ڈھٹائی

غلطی عمران خان کی بھی ہے وہ اب سلیبرٹی نہیں‘ سیاستدان ہے، ملک کی دوسری بڑی اور مقبول سیاسی جماعت کا سربراہ اور اپوزیشن لیڈر۔ اسے اظہارخیال اور الفاظ کے چنائو میں محتاط ہونا چاہیے۔ شوکت خانم ہسپتال میں کسی طالبان رہنما نے اگر علاج کرایا بھی تو اس کا ٹی وی انٹرویو میں تذکرہ ضروری نہ تھا۔ مخالفین عمران خان کی طرح شوکت خانم ہسپتال کے مداح ہیں، نہ اتنے فراخدل کہ بات کا بتنگڑ نہ بنائیں۔
تاہم شوکت خانم ہسپتال کا ضیاء الدین ہسپتال اور عمران خان کا موازنہ ڈاکٹر عاصم حسین سے کرنا ناانصافی اور سنگدلی ہے ، جو سیاست میں جائز سمجھی جاتی ہے۔ ضیاء الدین ہسپتال خیراتی ہسپتال نہیں اور وہاں دہشت گردوں اور ٹارگٹ کلرز کا علاج معالجہ لاعلمی میں نہیںہوا، رینجرز کے الزام کے مطابق انہیں ہسپتال انتظامیہ نے کسی کی سفارش اور کسی کے دبائو پر یہ سہولت فراہم کی۔ طبی ضابطہ اخلاق کے مطابق ڈاکٹر ہرگز یہ نہیں دیکھتا کہ اس کے زیرعلاج شخص کا تعلق کس زبان، نسل، قبیلے اور مسلک سے ہے اور نہ وہ اس کی شہرت جاننے میں دلچسپی رکھتا ہے مگر قانون اور ضابطہ اخلاق کے مطابق اگر یہ کوئی مجرم، دہشت گرد اور ملک دشمن ہے تو پھر اس کے بارے میں ریاستی اداروں کوآگاہ کرنا ضروری ہے جس کا اہتمام ڈاکٹر عاصم حسین نے ہرگز نہیں کیا۔ الٹا اپنے طبی ادارے کو دہشت گردوں اور ٹارگٹ کلرز کی پناہ گاہ بنائے رکھا۔
عمران خان کو طالبان رہنما کے بارے میں علم شکریے کا خط ملنے کے بعد ہوا جبکہ اس کا انکشاف بھی کپتان نے گرفتاری کے بعد پولیس یا رینجرز سے تفتیش کے دوران نہیں ایک انٹرویو میں کیا جو بے احتیاطی ضرور ہے، جرم نہیں‘ علاج معالجہ نہ انکشاف۔ ڈاکٹر عاصم حسین اگر گرفتاری سے قبل کسی انٹرویومیں انکشاف کرتے یا پولیس ، رینجرز اور کسی دوسرے ادارے کو اطلاع دیتے تو کوئی ہرگز ان سے تعرض نہ کرتا کہ کوئی ہسپتال یا ڈاکٹر کبھی مریضوں کے بارے میں تفتیش کرتا ہے نہ ان کے مجرمانہ پس منظر کا ذمہ دار ہوتا ہے۔ کراچی کے کس کس ہسپتال میں کون کون سے دہشت گرد اور ٹارگٹ کلر نے داخلہ لیا اور علاج کرایا ‘ کسی کو علم ہے نہ ہسپتال انتظامیہ پر اعتراض۔
اے این پی اور پیپلزپارٹی کے بعض رہنمائوں کی طرف سے عمران خان کے بیان پر جو ردعمل سامنے آیا وہ بچگانہ اور سفاکانہ ہے۔ شوکت خانم ہسپتال ایک قومی خیراتی ادارہ ہے اور پاکستان میں کینسر کے مریضوں کے لئے آخری امید۔ یہ اپنی نوعیت کا ایسا ہسپتال ہے جس پر ہم پاکستانی دنیا کے سامنے اپنا سر فخر سے بلند کرسکتے ہیں۔ عبدالستار ایدھی، عمران خان، ڈاکٹر امجد ثاقب، ڈاکٹر ادیب رضوی اور دو چار دیگر کے سوا کون ہے جو خدمت خلق کے حوالے سے پاکستان کی نوجوان نسل کا رول ماڈل ہو اور جس پر لوگ آنکھیں بند کرکے اعتماد کرسکیں۔ شوکت خانم ہسپتال عوام کے اعتماد اور فیاضی کی علامت ہے‘ جسے عمران خان کی آڑ میں صرف وہی شخص اپنی سیاسی مصلحتوں کی بھینٹ چڑھا سکتا ہے جس کے سینے میں دل ہے نہ آنکھ میں شرم و حیا۔
پی پی والوں کا عمران خان کے ایک غیر محتاط بیان کی آڑ میں ڈاکٹر عاصم حسین کو معصوم ثابت کرنا تو قابل فہم ہے مگر جن اخبار نویسوں کو اس معاملے میں مماثلت نظر آنے لگی ہے‘ ان پر حیرت ہے۔کیا ہم واقعی اس قدر ذہنی گراوٹ کا شکار ہیں کہ محض کسی کی محبت اورکسی سے عداوت کا جذبہ ہمیں ایک دانستہ جرم اور ایک غیر دانستہ واقعہ میں تمیز و تفریق سے محروم کر دیتا ہے۔ عمران خان اور عاصم حسین کو ایک صف میں لاکھڑا کرتے ہیں، محض اس بنا پر کہ ڈاکٹر عاصم حسین آصف علی زرداری کے چہیتے ہیں اور میاں نواز شریف میثاق جمہوریت کی لاج رکھنے پر مجبور۔ جبکہ عمران خان ان دونوں کا مخالف ہے اور پچھلے سال دھرنا دینے کا قصور وار۔
ڈاکٹر عاصم حسین خوش قسمت ہیں کہ پیپلزپارٹی اپنی سیاست، جماعتی مفادات اور مستقبل دائو پر لگا کر ان کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر کھڑی ہے اور اٹھارہویں ترمیم کی آڑ میں وفاق کو بھی آنکھیں دکھا رہی ہے۔ اٹھارہویں آئینی ترمیم جس طرح چھپ چھپا کر جلد بازی میں منظور کی گئی‘ اہل نظر کا ماتھا تو اس پر بھی ٹھنکا تھا مگر یہ کسی کو علم نہ تھا کہ یہ ترمیم نہ صرف تعلیم کا بیڑا غرق کردے گی اور قومی معدنیات و وسائل کی نامنصفانہ تقسیم کا راستہ کھولنے میں معاون و مددگار ثابت ہوگی بلکہ فیڈریشن کی بنیادیں کھوکھلی اور ڈاکوئوں، لٹیروں کو تحفظ فراہم کرنے کا سبب بھی بن سکتی ہے۔ گزشتہ روز سابق وزیراعظم میرظفراللہ جمالی نے جب یہ کہا کہ اٹھارہویں آئینی ترمیم کے سبب پاکستان عملاً چار حصوں میں تقسیم ہو چکا ہے اور سندھ حکومت اس کھونٹے پر ناچ رہی ہے تو انہوں نے غلط نہیں کہا۔ اگر نیشنل ایکشن پلان اور اکیسویں ترمیم کا ہتھیار وفاق کے پاس نہ ہوتا تو سندھ اسمبلی کی قرارداد منظور ہونے کے بعد رینجرز بوریا بستر باندھ کر بیرکوں میں محصور ہوتی اور ڈاکٹر عاصم حسین کے علاوہ کئی دوسرے ملزمان بلاول ہائوس میں نئے سال کی آمد کا جشن منا رہے ہوتے۔ پھر شاید جناب آصف علی زرداری کو بھی بیماری کے بہانے دبئی میں قیام کرنے کی ضرورت نہ تھی۔ سیاں بنے کوتوال اب ڈر کاہے کا۔میاں نوازشریف پاکستان کو اقتصادی و معاشی ٹائیگر بنانے کے لئے ہمہ تن مصروف ہیں۔ وہ عوامی جمہوریہ چین کے تعاون سے حاصل ہونے والے مواقع سے بھرپور فائدہ اٹھانے میں سنجیدہ ہیں اور اس معاملے میں انہیںریاست کے تمام اداروں کی خوش دلانہ تائید و حمایت حاصل ہے۔ کراچی آپریشن کے حوالے سے وہ پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم کے ناز نخرے اٹھانے کے مزید متحمل نہیں ہوسکتے‘ کیونکہ معاشی مرکز ہونے کی وجہ سے کراچی کا امن و استحکام پاک چین اقتصادی راہداری پر بھی اثرانداز ہوگا، بلکہ ہو رہا ہے ۔ روٹ کے حوالے سے خیبرپختونخوا اور سندھ کے موقف میں مطابقت سے بھی پیچیدہ سیاسی مسائل جنم لے سکتے ہیں۔ 1992/93ء میں میاں نواز شریف نے وسط ایشیائی ریاستوںتک رسائی کے لئے جو منصوبے بنائے وہی ان کے لئے وبال جان بن گئے کیونکہ پاکستان کے ازلی مخالفین اور ان کے گماشتوں کو ہرگز منظور نہ تھا کہ یہ ملک ترقی کی شاہراہ پر گامزن رہ سکے۔
پاک چین اقتصادی راہداری کے حوالے سے چھوٹے صوبوں کے تحفظات، نریندر مودی کی اچانک کایا کلپ اور پاکستان آمد کے علاوہ وفاقی حکومت کی خارجہ و دفاعی امور میں بے احتیاطی معاملات میں بگاڑ پیدا کرسکتی ہے۔ پٹھان کوٹ ایئربیس پر حملے کے بعد بھارتی میڈیا کے علاوہ سابق فوجی جرنیلوں نے جس طرح پاکستان کو مورد الزام ٹھہرایا اور حملہ آوروں کا تعلق بہاولپور سے جوڑا‘ اس سے ان اندیشوں کی تصدیق ہوتی ہے کہ مودی سرکار یا ''را‘‘ نیا ڈرامہ کرکے منافقانہ مفاہمت کی موجودہ نمائشی فضا کو ختم کرنا چاہتی ہے کیونکہ حقیقتاً وہ مفاہمت نہیں محاذ آرائی کے حق میں ہے۔ یہ امریکہ و یورپ کے علاوہ بھارتی کارپوریٹ سیکٹر کا دبائو ہے جس نے مودی کو جاتی امرا آنے اور منافقانہ مسکراہٹ بکھیرنے پر مجبور کیا۔
اس حملے میں بھارت کا کم نقصان، حملہ آوروں کی فون پر گفتگو، شناختی کارڈوں کی موجودگی اور دیگر پیش کردہ معلومات سے ڈرامہ سمجھ میں آتا ہے۔ بھارتی میڈیا کو قتل ہونے والے مسلمان کے بارے میں ایک ماہ بعد یہ علم ہوا کہ اس کمے ریفریجریٹر میں گائے نہیں بلکہ بکرے کا گوشت تھا مگر حملہ آوروں کے بارے میں انہیںچند گھنٹوں میں علم ہوگیا کہ وہ پاکستانی ہیں۔
اس حملے کا تعلق حافظ سعید اور جماعت الدعوۃ کے خلاف امریکہ و بھارت کے حالیہ دبائو سے بھی ہوسکتا ہے جس کا پاکستان سامنا کر رہا ہے۔ پٹھان کوٹ ایئربیس پر حملے کا الزام ایسے ہی کسی نان سٹیٹ ایکٹر پر لگا کر نہ صرف گرفتاری کے مطالبہ میں شدت آسکتی ہے بلکہ خارجہ سیکرٹری سطح کے مذاکرات کو ملتوی کرنے کا بہانہ بھی کیا جاسکتا ہے ۔ واللہ اعلم۔ 
عمران خان کو احتیاط کرنی چاہیے۔ مخالفین کو انگشت نمائی کا موقع فراہم نہ کرے ؛ تاہم عاصم حسین اور عمران خان یا شوکت خانم ہسپتال اور ضیاء الدین ہسپتال کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکنا تقاضائے انصاف نہیں‘ پرلے درجے کی ڈھٹائی اور سنگدلی ہے۔ مگر سیاست کے سینے میں دل اور آنکھ میں شرم کہاں؟ بے حیا باش و ہرچہ خواہی کن۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں