کہ خُوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا

ایک سردار جی اپنے پوتے کو ریاضی پڑھا رہے تھے۔ اُنہوں نے پوتے سے کہا کہ نو کے ہندسے کو آٹھ (9x8) سے ضرب دے کر حاصل ضرب بتائو۔ پوتے نے دماغ کا پورا زور لگا کر حاصل ضرب 76 بتایا۔ سردار جی نے پوتے کو شاباش دی اور مُنہ چُوم لیا۔ ساتھ بیٹھے دوست نے کہا: سردار جی حاصل ضرب 76 نہیں 72 بنتا ہے‘ آپ غلط جواب پر بچے کو شاباش دے رہے ہیں۔ سردار جی نے کہا: ریاضی کے مضمون میں برخوردار کا ریکارڈ پہلے سے بہتر ہوا ہے پہلے وہ 78 بتایا کرتا تھا‘ اب 76 پر آ گیا ہے آہستہ آہستہ 72 بھی بتانے لگے گا‘ جتنی بہتری ہوئی ہے اس پر شاباش بنتی ہے۔
ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی شفافیت کے حوالے سے رپورٹ پڑھ کر مُجھے یہ سردار جی شدت سے یاد آئے۔ پاکستان نے 2014ء کے مقابلے میں بہتر کارکردگی دکھائی۔ 168 ممالک کی رینکنگ میں 126 سے بہتر ہو کر 117 پر آ گیا۔ اسی رفتار سے شفافیت کا سفر جاری رہا تو سردار جی کے فارمولے کے مطابق ہم کسی نہ کسی دن شفاف ممالک کی صف میں بھی جگہ بنا لیں گے بشرطیکہ ہمیں کسی کی نظر نہ لگے اور ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل ہم پر نہ صرف مہربان رہے بلکہ ہم اس ادارے کو واقعی قابل اعتبار ادارہ بھی سمجھتے رہیں‘ کسی حاسد کو یہ پروپیگنڈا کرنے کا موقع نہ ملے کہ پاکستان میں ٹرانسپیرنسی کے نمائندہ اور وزیر اعظم ہائوس میں قریبی رابطوں کے بعد رپورٹ تو سب اچھا کی آئے گی۔
پاکستان کے لیجنڈ مزاح نگار نے جُھوٹ کی تین اقسام بیان کی ہیں: جُھوٹ‘ سفید جُھوٹ اور اعداد و شمار۔ دُنیا کے کسی دوسرے مُلک میں جُھوٹ کی یہ تین اقسام ہوں نہ ہوں ہمارے ہاں ہیں‘ یہ اعداد و شمار کا گورکھ دھندا ہے جو قوم کو باور کراتا ہے کہ فلاں حکومت کے برسر اقتدار آنے کے بعد غربت و افلاس کی شرح میں اس قدر کمی ہوئی‘ بیروزگاری کا تناسب گھٹ کر اتنا رہ گیا اور تعلیم و صحت کی سہولتوں میں اس قدر اضافہ ہوا۔ یقین تو کرنا ہی پڑتا ہے کہ یہ اعداد و شمار بلوم برگ یا ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل جیسے اداروں نے پیش کئے ہوتے ہیں مگر عام آدمی چکرا ضرور جاتا ہے کہ غربت و افلاس کی شرح میں یہ کمی ''کس شہر میں ہوتی ہے کہاں ہوتی ہے‘‘ تاکہ وہ بھی جا بسیرا کرے۔ کیونکہ جہاں وہ رہتا ہے وہاں تو صرف تعلیمی و طبی اور روزگار کی سہولتیں کم ہوئی ہیں اور مہنگائی و بدامنی میں اضافہ ہوا ہے۔
ایل این جی ایک سال سے درآمد کی جا رہی ہے آج تک اس معاہدے کی کسی کو ہوا لگنے دی گئی نہ قیمت خرید کے بارے میں کُھل کر بتایا جاتا ہے۔ اتنی رازداری ہم نے ایٹمی صلاحیت کے بارے میں نہیں برتی جتنی ایل این جی اور اقتصادی راہداری پر برتی جا رہی ہے۔ پاک چین اقتصادی راہداری کا منصوبہ حکومتی ترجمانوں کے مطابق گیم چینجر ہے اور قوم بھی اسے یہی سمجھتی ہے مگر اپوزیشن پوچھ پوچھ کر تھک گئی ہے کہ اس منصوبے کی تفصیلات اور اوریجنل نقشے سے قوم کو آگاہ کیا جائے۔ وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال وقتاً فوقتاً اپوزیشن اور میڈیا کے اعتراضات کا ازالہ بھی کرتے ہیں۔ اس منصوبے کی چھوٹے صوبوں کے لیے افادیت پر بھی روشنی ڈالتے ہیں‘ مگر جب اوریجنل نقشے اور تفصیلات کی بات آتی ہے تو وہ یہ کہہ کر خاموش ہو جاتے ہیں کہ کُچھ باتوں کے افشا سے چین نے منع کر رکھا ہے۔
دو سال قبل لاہور میں چون ہزار کنال پر مشتمل ایک نیا شہر بسانے کا منصوبہ سامنے آیا‘ کہا یہ گیا ہے کہ یہ ڈی ایچ اے سے بڑا رہائشی و کاروباری منصوبہ ہو گا جس سے صوبائی دارالحکومت کا ناک نقشہ بدل جائے گا۔ گائوں کے گائوں اور قصبے کے قصبے اس منصوبے میں شامل ہونے والے تھے۔ ڈی ایچ اے اور بحریہ ٹائون کی طرز پر پانچ نجی کاروباری اداروں کو اراضی کی خریداری اور انتقال کا فرض سونپا گیا۔ اخبارات میں جہازی سائز اشتہارات شائع ہوئے اور لوگوں نے دھڑا دھڑ فارم خریدنا شروع کر دیئے۔ کتنے فارم بکے‘ متعلقہ اداروں نے کتنے ارب روپے جمع کئے اور چون ہزار کنال میں سے کتنی زمین اب تک خریدی جا چکی؟ کسی کو علم نہیں۔ میری معلومات کے مطابق وزیر اعلیٰ 23 مارچ کو ایل ڈی اے سٹی کے مین بلیوارڈ کی تعمیر کا سنگ بنیاد رکھنا چاہتے ہیں مگر جن پانچ ڈویلپرز نے زمین خریدنے اور ڈویلپمنٹ کرنے کا ذمہ لیا تھا‘ جو غریب اور متوسط طبقے کے خریداروں سے پیشگی کی مد میں اربوں روپے اکٹھے کر چکے ہیں وہ پلہ ہی نہیں پکڑا رہے۔ محتاط اندازے کے مطابق صرف دس سے بارہ ہزار کنال اراضی خریدی جا چکی تھی اور باقی زمین خریدی گئی نہ ڈویلپمنٹ شروع ہوئی‘ چنانچہ ایل ڈی اے کے مجاز حکام وزیر اعلیٰ کی تازہ ہدایات کے مطابق سنگ بنیاد کی تقریب کے لیے پاپڑ بیل رہے ہیں‘ مگر ڈویلپرز سے پوچھتے ہوئے ایل ڈی اے‘ نیب اور ایف آئی اے کے پر جلتے ہیں۔
گزشتہ روز سرکاری نیوز ایجنسی کے رپورٹر نصیب الٰہی نے پریس کانفرنس میں قرض اتارو‘ ملک سنوارو سکیم کے حوالے سے بے ضرر سوا سوال کیا تو وزیر موصوف کی تیوری پر بل پڑ گئے اور غریب رپورٹر کو محض اس جُرم میں جھاڑ پلا دی گئی کہ وہ سرکاری نیوز ایجنسی کا رپورٹر ہو کر اتنے بڑے سرکاری راز کے افشا پر مجبور کرتا ہے...''حالانکہ آں را کہ حساب پاک است از محاسبہ چہ باک‘‘ (جس کا دامن صاف ہے اُسے کسی سوال سے کیا ڈرنا) یہ رقم لوگوں نے قومی جذبے سے سرکاری خزانے میں جمع کرائی۔ مقصد ریاست کو قرضوں کی لعنت سے پاک کرنا تھا‘ ظاہر ہے کہ 1997ء میں ہی یہ رقم آئی ایم ایف‘ ورلڈ بینک اور دیگر کسی مالیاتی ادارے کو قرضے کی قسط یا سود کی مد میں ادا کی گئی ہو گی اور وزیر خزانہ اسحاق ڈار جو مستعد اکائونٹنٹ ہیں اس کا حساب کتاب رکھا ہو گا۔ رپورٹر کو سادہ زبان میں یہ معمولی بات سمجھائی جا سکتی تھی مگر پریس کانفرنس ہی برخاست کر دی گئی۔ نازک مزاج شاہاں‘ تاب سخن نہ دارد۔
ہمارے ایک مرحوم صحافی دوست کہا کرتے تھے کہ گنیز بُک آف ریکارڈ کی طرح ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل اور ایمنسٹی انٹرنیشنل بھی ایسی تنظیمیں ہیں جو اپنی ترجیحات کسی ملک کے حالات‘ حکمرانوں سے تعلقات اور نفع و نقصان کی بیلنس شیٹ دیکھ کر طے کرتی ہیں۔ ہم ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے بارے میں بدگمانی کا شکار ہرگز نہیں اور اپنے دیگر ہم پیشہ دوستوں کی طرح اس الزام کو بھی درست نہیں سمجھتے کہ پاکستان میں اس تنظیم کے نمائندے کو حکومت نے لفٹ کرائی تو اس کی رپورٹوں کی ہیئت‘ الفاظ اور اعداد و شمار میں بھی قابل قدر تبدیلی آئی‘ ہم تو سردار جی کی طرح خوش ہیں کہ بہتری کے آثار نمایاں ہیں اور نو ضرب آٹھ کا حاصل ضرب 76 ہو گیا ہے کسی نہ کسی دن یہ 72 بھی ہو گا۔ دنیا بہ اُمید قائم۔
حقیقت یہ ہے کہ رپورٹیں مرتب کرنے والے بے خبر ہیں نہ ان کی اشاعت پر خوشی سے بغلیں بجانے والے نادان‘ زمینی حقائق کسی سے مخفی نہیں۔ جس روز پاکستان میں کرپشن میں کمی واقع ہوئی عام آدمی کو سب سے پہلے علم ہو گا کیونکہ اس کرپشن کی وجہ سے وہ ایک وقت کی روٹی کا محتاج ہے‘ بچے تعلیم سے محروم اور مریض علاج معالجے سے‘ ہم چند سال پہلے تک فخر سے یہ دعویٰ کیا کرتے تھے کہ پاکستان میں کوئی شخص بھوکا سوتا ہے نہ فُٹ پاتھ پر ڈیرے ڈالتا ہے‘ جبکہ بھارت میں کروڑوں لوگوں کا بسیرا فُٹ پاتھوں پر ہے۔ مگر لاہور شہر میں اب غریب‘ بیروزگار اور بے آسرا لوگ رگوں میں خون جما دینے والی سردی میں فُٹ پاتھوں پر سوتے ہیں اور فاقہ کشی بھی کرتے ہیں۔ 
کرپشن کتنی کم ہوئی یہ تو حکومت کو علم ہو گا یا ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے رپوٹروں کو‘ عام آدمی صرف یہ جانتا ہے کہ مُلک میں کمی صرف گیس کی سپلائی میں ہوئی ہے۔ ڈیفنس‘ گلبرگ اور دیگر جدید اور فیشن ایبل آبادیوں میں بھی نایاب‘ اور اضافہ بجلی کے بلوں‘ دالوں‘ گھی‘ گوشت‘ دودھ‘ سبزیوں‘ پھلوں اور روٹی کے نرخوں میں‘ یا پھر بدامنی‘ لاقانونیت اور بے چینی بڑھ رہی ہے۔ لاہور‘ کراچی اور دیگر شہروں کی مصروف شاہراہوں پر روزانہ احتجاجی جلوس دیکھ کر اگر کوئی سمجھ نہیں پاتا تو آدمی کیا کرے۔ ٹرانسپیرنسی کی رپورٹ حکمرانوں کے لیے ٹانک ہے اور اُن کے مداحوں کے لیے بھی ریکارڈ میں بہتری پر شاباش بھی بنتی ہے‘ مگر عام آدمی بیچارہ ؎
کہ خُوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں