دین ِمُلاّ فی سبیل اللہ فساد

اسلامی نظریاتی کونسل کے اجلاس میں مولانا محمد خان شیرانی اور مولانا طاہر محمود اشرفی کے مابین تُوتکار اور ہاتھا پائی کی خبر پڑھ کر علامہ اقبالؒ یاد آئے ؎
دین حق از کافری رسوا تر است
زانکہ ملا‘ مومنِ کافر گر است!
شبنم مادر نگاہ ما‘یم است
از نگاہ او‘یم ماشبنم است!
از شگرفیہائے آں قرآں فروش
دیدہ ام روح الا میں را‘ در خروش!
زانسوے گردوں دلش بیگانہِ
نزد او ام الکتاب افسانہِ
بے نصیب از حکمت دین نبیؐ
آسمانش تیرہ از بے کوکبی!
کم نگاہ و کور ذوق و ہرزہ گرد
ملت از قال و اقوالش فرد فرد!
مکتب و مُلاّ و اسرار کتاب
کور مادر زاد و نور آفتاب!
دین کافر فکر و تدبیر جہاد
دین ملا فی سبیل اللہ فساد!
(آج دین حق‘ کافری سے بھی زیادہ رسوا ہو چکا ہے کیونکہ ہمارا مُلاّ کافر گر مومن ہے۔ ہماری شبنم ہماری نگاہ میں سمندر ہے جبکہ اس کی نگاہ سے ہمارا سمندر شبنم ہے۔ اس قرآن فروش کی عجیب و غریب باتوں سے میں نے روح الامین جبرئیل کو واویلا کرتے دیکھا ہے۔ آج کے مُلاّ کا دل آسمان سے دوسری طرف کی دنیا سے بیگانہ (ناآشنا) ہے۔ اس کے نزدیک قرآن پاک محض ایک افسانہ ہے۔ آج کا مُلاّ نبی کریمؐ کے دین کی حکمت سے بے بہرہ ہے۔ اس کا آسمان ستارے نہ ہونے کی وجہ سے تاریک ہے۔ وہ کم نگاہ اور کور ذوق اور یاوہ گو ہے۔ اس کی بحثوں اور مناظروں سے ملت پارہ پارہ ہو گئی ہے۔ مدرسہ اور مُلّا اور قرآن کے اسرار کچھ اس طرح ہیں جیسے کوئی مادرز اداندھا اور سورج کی روشنی ہو۔ کافر کا دین تو غور و فکر اور تدبیر جہاد ہے اور ملا کا دین خدا واسطے کا فساد ہے۔ )
اسلامی نظریاتی کونسل ایک آئینی ادارہ ہے۔ 1973ء کے دستور کی تشکیل کے وقت چونکہ یہ طے پایا کہ ملک کا سیاسی‘ سماجی‘ معاشی اور اقتصادی ڈھانچہ اسلامی اُصولوں کے مطابق کام کرے گا اس لیے پیش آمدہ تمدنی مسائل کا قرآن و حدیث کی روشنی میں حل تلاش کرنے کے لیے جدید و قدیم علوم کے ماہرین پر مشتمل ایک ادارہ ضروری ہے جو حکومت‘ پارلیمنٹ اور ریاست کی رہنمائی کر سکے۔ تاہم آئین کی منظوری کے بعد کسی کو اسلام یاد رہا نہ قومی زبان اُردو اور نہ عدلیہ سے انتظامیہ کی علیحدگی‘ جس کا وعدہ آئین میں کیا گیا تھا۔ برسوں بعداعلیٰ عدالتوں نے اُردو کی بطور قومی زبان ترویج اور انتظامیہ و عدلیہ کی علیحدگی کے حق میں فیصلہ دے کر آئینی تقاضا پورا کیا مگر اسلامی نظریاتی کونسل کی منوں ٹنوں وزنی سفارشات آج بھی ردّی کے ٹوکروں میں پڑی اپنی قسمت کو رو رہی ہیں۔ البتہ نظریاتی کونسل کے لیے مختص فنڈز ارکان کی تنخواہوں اور مراعات کے لیے وقف ہیںاور ہر حکومت نے اپنی پسند کے علماء‘ ماہرین قانون اور دانشوروں کو نوازنے کے لیے یہ کونسل دوسرے کئی اداروں کی طرح برقرار رکھی ہے تاکہ بوقت ضرورت کام آئے اور من پسند افراد کا حلوہ مانڈا چلتا رہے۔
کونسل کی تشکیل کا مقصد قوم اور پارلیمنٹ کی رہنمائی اور قومی سطح پر اتحاد و یگانگت کا فروغ تھا مگر یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ اس اعلیٰ آئینی ادارے میں بھرتی حکمرانوں کی سیاسی اور مذہبی جماعتوں کی مسلکی ترجیحات و مصلحتوں کو مدنظر رکھ کر کی جاتی ہے۔ جنرل پرویز مشرف‘ آصف علی زرداری اور میاں نوازشریف کے دور میں ایسے ایسے جاہل و کندۂ ناتراش نظریاتی کونسل کے رکن بنے کہ الامان و الحفیظ.... چہرہ روشن اندرون تاریک تر! ضیاء الحق کے دور میں رکنیت کا معیار یہ تھا کہ ایک بزرگ نے مانعین زکوٰۃ کے خلاف حضرت ابوبکر صدیقؓ کی کارروائی کو پہلے مارشل لاء سے تشبیہ دی‘ تاہم جس مزاج اور مبلغ علم کے حامل علماء پرویز مشرف دور میں نظریاتی کونسل کا مقدّر بنے ان کی مثال ملنا مُشکل ہے۔ علامہ جاوید غامدی کو اسی دور میں رکنیت ملی مگر وہ صحبت ناجنس سے جلد اُکتا گئے ۔
مولانا محمد خان شیرانی سے مجھے ملنے کا شرف 2012ء میں حاصل ہوا۔ حج کے موقع پر منیٰ میں ہم نے کئی دن اکٹھے گزارے۔ کئی دیگر علماء بھی رابطہ عالم اسلامی کے مہمان خانہ میں مقیم تھے مگر مولانا شیرانی کا زہد و تقویٰ ہم سب کو متاثر کرتا۔ ان کا زیادہ تروقت مسجد میں تلاوت قرآن مجید کرتے گزرا۔ حرم کعبہ جانے کے لیے وہ طویل راستہ پیدل طے کرتے اور ہرگز تھکاوٹ کا شکار نہ ہوتے۔ عبادت و تلاوت کے دوران اُن کا خشوع و خضوع دیدنی تھا ۔عرفات میں انہوں نے سارا دن جس طرح گزارا وہ تمام ہم سفروں کے لیے قابل رشک تھا۔ کسی سے بلامقصد گفتگو نہ کھانے پینے سے رغبت‘ بلوچستان اسمبلی کے رکن مولانا سرور انہیں کھانے کو کچھ لا کر دے دیتے تو کھا لیتے ورنہ تسبیح و تہلیل میں مصروف رہتے۔مزاج میں تلخی نہ گفتگو میں کسی قسم کی بے احتیاطی۔
مولانا طاہر محمود اشرفی مولانا شیرانی کے ہم مسلک ہیں اور خاصے اعتدال پسند و ملنسار‘ بہت کم کسی سے لڑتے جھگڑتے دیکھا۔ اپنے سے بڑوں کا احترام اور اختلاف بہت ہی سلیقے سے کرتے ہیں۔ لڑائی جھگڑے کی خبر ملی تو حیرت ہوئی کہ نوبت یہاں تک کیسے پہنچی۔ اختلاف کی نوبت آئی بھی تھی تو ہاتھا پائی کا کیا جواز تھا جبکہ یہ ادارہ تشکیل ہی اُمت کے مختلف گروہوں اور جدید و قدیم فکر کے مابین اختلافات رفع کرنے کے لیے دیا گیا تھا۔ اگر علماء معمولی نوعیت کے باہمی اختلافات بھی دھینگا مُشتی کے بغیر حل کرنے کے اہل نہیں رہے تو ان سے غور و فکر اور تدبیر جہاد کی توقع کون رکھ سکتا ہے۔
مولانا شیرانی اپنے زہد و تقویٰ کے باوجود بعض اوقات ایسے مسائل چھیڑ دیتے ہیں جن پر مدرسہ و مکتب میں مباحثہ تو شاید روا ہو مگر انہیں میڈیا میں زیر بحث لانا فساد خلق کا موجب بنتا ہے۔ قادیانیوں کے بارے میں ہمارا آئین واضح ہے اور دوبارہ زیر بحث لانا دراصل ان لوگوں کی مدد کرنے کے مترادف ہے جو آئین میں متفقہ ترمیم کو ختم کرنے کے درپے ہیں۔ آج تک کسی حکومت‘ پارلیمنٹ اور سیاسی جماعت کو یہ جرأت نہیں ہوئی کہ وہ اس حوالے سے تنازع کھڑا کر سکے۔ اس حد تک مولانا اشرفی کی بات درست ہے کہ علماء کرام کو احتیاط کے تقاضے ملحوظ رکھنے چاہئیں اور طے شدہ اُمور کو ایک بار پھر چھیڑ کر موجودہ متفقہ اسلامی‘ جمہوری‘ پارلیمانی‘ آئین کے مخالفین کو رخنہ اندازی کا موقع فراہم نہیں کرنا چاہیے۔ مگر اس اختلاف رائے کو فی سبیل اللہ فساد میں بدل کر مذہب گریز عناصر کے سامنے تماشا وہ علماء بنے جو حسن خلق‘ بڑے چھوٹے کے احترام اور باہمی اخوت و محبت کی نبویؐ تعلیمات کے مبلغ اور اسوۂ رسول ﷺ کے پیروکار ہیں۔
صرف پاکستان ہی نہیں عالم اسلام کو اس وقت جن سنگین مسائل کا سامنا ہے وہ اختلاف فقہ و مسلک سے بالاتر ہو کر علماء و عوام کے اتحاد کا تقاضا کرتے ہیں۔ ایک زمانے میں علماء کرام یہ کام کیا بھی کرتے تھے۔ ملی یکجہتی کونسل وہ آخری تنظیم تھی جس نے تمام مسالک کے علماء کو ایک غیر سیاسی پلیٹ فارم پر اکٹھا کیا اور ملک میں مذہبی انتہا پسندی و فرقہ واریت کی شدت پسندی کو کم کرنے کے لیے جدوجہد کی‘ پھر اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی۔ کہنے کو ایم ایم اے بھی تمام مسالک کی تنظیم تھی مگر یہ سیاسی مفادات اور مصلحتوں کے تحت قائم ہوئی اور پھر انہی کی نذر ہو گئی۔ مذہبی رہنمائوں کو آدھا ادھورا اقتدار عزیز تھا ‘ اسلام اور اتحاد اُمت نہیں۔
یہ فیصلہ کرنا تو مشکل ہے کہ قصور وار کون ہے۔ کاش مولانا شیرانی اپنی بزرگی کا خیال کرتے‘ کاش علامہ طاہر اشرفی ایک ضعیف العمر عالم دین کے احترام میں خاموشی اختیار کر لیتے، بحث کو کٹ حجتی میں تبدیل نہ کرتے۔ علامہ طاہر اشرفی اور ان کے ساتھی رکنیت کی مدت ختم ہونے پر ہم عصر اور بزرگ علماء ‘ماہرین قانون اور بیورو کریٹس کے تعریفی کلمات کا اثاثہ سمیٹ کر رخصت ہوتے مگر بزرگ اور برخوردار دونوں نے اپنے آپ اور مذہبی طبقے کو رسوا کیا۔ 
اقبالؒ نے عشروں قبل کم نظر خطیب ‘ کور ذوق علماء اور یا وہ گو مُلّائوں کو بحثوں اور مناظروں کے ذریعے ملت پارہ پارہ کرنے کا ذمہ دار ٹھہرایا اور مُلاّ کے دین کو فی سبیل اللہ فساد قرار دیا۔ مسلمانوں کی الگ ریاست وجود میں آ گئی‘ اسلامی نظریاتی کونسل قائم ہوئی اور ارکان کے حلوے مانڈے کا خوب اہتمام ہوا مگر ان کا لڑاکا مزاج بدلا نہ عدم برداشت کا روّیہ‘ نتیجہ سامنے ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں