہ سید فاروق تو پیدائشی امریکی اور وہاں کے جدید تعلیمی ادارے کا تعلیم یافتہ تھا‘طبیعت میں تشدد کا عنصر بھی وہاں کے ماحول کے زیراثر ہو سکتا ہے ۔یہ سوال امریکی میڈیا نے اُٹھایا ہے کہ آخر کیا وجہ تھی کہ معذوروں کی بحالی کے ادارے کی تقریب میں شریک فاروق اُٹھا‘ گھر گیا‘ بیوی کو ساتھ لیا اور فائرنگ کر کے بھاگ گیا ۔کوئی وقتی ردعمل‘ جنونی کیفیت یا پہلے سے موجود غصہ کا اظہار؟ دراصل امریکی معاشرہ ذہنی اور نفسیاتی مسائل سے دوچار ہے اور اُسے تحلیل نفسی کی ضرورت ہے۔
پاکستان ان دنوں امریکی خواہشات اور بھارتی دبائو کے باوجود ایک طرف تو چین اور روس سے اقتصادی و معاشی تعلقات مزید بڑھا رہا ہے ‘دوسری طرف اس نے آپریشن ضرب عضب کے ذریعے دہشت گردوں کی کمر توڑ کر داعش کا راستہ روکا ہے اورتیسری طرف وہ افغانستان میں بھارت کے کردار کی مخالفت کر رہا ہے۔ پاک چین اقتصادی راہداری کا منصوبہ بھی امریکہ‘ بھارت اور بعض دوست ممالک کے لیے سوہان روح ہے اس لیے پاکستان کو دبائو میں لانے کی بھرپور کوششیں جاری ہیں اور تاشفین ملک کے لیّہ سے تعلق نے دبائو کی ان کوششوں میں کامیابی کے امکانات پیدا کر دیئے ہیں‘ لہٰذا واشنگٹن سے نئی دہلی اور اسلام آباد تک نئی جارحانہ سرگرمیوں کا آغاز ہو گیا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں