تِرے دماغ میں بت خانہ ہو تو کیا کہیے

عالیشان منصوبے بنانے‘ بلند بانگ دعوے کرنے اور ہتھیلی پر سرسوں اُگانے میں ہمارا کوئی ثانی نہیں مگر عمل اور اخلاص عمل کی توفیق ہمیں کم نصیب ہوتی ہے۔ آرمی پبلک سکول کے حادثے کے بعد تشکیل پانے والا نیشنل ایکشن پلان نمایاں مثال ہے۔ منصوبہ شاندار تھا اور قوم کا عزم بے مثال۔ عملدرآمد کے مراحل میں یہ بھول بھلیوں میں گم ہو گیا۔منصوبہ ہم نے دہشت گردوں کی کمر توڑنے اور اقتصادی راہداری سے ملکی خوش حالی کا بنایا مگر لوازمات کسی کے بھی پورے نہیں کیے۔
چار سدّہ یونیورسٹی کے حادثے نے ہمارے حکمرانوں ‘ سیاسی و فوجی قائدین کو ایک بار پھر اس پلان کی گرد جھاڑنے اور اس پر عملدرآمد کا عزم دہرانے کا موقع فراہم کیا ہے۔ مگر جب تک ہم گزشتہ ایک سال کے دوران اپنی اور اپنے اداروں کی کارگزاری کا ناقدانہ جائزہ نہیں لیتے‘ کوتاہیوں اور کمزوریوں کا اعتراف نہیں کرتے اور خلق خدا کی طرف سے اٹھائے جانے والے سنجیدہ اور برمحل سوالات کا جواب نہیں ڈھونڈتے نئے عزم اور دعوئوں پر کون اعتبار کریگا۔؟ قوم کا حافظہ کمزور سہی مگر اتنا بھی نہیں کہ اُسے ایک سال قبل کے دعوے یاد ہوں نہ آرمی پبلک سکول کے شہدا اور ورثا سے کیے گئے وعدے ع
مجھے یاد سب ہے ذرا ذرا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو۔
چار سدہ یونیورسٹی میں چار دہشت گرد آسمان سے ٹپکے نہ زمین سے اُگے۔ یونیورسٹی کے عقب میں تو بجا کہ گنے کے کھیت تھے مگر کیا افغان سرحد سے لے کر چارسدہ تک بھی انہوں نے گنے کے کھیتوں کی آڑ لی۔؟ وہ افغانستان کی سرزمین سے تربیت اور ہتھیار لے کر روانہ ہوئے۔ انہیں کہیں ایف سی نے روکا نہ پولیس اور کسی دوسرے ادارے نے ٹوکااور جہاں جہاں یہ آئے‘ جس گھر‘ دکان میں ان چاروں نے شب بسری کی اور بآسانی اپنے ہدف تک پہنچے‘ اس کا علم قبل از وقت کسی کو نہ ہو سکا۔ ہمارے اداروں کی ساری ذہانت‘ مہارت اور سونگھنے‘ دیکھنے کی صلاحیت جواب دے گئی۔ جیکٹ پہننے سے پہلے کسی کو پتہ چلا نہ یونیورسٹی میں گھس کر پہلی گولی چلانے تک کوئی انہیں پہچان سکا۔ 
نیشنل ایکشن پلان کی روشنی میں ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ مشرقی اور مغربی سرحدوں پر نگرانی کا فول پروف نظام وضع کر کے ''را‘‘ کے تربیت یافتہ ایجنٹوں ‘ تخریب کاروں اور ٹی ٹی پی دہشت گردوں کی اندرون ملک آمد ناممکن بنائی جاتی۔ مواصلاتی رابطوں کو غیر موثر کیا جاتا۔ شہر و دیہات میں‘ گلی محلے ‘مارکیٹ اور سرکاری و غیر سرکاری اداروں کی سطح پر پولیس‘ سفید پوش چوکیدارہ اور نمبرداری نظام کے ذریعے ہر شخص اور خاندان کے کوائف اکٹھے کر کے ان کا سائنسی بنیادوں پر تجزیہ کیا جاتا اور مشکوک افراد کی آمدو رفت‘ ملازمت کاروبار و رہائش اور رابطوں کو ناممکن بنا کر وارداتوں کے امکانات ختم کیے جاتے‘ قانون پسند‘ شریف اور جذبۂ خدمتِ خلق سے سرشار شہریوں کے ذریعے قانون شکن اور سماج دشمن عناصر کے علاوہ ان کے سہولت کاروں اور سرپرستوں کی چوبیس گھنٹے کڑی نگرانی اور معلومات کے تبادلے کا اہتمام ہوتا اور ملک بھر میں ہنگامی حالت کا اعلان کر کے غیر قانونی اسلحے‘پیسے اور لٹریچر کی ترسیل روک دی جاتی مگر ہوا بالکل اس کے برعکس۔
پولیس کو یہ فرض سونپا گیا کہ وہ مساجد کے لائوڈ سپیکر بند کرا دے اور جس کتاب‘ جریدے پمفلٹ‘ سی ڈی اور ڈی وی ڈی میں شریعت‘ جہاد‘ خلافت اور مختلف مسالک کے مابین اختلافی مسائل کا ذکر ملے ضبط کر کے ہر اس شخص کو گرفتار کر لے جس کا کوئی تعلق ان چیزوں سے ثابت ہو۔ حالانکہ دہشت گرد مساجد کے لائوڈ سپیکر سے رضا کاروں کو بھرتی کی دعوت دیتے ہیں نہ خود کش دھماکوں کے اہداف بتاتے اور نہ برین واشنگ کے لیے اسے استعمال کرتے ہیں۔ یہ کام خاموشی اور مہارت سے وہاں ہوتا ہے جہاں تک ابھی ہمارے اداروں کی رسائی نہیں۔ زیادہ سے زیادہ یہ لائوڈ سپیکر فرقہ واریت پھیلانے میں مددگار ثابت ہو سکتے ہیں مگر ہمارے ملک میں دھماکے‘ خود کش حملے اور ٹارگٹ کلنگ کے واقعات فرقہ واریت کی بنیاد پر ہو رہے ہیں نہ فرقہ پرست ملائوں کو اب تک کسی نے ہاتھ لگایا ہے۔ البتہ اذان اور اللہ و رسولؐ کے ذکر سے الرجک ایک طبقے کی تسکین قلب کا اہتمام ضرور ہوا ہے۔حکمرانوں کے پروٹوکول‘ جوئے خانوں‘ اور شراب کے اڈوں کی نگرانی اور ناکوں پر تلاشی میں مصروف پولیس کو اس دھندے میں مشغول دیکھ کر دہشت گردوں کی باچھیں کھل اُٹھیں۔
نیشنل ایکشن پلان پر سست روی کی اہم ترین وجہ تو ہمارے حکمرانوں اور سویلین اداروں کی روایتی سہل پسندی‘ غفلت شعاری اور لاپروائی ہے مگر ریاستی ترجیحات میں اسے اوّلیت ایک دن کے لیے بھی حاصل نہیں ہوئی ۔اگر ہم حالت جنگ میں ہیں تو پھر کسی ملک میں بھی دوران جنگ نہ تو ترقیاتی فنڈز کے نام پر حکمرانوں اور ارکان پارلیمنٹ کا کھانچہ پروگرام چلتا ہے‘ غیر ملکی دوروں کا شوق پورا کیا جاتا ہے نہ نمود و نمائش کی اجازت ہوتی ہے اور نہ جنگی منصوبوں کے سوا کسی دوسرے نمائشی منصوبے کے لیے اربوں بلکہ کھربوں روپے مختص کیے جاتے ہیں۔ ترقیاتی منصوبوں کے فیتے کٹتے ہیں نہ سیاستدان ایک دوسرے سے دست و گریباں نظر آتے ہیں ۔صرف اور صرف ایک ہی مقصد ہوتا ہے کہ پہلے جنگ جیتی جائے پھر ان اللّوں تللّوں پر توجہ دی جائے گی۔ 1965ء میں پوری قوم نے اپنے آپ کو حالت جنگ میں محسوس کیا۔ معمولات کو ترک کرکے حکمران اور عوام یک رنگ ویک سو ہوئے ۔کامیابی نے قدم چومے‘ 1971ء میں حکمران حالت بھنگ اور عوام ترنگ میں رہے اور اقتدار کی کشمکش میں اشرافیہ بائولی ہو گئی۔ نتیجہ سقوط ڈھاکہ کی صورت میں برآمد ہوا۔ 
چار سدہ واقعہ میں دشمن کا تعین تو ہو چکا۔ مگر کوتاہی کے مرتکب مقامی افراد اور اداروں کا مواخذہ بھی ضروری ہے ۔ہر بار شہدا ء کی قربانیوں کی آڑ لے کر ذمہ داروں سے چشم پوشی مناسب نہیں۔ اس سے شہداء کے والدین کو تسلی ہوتی ہے‘ بہن بھائیوں اور عزیز و اقارب کی نہ قوم کی۔ بے لاگ تحقیقات کے ذریعے سانحہ کی روک تھام میں ناکام رہنے والے افراد اور اداروں کا تعین اور محاسبہ ہونا چاہیے تاکہ دوسروں کو کان ہوں اور ہر ایک اپنا فرض خوش اسلوبی سے ادا کر ے۔جنگی جنون پیدا کیے بغیر تمام شعبوں کے ترقیاتی فنڈز دو سال تک منجمد کر کے صرف اور صرف سرحدوں کی نگرانی کے نظام‘ پولیس کی نفری‘ سہولتوں اور تربیت میں اضافے اور ہتھیاروں کی خریداری کے لیے وقف ہوں‘ عوام کی آگہی کے لیے بھی جامع پروگرام ترتیب دیا جائے تو اعتبار آئے کہ حکومت خطرے سے نمٹنے میں سنجیدہ ہے۔
نادرا کا ڈیٹا بیس نظر ثانی کا محتاج ہے۔ تمام غیر ملکی اور مشکوک افراد سے پاک کر کے نئے سرے سے مرتب کیا جائے۔ ویزا کے بغیر کوئی شخص ملک میں داخل ہو نہ‘ موجود رہ سکے۔ ہر شعبے کو دستاویزی شکنجے میں کسا جائے اور ہر شہری کے بارے میں قابل اعتماد بنیادی معلومات کا محفوظ ڈیٹا بیس ریاست کے پاس موجود ہو۔ ہر محکمے‘ شعبے اور ادارے کو طے شدہ قوانین اور معیار کے مطابق چلانے کے لیے کمرکس لی جائے اور کوئی مصلحت آڑے نہ آنے پائے۔ ہر قانون شکن‘ لٹیرے اور دہشت گردوں کے سہولت کار فرد و گروہ کو احتساب کے بے لاگ اور باعث عبرت شکنجے میں کسنے کے لیے آئین کی اکیسویں ترمیم سے استفادہ کیا جائے اور بائیسویں ترمیم کے ذریعے قوانین میں موجودہ کمزوریاں دور کی جائیں۔ فنانشل ٹیررازم کے خاتمے کے لیے بھی ٹھوس اقدامات میں مزید تاخیر نقصان دہ ہے اور کسی سیاسی عصبّیت اور گروہی معاونت کو آڑے نہ آنے دیا جائے‘ صرف اسی صورت میں دہشت گردوں کے عفریت کا مکمل قلع قمع ممکن ہے۔
دہشت گردوں کا مقابلہ گولی اور دماغ دونوں سے کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ہر نسل‘ زبان ‘ عقیدے اور علاقے کے مجرموں سے یکساں سلوک کیا جائے اور شاخیں کاٹنے کے بجائے جڑوں پر ضرب لگائی جائے ۔ملک کا بچہ بچہ جانتا ہے کہ ہمارا حقیقی دشمن کون ہے اور آرمی پبلک سکول سے لے کر جامعہ چار سدّہ تک ہمارے بچوں پر گولیاں برسانے والے کس کے بغل بچے ہیں مگر بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ ہمارے حکمران اور ان کے چہیتے دانشور اس کا نام لیتے ہوئے شرماتے اور حیلوں بہانوں سے پردہ پوشی کرتے ہیںجس کا بھر پور فائدہ ملک پر حملہ آور عناصر اُٹھاتے ہیں۔ دہشت گردوں کے رابطوں اور مالیاتی سہولت کاروں کا علم ہونے کے بعد ہمیں کھل کر اپنے دشمن کے خلاف کھڑا ہونا اور حالت انکار سے نکلنا چاہیے‘ ورنہ اگلی ضرب شائد زیادہ شدید اور تکلیف دہ ہو۔ منوہر پاریکر کا ہر لفظ ہر لمحے ہمیں یاد رکھنا پڑیگا۔ منصوبے نہیں‘ دعوے اور وعدے بھی نہیں صرف اور صرف عمل ؎
فطرت افراد سے اغماض بھی کر لیتی ہے
کبھی کرتی نہیں ملّت کے گناہوں کو معاف

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں