نظرے خوش گزرے

دوران مطالعہ بعض چٹکلے‘لطیفے ‘جملے‘ واقعات اور تجربات ایسے بھی پڑھنے کو ملتے ہیں جنہیں قارئین سے شیئر کرنا اچھا لگتا ہے۔ سانگلہ ہل میں زمین کے تنازع پر ایک چالیس سالہ شخص کے ہونٹ تانبے کے تار سے سینے‘ لاہور کے علاقہ میں مردہ جانوروں کی چربی سے بناسپتی گھی اور خوردنی تیل بنانے اور سنگدل و نافرمان بیٹے کے ہاتھوں باپ کے قتل کی خبریں پڑھنے سے بہتر ہے کہ انسان چند حکمت آمیز‘ نصیحت آموز اور لطف انگیز حکایات و لطائف سے محظوظ ہو۔
ایک دن شیخ سعدیؒ کے گھر ان کا پرانا دوست آیا اور اس نے بطور قرض کچھ رقم مانگی۔ شیخ نے مطلوبہ رقم دے کر رخصت کیا اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے۔ بیوی بولی ‘اگر رقم کی واپسی کی اُمید نہ تھی تو کوئی بہانہ کر دیتے ‘اب رونے دھونے کا کیا فائدہ؟ شیخ سعدیؒ نے جواب دیا۔ یہ بات نہیں۔ مجھے رونا اس بات پر آ رہا ہے کہ میں اپنے دوست کی ضرورت سے بے خبر رہا‘حتیٰ کہ اسے خود میرے دروازے پر آ کر اپنی حاجت بیان کرنی پڑی۔
ایک بوڑھے کسان نے جیل میں قید اپنے بیٹے کو خط لکھا۔ پیارے بیٹے! میں اس سال آلو کی فصل نہیں بو سکتا۔ مجھ سے کھیت کی کھدائی نہیں ہوتی۔ ہل چلانا مجھ کمزور کے بس میں نہیں۔ بیٹے نے جواب لکھا''پیارے اباّ جان! کھیت مت کھودنا‘ میں نے اسلحہ زمین میں چھپا رکھا ہے۔ کہیں مارے یا پکڑے نہ جائو۔‘‘ اگلے دن پولیس نے کھیت پر ہلّہ بول دیا۔ سارے کھیت کی کھدائی کر ڈالی مگر انہیں کچھ نہ ملا۔ باپ نے کھیت میں آلو بویا اور بیٹے کو خط لکھا ‘‘شاباش میرے بیٹے۔ تم نے جیل میں بیٹھ کر میری مدد کی۔ میں نے کھودے گئے کھیت میں آلو کی فصل کاشت کر دی ہے۔
ایک کنجوس مگر چالاک شخص بچے کو لے کر حجام کی دکان پر گیا۔ بال بنوائے‘ شیو کرائی اور حجام سے کہا ؛تم بچے کے بال کاٹو میں سبزی لے کر آتا ہوں۔ حجام نے بچّے کے بال کاٹ دیئے لیکن وہ شخص واپس نہ آیا۔ کافی دیر بعد حجام نے بچّے سے پوچھا‘ تمہارے ابّو کہاں چلے گئے‘ بچّہ بولاکون سا ابّو ؟۔ وہ میرا ابّو تو نہ تھا‘‘۔ حجام بولا ؛تو پھر وہ کون تھا؟ بچہ بولا‘ مجھے کیا پتہ۔ میں تو گلی میں کھیل رہا تھا۔ یہ آدمی آیا اور بولا۔ تمہارے بال بڑھ گئے ہیں؛ آئو میں کٹوا دوں۔
اس نے ڈاکٹر کی فیس ادا کر کے نمبر لیا اور استقبالیہ میں بیٹھ گیا۔ یہ شہر کے مشہور اور قابل ڈاکٹر کا کلینک تھا۔ فیس بھی کافی زیادہ تھی اور مریضوں کی تعداد بھی۔ مریض آتے گئے‘ نمبر لیتے گئے اور جسے جہاں جگہ ملی‘ وہاں بیٹھتے رہے۔ سب مریض ڈاکٹر صاحب کا انتظار کر رہے تھے۔ اتنے میں ایک بوڑھی عورت اپنے ساتھ ایک نوعمر بچّہ لے کر استقبالیہ پر آئی۔ بزرگ خاتون کی آنکھوں میں امید کے دیئے جل رہے تھے۔ اس نے استقبالیہ کلرک سے ڈاکٹر کی فیس پوچھی‘ فیس سن کر اس کی آنکھوں میں جلتے دیئے بجھ گئے‘ اس نے بیمار بچّے کا ہاتھ پکڑا اور دروازے کی طرف بڑھی‘ باہر جانے کے لیے۔
وہ اپنی جگہ سے اٹھا اور خاتون کو روکا۔ پھر اپنا نمبر اور فیس کی رسید انہیں دے کر ہسپتال سے باہر آیا کیونکہ اُسے کوئی بیماری نہ تھی۔ وہ ہر ماہ اسی طرح فیس بھر کر اپنا نمبر کسی مستحق مریض کو دے دیتا اور پھر پورا مہینہ کسی ڈاکٹر کے پاس اُسے جانا نہیں پڑتا۔
امریکہ میں دو طبقے اہم شخصیات(VIP)میں شمار ہوتے ہیں۔ سائنس دان اور استاد۔ فرانس کی عدالتوں میں استاد کے سوا کسی کو کرسی پیش نہیں کی جاتی۔ جاپان میں پولیس کو استاد کی گرفتاری سے پہلے حکومت سے خصوصی اجازت لینی پڑتی ہے۔ کوریا میں کوئی بھی استاد ان سہولتوں سے فائدہ اٹھا سکتا ہے جو پاکستان میں حکمرانوں اور ارکان اسمبلی کو حاصل ہیں مگر ہمارے ہاں!استاد مرد و خواتین کو اپنے جائز حقوق کے لیے سڑکوں پر نکلنا پڑے تو پولیس انہیں مار مار کر دُنبہ بنا دیتی ہے۔
ایک استاد اور شاگر دمسجد سے باہر نکل رہے تھے۔ ان کی نظر ایک پرانے جوتے پر پڑی ۔انہیں لگا کہ کوئی غریب شخص ابھی تک مسجد میں بیٹھا ہے۔ شاگرد نے استاد سے کہا ‘اگر ہم یہ جوتا چھپا دیں تو ہمیں اس کے باہر آنے پر پتہ چل جائے گا کہ یہ شخص اس صورتحال میں کیا کرتا ہے۔ کیا چیختا چلاتا ہے‘ کسی دوسرے کا جوتا پہن کر چل پڑتا ہے یا چپ چاپ چلا جاتا ہے۔ استاد نے کہا ‘یہ مناسب نہیں کہ ہم کسی کو تکلیف دے کر اس کی پریشانی کا نظارہ کریں۔ اگر دیکھنا ہی ہے تو ہم اس کے جوتوں میں کچھ رقم چھپا دیتے ہیں پھر دیکھتے ہیں رقم ملنے پر اس کا ردعمل کیا ہو تا ہے۔
استاد نے کچھ رقم اپنی جیب سے نکال کر اس کے جوتوں میں چھپا دی اور دونوں چھپ کر اس کا انتظار کرنے لگے۔ غریب شخص باہر آیا‘ جوتے پہنے تو اسے احساس ہوا کہ جوتوں میں کوئی چیز موجود ہے۔ ہاتھ ڈال کر نکالا تو کچھ رقم تھی۔ حیرت سے ان پیسوں کو دیکھتا رہا۔ اس نے ادھر ادھر دیکھا۔ کسی کو موجود نہ پا کر وہ حیران و پریشان نظر آنے لگا۔ پھر اس نے آسمان کی طرف دیکھا اور بولا۔ یااللہ تیرا شکر ہے۔ تونے میری دعا قبول کی‘ کسی بھلے انسان کے دل میں میری مدد کا خیال ڈال دیا کیونکہ تو جانتا ہے کہ میری بیوی سخت بیمار ہے۔ اس کا علاج کرانا تو درکنار میرے پاس تو بچوں کو کھلانے کے لیے بھی کچھ نہیں۔ یا اللہ اس نیک انسان کو جزائے خیر سے نواز۔ غریب شخص کی آنکھوں میں آنسو تھے اور وہ بار بار پکارے جا رہا تھا۔ اے اللہ تیرا شکر ہے‘ اب میری بیوی کو دوا مل جائیگی۔ میرے بچوں کی بھوک مٹ جائے گی۔
اپنے زمانے کا ایک فاضل استاد بادشاہ کے بیٹے کو پڑھایا کرتا تھا ۔وہ دوران تدریس شہزادے کی معمولی غلطی نظر انداز نہ کرتا اور معمولی کوتاہی پر بھی سزا دیتا۔ شہزادہ کافی عرصہ تک استاد کی سختی برداشت کرتا رہا مگر آخراس کا پیمانۂ صبر لبریز ہو گیا اور ایک دن موقع پا کر اس نے باپ کو آگاہ کر دیا کہ استاد محترم سختی سے پیش آتے اور ہر روز سزا دیتے ہیں۔
بادشاہ کو ملال ہوا ۔اس نے استاد کو بلایا اور پوچھا‘ آخر کیا وجہ ہے کہ تم میرے برخوردار کے ساتھ دوسروں کی نسبت زیادہ سختی سے پیش آتے ہو۔نرمی کا وہ برتائو نہیں کر تے جو دوسروں کے ساتھ کرتے ہو۔؟
استاد بولا۔ حضور والا یوں تو ادب آداب سیکھنا اور سکھانا سب کے لیے ضروری ہے لیکن شہزادوں کے لیے حد درجہ ضروری ہے کیونکہ آگے چل کر وہی ملکی انتظام و انصرام سنبھالیں اور چلائیں گے۔ عام لوگوں کی خامیوں اور کوتاہیوں کا اثر ان کی ذات اور خاندان تک محدود رہتا ہے لیکن حکمرانوں کی کمزوریوں اور غلط روی کی سزا پورے ملک اور معاشرے کو بھگتنا پڑتی ہے۔ بس یہی سوچ کر میں شہزادوں کی تعلیم و تربیت پر زیادہ توجہ دیتا ہوں تاکہ بڑے ہو کر یہ دوسروں کے لیے وبال نہ بنیں‘ فیض رساں ہوں۔
توکل سیکھنا ہے تو پرندوں سے سیکھو ۔وہ جب شام کو گھر جاتے ہیں تو ان کی چونچ میں کچھ نہیں ہوتا۔
جو نصیحت نہیں سنتا ‘ وہ ملامت سنتا ہے۔
جب بھیڑیا حاکم‘ سگ وزیر‘ کوّا صوفی‘ چیونٹی نگران مال بن جائے تو سمجھ لو ملک ویران ہو گیا۔
اگر چڑیوں میں اتحاد ہو جائے تو وہ شیر کی کھال اُتار سکتی ہیں۔
اگر غنی کو ایک روٹی ملے تو وہ آدھی فقیر کو دے ڈالتا ہے مگر حریص کو پورے ملک کی بادشاہت بھی مل جائے تو وہ دوسری پانے کے خیال میں سرگرداں رہتا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں