یہ ’’اتحاد‘‘ مبارک ہو مومنوں کے لیے

سعودی عرب کی طرف سے 34مسلم ممالک کے فوجی اتحاد کا اعلان تو قابل فہم ہے مگر پاکستان کی طرف سے شمولیت اور خیر مقدم ؟ اک معمہ ہے سمجھنے کا نہ سمجھانے کا۔ ایران‘ شام اور عراق کی شرکت کے بغیر اس اتحاد کا مقصد کیا ہے؟‘‘ عالم اسلام کومسلکی بنیادوں پر ایک دوسرے سے لڑانے کی امریکی و یورپی حکمت عملی ہے یا مسلم ممالک کی سیاسی و فوجی قیادت کی طویل سوچ بچار کا نتیجہ ؟ بہت سے سوالات کا جواب درکار ہے۔
سوویت یونین کے خاتمے اور کمیونزم کی بطور نظام ناکامی کے بعد امریکی اور یورپی سیاستدانوں‘ حکمرانوں اور دانشوروں نے اسلام کو خطرۂ فردا قرار دے کر نمٹنے کی جو حکمت عملی وضع کی اس میں زبان‘ نسل اور علاقے کے علاوہ مسلکی بنیادوں پر تقسیم اہم عنصر تھا۔ ایران عراق جنگ میں اس کی ایک جھلک دنیا نے دیکھ لی تھی اور یہ اندازہ ہو گیا تھا کہ دولت سے مالا مال عرب ممالک اپنی بادشاہتیں اور امارتیں بچانے کے لیے نہ صرف عرب و عجم بلکہ شیعہ سنی کے اختلافات کو غنیمت سمجھتے ہیں مگر پاکستان‘ ترکی‘ ملائشیا اور انڈونیشیا جیسے غیر عرب ممالک نے کبھی اپنے آپ کو اس تنازعے میں نہیں الجھایا۔ 
ایران عراق جنگ کے موقع پر پاکستان جنرل ضیاء الحق کی فوجی آمریت کی گرفت میں تھا اور ایران کے انقلابی علماء و حکمران جنرل کو امریکہ کا گماشتہ سمجھتے تھے۔ سعودی عرب کے شاہ فہد‘ اردن کے شاہ حسین اور مصر کے انور السادات و حسنی مبارک سے ضیاء الحق کے گہرے روابط بھی کسی سے مخفی نہ تھے مگر تمام تر دبائو کے باوجود پاکستان نے اس جنگ میں غیر جانبداری کو شعار کیا اور دو مسلم ممالک کے تنازعہ میں کسی ایک کا ساتھ دینے کے بجائے ثالثی پر اصرار کیا یہ ہماری قومی ضرورت تھی اور تقاضائے دانش مندی بھی۔ ایران ہمارا ہمسایہ ہے اور ہم ایران مخالف پالیسی کی وجہ سے اپنے معاشرے میںمزید کسی تقسیم کے متحمل نہیں ہو سکتے۔
حالیہ سعودی عرب یمن تنازعہ میں بھی پاکستان نے اپنی یہ غیر جانبداری برقرار رکھی اگرچہ اپنی غیر جانبداری ثابت کرنے کا طریقہ انتہائی بھونڈا تھا۔ آزمودہ دوست کی طرف سے تعاون کی درخواست کو ہم نے پارلیمنٹ میں بحث و تمحیص کا موضوع بنایا۔ محمود خان اچکزئی‘ اعتزاز احسن اور فرحت اللہ بابر جیسے نابغوں کو ایک دوست ریاست کے خلاف طعن و تشنیع کا موقع فراہم کیا اور احسان فراموشی کا طعنہ سنا۔ اس کے باوجود سعودی قیادت کو یہ باور کرانے میں کامیاب رہے کہ پاکستان کا غیر جانبدار رہنا کیوں ضروری ہے۔
داعش کا قیام عراق کو مسلکی اور نسلی بنیادوں پر تقسیم کرنے کی احمقانہ امریکی پالیسی کا منطقی نتیجہ ہے۔ شام کے بشار الاسد سے نمٹنے کے لیے بھی وہی ناقص اور نقصان دہ حکمت عملی وضع کی گئی جو عراق میں ناکامی سے دوچار ہو چکی تھی۔ عراق اور لیبیا میں ایک مستحکم حکومت کو ختم کرنے کا نتیجہ القاعدہ اور داعش کی مضبوطی کی صورت میں سامنے آیا اور اس کا فائدہ بشار الاسد نے اُٹھایا کیونکہ اس حکمت عملی کے جواب میں روس کو کھل کر سامنے آنے اور اپنے فوجی جوہر دکھانے کا موقع ملا۔ تاہم اس پالیسی کا امریکہ و یورپ کے لیے اطمینان بخش پہلو یہ ہے کہ میدان جنگ عالم اسلام اور شرق اوسط ہے‘ مادی اور انسانی وسائل مسلمانوں کے ضائع ہو رہے ہیں۔ مرنے اور مارنے والے دونوں مسلمان ہیں مگر فوائد امریکہ و یورپ سمیٹ رہا ہے جبکہ کل تک جن مسلم ممالک‘ عوام‘ افواج اور انقلابی تنظیموں کا ہدف اسرائیل ہوا کرتا تھا‘ وہ اب ایک دوسرے سے گتھم گتھا‘ صفحہ ہستی سے مٹنے مٹانے پر بضد ہیں۔
امریکی وزیر دفاع ایش کارٹر نے 34رکنی فوجی اتحاد کو امریکی حکمت عملی کے عین مطابق قرار دے کر کوئی بات مخفی نہیں رہنے دی‘ بلّی تھیلے سے باہر آ گئی ہے۔ جب دو عشرے قبل حمید گل مرحوم اور اس قبیل کے دیگر عسکری ماہرین پاکستانی قوم کو باور کرایا کرتے تھے کہ سوویت یونین کے خاتمے کے بعد امریکہ مسلمانوں کو مسلکی ‘ لسانی اور انسانی بنیادوں پر لڑا کر ان کے وسائل پر قبضہ اور اسرائیل کا تحفظ یقینی بنانا چاہتا ہے تو کوئی مان کر نہیں دیتا تھا مگر آج یہ جیتی جاگتی حقیقت ہے۔ آج کوئی مسلم ریاست فلسطینی‘ کشمیری‘ چیچن اور روہنگیا مسلمانوں کے حق میں آواز بلند کرنے کے لیے تیار نہیں۔ اسرائیل کا ناجائز وجود بھی ان کے ایجنڈے سے خارج ہے مگر غلط امریکی حکمت عملی سے وجود میں آنے والے عفریت یعنی دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے 34مسلم ممالک فوجی اتحاد پر آمادہ ہیں‘ یہ دیکھے اور سوچے بغیر کہ عراق‘ ایران اور شام کی شمولیت کے بغیر اس اتحاد کا نتیجہ عالم اسلام کی مزید تفریق ‘ تقسیم اور دہشت گرد ی کے نئے پودوں کی افزائش کی صورت میں نکل سکتا ہے۔
اتحاد کا ہدف یقیناً دہشت گردی کا خاتمہ ہو گا۔ ہم اسلام اور مسلمانوں پر لگنے والے اس الزام سے بری الذمہ ہونا چاہتے ہیں کہ دہشت گردوں کے سرپرست یا خاموش مددگار ہیں۔ اب تک موصولہ اطلاعات کے مطابق اتحاد کا سیکرٹریٹ کسی بھی مسلم ملک کی طرف سے درخواست آنے پر کہ وہ دہشت گردی کے خطرے سے دوچار ہے اس کی مدد کا فیصلہ کرے گا۔ درخواست دہندہ ملک کو کس قسم کی‘ کتنی مدد درکار ہے اور خطرے کی نوعیت کیا ہے جیسے سوالات کا جواب ملنے پر رکن ممالک اپنی صوابدید اور قومی پالیسی کے مطابق مدد کا فیصلہ کریں گے مگر اصل سوال یہ ہے کہ کیا داعش کو اتنی بڑی طاقت تسلیم کر لیا گیا ہے کہ اس سے نمٹنے کے لیے 34ممالک کو فوجی اتحاد کی ضرورت پیش آ گئی ہے جن میں سے ایک نیٹو کا رکن (ترکی) اور دوسرا نیو کلیئر پاور (پاکستان) ہے۔
نظر یوں آتا ہے کہ امریکہ اور یورپ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مزید الجھے رہنے کے متحمل نہیں۔ وہ اس جنگ سے پیچھا چھڑانا چاہتے ہیں مگر اس بات کے خواہش مند ہیں کہ داعش‘ القاعدہ اور دیگر گروپ بھی امریکہ و یورپ کو نشانہ بنانے کے بجائے اپنا ہی ہم مذہب 34ممالک کو اپنا دشمن سمجھ کر اپنی کارروائیوں کا ہدف بنائیں۔ وسائل اورافرادی قوت مسلم ممالک کی بروئے کار آئے اور میدان جنگ بھی عالم اسلام بنے۔تاہم یہ احساس کسی کو نہیں کہ ان عرب ممالک میں جہاں جمہوریت اور انسانی حقوق سے محرومی کی بنا پر نوجوان نسل بے چینی کا شکار ہے‘داعش کو مزید سر اٹھانے کا موقع مل سکتا ہے اور مصر کے اخوان اور محمد مرسی کی مثال دے کر ان نوجوانوں کو یہ باور کرایا جا سکتا ہے کہ تبدیلی ووٹ سے نہیں صرف گولی کے ذریعے آ سکتی ہے ۔
پاکستان دہشت گردی کے عفریت سے نمٹنے میں مصروف ہے۔ وہ پچپن ہزار انسانی جانوں کی قربانی دے چکا ہے اور اس میں پانچ ہزار سے زائد فوجی افسر و جوان شامل ہیں یہاں مذہبی فرقہ وارانہ‘ نسلی اور لسانی بنیادوں پر دہشت گردوں نے تباہی مچائی مگر مسلکی اختلافات اور تعصبات نے آبادی کو اس طرح تقسیم نہیں کیا جس طرح کئی دیگر ممالک میں دیکھنے کو ملا۔ یہ ریاست کی اس محتاط پالیسی کا نتیجہ ہے جو عراق ایران اور یمن سعودی عرب جنگ کے دوران اپنائی گئی۔ اب بھی کسی ایسے اتحاد میں شمولیت‘ جس کی قیمت ہمیں پاکستان میں داعش کے داخلے اور مسلکی بنیادوں پر معاشرے کی گہری تقسیم کی صورت میں ادا کرنی پڑے‘ خوب سوچ سمجھ کر اور حتمی نفع و نقصان کا اندازہ لگا کر کی جائے اس ضمن میں افغانستان‘ عراق اور شام میں غیر ملکی مداخلتوں اور دہشت گردوں سے نمٹنے کی امریکی و یورپی حکمت عملی کا باریک بینی سے مطالعہ و مشاہدہ اور نتائج کا ادراک ضروری ہے۔ 
اتحاد میں شمولیت کے بعد چین اور روس کا ردعمل کیا ہو گا؟ ایران سے تعلقات پر اثر پڑ سکتا ہے اور معاشرے میں کسی نئی تفریق کا کس قدر امکان ہے یا نہیں؟ یہ سب کچھ ہمارے فیصلہ سازوں کو سوچنا چاہیے۔ دنیا میں اب تک ہماری فوج کا کردار قیام امن کے حوالہ سے مثالی رہا ہے۔ اب ہم کسی بیرونی تنازعے کا حصہ بن کر اپنا یہ کردار کس حد تک برقرار رکھ سکتے ہیں اور اتحاد کا حصہ بن کر ہم اپنی جنگ کس طرح کامیابی سے ہمکنار کر سکتے ہیں؟ یہ فراموش نہیں کرنا چاہیے۔ گزشتہ بارہ پندرہ سال سے ہم ''تجھ کو پرائی کیا پڑی اپنی نبیڑ تو ‘‘کی پالیسی پر گامزن ہیں۔
اس پالیسی میں تبدیلی کس اصول اور ضرورت کے تحت لائی جا رہی ہے؟اس سوال پر پارلیمنٹ میں بحث ہونی چاہیے‘ کیونکہ ہم سیٹو‘ سینٹو اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکی اتحادی ہونے کا مزا خوب چکھ چکے مزید چکھنے کا شوق ہونا تو نہیں چاہیے مگر؟ ؎
بسے نادیدنی ہا‘ دیدہ ام من
مرا اے کا شکے ‘ مادرنہ زادے

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں