سُرمہ ہے مری آنکھ کا خاک مدینہ و نجف

دو برادر مسلم ممالک کے مابین ثالثی کوششوں کا آغاز بھاری پتھر ہے جسے 1981ء میں سابق فوجی حکمران جنرل ضیاء الحق اور 1990ء میں میاں نواز شریف نے اٹھایا مگر چوم کر رکھ دیا۔ دونوں مواقع پر ارادہ نیک تھا اور عزم پختہ مگر فریقین کی ہٹ دھرمی نے مصالحتی کوششوں پر پانی پھیر دیا۔
ایران میں 1979ء کا عوامی انقلاب امریکہ اور یورپ کے لیے تو خیر سوہان روح ہونا ہی تھا کہ اس کی قیادت ایک عمامہ پوش آیت اللہ کے ہاتھ میں تھی اور اسلام کی سربلندی کا نعرہ انقلابیوں کے لبوں پر‘ مگر عرب و عجم کے ملوک وسلاطین نے بھی اسے اپنے لیے چیلنج سمجھا۔ آیت اللہ خمینی نے اپنی زندگی میں ''لاشرقیہ ‘ لاغربیہ‘ اسلامیہ جمہوریہ‘‘ اور ''جو شیعہ سنی میں تفریق کرتا ہے وہ اسلام کا دشمن ہے‘‘ کو ماٹو بنایا۔مگر عرب کے سلاطین اور عجم کے گماشتہ حکمرانوں نے اس پر شیعہ انقلاب کا لیبل لگا کر دائرہ اثر محدود کرنے کی کوشش کی۔
آیت اللہ کے بعض تنگ نظر اور مسلکی تعصبات کا شکار ساتھی بھی اس تاثر کو پختہ کرنے میں پیش پیش رہے۔ آیت اللہ منتظری جیسے وسیع المشرب‘روادار‘ اور مسلکی تعصبات سے بالاتر عالم اس تنگ نظری کا نشانہ بنے اور ڈاکٹر علی شریعتی کی انقلابی فکر بھی انہی ملائوں کی متعصبانہ سوچ کے تحت ایران میں سرکاری پابندیوں کی زد میں آئی؛ حالانکہ علی شریعتی نے ایران کی نوجوان نسل کی فکری رہنمائی کی اور رضا شاہ پہلوی کی ساواک کے ہاتھوں جاں بحق ہوئے۔
ایران پر صدام حسین حملہ آور ہوا تو امریکہ اور سعودی عرب کے علاوہ اردن نے جنرل ضیاء الحق پر بھر پور دبائو ڈالا کہ وہ عراق کی کھل کر حمایت کریں اور ایران سے سفارتی تعلقات توڑ دیں‘ مگر اس فوجی آمر نے عراقی جارحیت کی حمایت کرنے سے انکار کر دیا اور نامور امریکی صحافی جان میکگلن کو انٹرویو دیتے ہوئے دنیا پر واضح کیا کہ ''ایران ہمارا ہمسایہ ہے‘ہمسایہ ماں جایا‘ ہمیں اس کی ہمسائیگی پر فحر ہے اور ہم ایران کو تنہائی کا شکار ہرگز نہیں ہونے دیں گے‘‘۔ مارچ 1981ء میں جنرل ضیاء الحق او آئی سی کے فیصلے کے مطابق اسلامی ممالک کے سربراہوں پر مشتمل وفد لے کر تہران میں آیت اللہ روح اللہ خمینی سے ملے اور انہیں ثالثی خدمات پیش کیں۔ 
آیت اللہ خمینی نے مصالحانہ مساعی پر مثبت ردعمل ظاہر کرنے کے بجائے ارکان سے کہا کہ'' وہ حق کا ساتھ دیں‘ دونوں فریقوں سے ملیں‘ ان کا نقطہ نظر جانیں‘ حالات کا بنظر غائر جائزہ لیں اور ایمانداری سے یہ معلوم کریں کہ جارحیت کس نے کی اور قصور وار کون ہے؟ اگر ہم قصور وار ہیں تو پھر آپ فریق مخالف کا ساتھ دیں بصورت دیگر آپ کو مظلوم اور مجروح کا ساتھ دینا چاہیے‘‘۔ کئی سال بعد یہ بے مقصد اور تباہ کن جنگ آیت اللہ نے اس وقت ختم کی جب عراق نے کیمیاوی ہتھیاروں کے بے دریغ استعمال سے ایران کے لیے پسپائی کے سوا کوئی راستہ نہ چھوڑا۔بعدازاں یہی کیمیاوی ہتھیار صدام اور عراق کی تباہی کا سبب بنے۔
صدام حسین امریکی اتحادی تھا نہ سعودی عرب اور اس کے ہم مشربوں کا ہمدرد و حلیف۔ جمال عبدالناصر کی طرح صدام حسین سعودی عرب‘ کویت‘ اردن اور دیگر عرب ممالک میں بادشاہتوں کا خاتمہ چاہتا تھا۔ عربوں کے نزدیک صدام حسین کی وہی حیثیت تھی جو آج شام کے بشار الاسد کی ہے مگر ایران دشمنی میں سب اکٹھے ہو گئے اور عرب وعجم کے علاوہ شیعہ سنی اختلافات کی وہ آگ بھڑکائی جو آج تک ٹھنڈی نہیں ہو پائی ۔جنرل ضیاء الحق نے 1980ء میں جب ایران کا سرکاری دورہ کیا اور آیت اللہ خمینی سے ملے تو ایرانی قیادت نے پاکستانی حکمران کی خوب ''عزت افزائی‘‘ کی اسے امریکی گماشتہ قرار دیا مگراس نے کبھی ایران مخالف حکمت عملی اختیار نہیں کی‘ الٹا عراق کو یہ شکایت رہی کہ پاکستان اندر خانے ایران کی فوجی اور مالی مدد کر رہا ہے۔
صدام حسین نے اسی پاگل پن کا مظاہرہ 1990ء میں کویت پر قبضہ کے ذریعے کیا تھا۔ وزیر اعظم میاں نواز شریف نے مصالحتی کوششوں پر توجہ دی مگر تب صدام حسین پر طاقت کا بھوت سوار تھا اور پاکستان میں جنرل اسلم بیگ قوم کو مزاحمتی فلسفے کے ذریعے صدام کی کامیابی کی نوید سنا رہے تھے۔ یوں مشن ناکام رہا اور اتحادی افواج نے آ کر کویت پر عراق کا قبضہ ختم کیا۔ 1981ء میں آیت اللہ خمینی اور 1990ء میں صدام حسین اگرپاکستان کی مصالحتی کوششوں کو پائے حقارت سے نہ ٹھکراتے تو خطے کی صورتحال شاید مختلف ہوتی‘ صدام اور عراق عبرتناک حشر سے دوچارہوتے نہ ایران لاشرقیہ‘ لاغربیہ کا نعرہ چھوڑ کر مسلکی تنگنائیوں میں محدود ہوتا۔ عربوں کو بھی عرب و عجم اور شیعہ سنی جذبات ابھارنے کی سزا اس انتشار اور باہمی عداوتوں کی صورت میں ملی جس نے اسرائیل کو طاقتور اور قدرتی وسائل سے مالا مال عربوں کو کمزور و بے بس کر دیا ہے۔
ایران نے ایٹمی پروگرام کا ہوّا دکھا کر امریکہ اور یورپ سے معاہدہ کر لیا ہے۔ عربوں کو چالیس سال کا طویل عرصہ ملا‘ وہ چاہتے تو اپنے قدرتی وسائل کو بروئے کار لا کر تعلیم‘ دفاع اور اقتصادی و معاشی میدان میں امریکہ و یورپ نہ سہی سنگا پور اور چین کے ہم پلہ ہو سکتے تھے مگر کسی کو یہ توفیق نہیں ہوئی۔ مغربی ممالک کی معاشی ترقی عربوں کے شوق سیرو سیاحت اور عیش و عشرت کے علاوہ فیاضی کی مرہون منت ہے۔ پاکستان کے ایٹمی سائنس دان سلطان بشیر الدین محمودبرسوں مالدار عرب ممالک اور ریاستوں کی منت سماجت کرتے رہے کہ وہ ایک جدید یونیورسٹی کے قیام میں مدد کریں جہاں نیو کلیر فزکس اور دیگر ایسے مضامین کی تعلیم کا اہتمام کیا جائے جن میں امریکی و یورپی جامعات کسی مسلمان طالب علم کو داخلہ دینے کی روادار نہیں مگر کسی نے کان نہیں دھرا۔ البتہ جنرل پرویز مشرف نے موقع ملنے پر اس فرشتہ صفت سائنس دان کو امریکی تفتیش کاروں کے سپرد کر دیا کہ وہ ان سے اپنے منصوبے کی تفصیلات معلوم کر سکیں ۔ارادہ تو ان کا ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو بھی امریکہ کے حوالے کرنے کا تھا مگر اس وقت کے وزیر اعظم ظفر اللہ جمالی آڑے آئے اور یہ منصوبہ ناکام ہو گیا۔ 
ایران پر عائد پابندیاں ہٹنے کے بعد توقع یہ کی جا رہی ہے کہ وہ ایک بار پھر علاقے کی مضبوط معاشی و دفاعی قوت کے طور پر ابھرے گا۔ ایرانیوں نے تعلیم پر بھر پور توجہ دی ہے ‘ادارے وہاں کے خاصے مضبوط ہیں اور اگر ایران کو ڈینگ سیاپنگ طرز کا کوئی روشن خیال لیڈر مل گیا تو یہ ‘اور کچھ نہیں ‘شاہ کے دور کا ایران بننے میں پانچ سات سال سے زیادہ کا عرصہ نہیں لے گا۔ تیل کی پیداوار میں پانچ لاکھ بیرل یومیہ کا اضافہ اور یورپی ممالک کو گیس کی آزادانہ فروخت سے اس کی معیشت سنبھلے گی اور تیل پیدا کرنے والے عرب ممالک کی اقتصادی حالت مزید زوال پذیر ہو گی کیونکہ انہوں نے اپنی معیشت جدید خطوط پر استوار کی ہی نہیں۔ تیل پر انحصار ہے جو عالمی منڈی میں پانی سے سستا بک رہا ہے۔
پاکستان کا مصالحتی مشن قومی مفادات اور علاقائی جوڑ توڑ کے حوالے سے بہترین حکمت عملی ہے۔ عالم عرب میں ایران سعودی عرب کشمکش‘ عرب و عجم کا دیرینہ تنازع اور علاقائی بالادستی کا شاخسانہ ہے۔ مگر پاکستان میں یہ مسلکی اختلافات کا رنگ لیے ہوئے ہے اور کسی بھی مسلک سے وابستہ لوگوں کو اقبال یاد نہیں ؎
خیرہ نہ کر سکا مجھے جلوۂِ دانشِ فرنگ
سرمہ ہے میری آنکھ کا خاک مدینہ و نجف
سارا عالم اسلام عرب و عجم اور شیعہ سنی کے تعصبات میں بٹا ہے اور دانش فرنگ نے اُسے خیرہ کر دیا ہے جبکہ پاکستان کو نتائج و مضمرات کا کچھ نہ کچھ احساس ہے۔ تبھی نواز شریف اور جنرل راحیل مصالحتی مشن پر نکلے ہیں۔ اگر دونوں ایران اور سعودی عرب کو یہ باور کرنے میں کامیاب رہے کہ ان کا اصل دشمن اسرائیل ہے یا ان کا وہ سرپرست جسے مسلمانوں کا اتحاد پسند ہے نہ امت کی نشاہ ثانیہ اور نہ ؎ 
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے
نیل کے ساحل سے لے کر تابخاک کاشغر
کا نغمہ۔ اگر سعودی حکمرانوں نے پٹھے پر ہاتھ دھرنے دیا اور ایرانی قیادت نے قصور وار کون؟کی گردان نہ کی‘ عراق اور لیبیا کا حشر یاد رکھاتو ایک نئے دور کا آغاز ہو سکتا ہے ؎
شب گریزاں ہو گی آخر جلوہ خورشید سے
یہ چمن معمور ہو گا نغمہ توحید سے
کاش شاہ سلمان‘ آیت اللہ خامنہ ای اور حسن روحانی داعش اور اس کے حقیقی سرپرستوں کے عزائم اور منصوبوں کا ادراک کر سکیں اور ہم خود بھی جو امریکہ کی جنگ کو اپنی جنگ بنا بیٹھے اور اب جائے فرار نہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں