تحفظ حقوق نسواں

پنجاب اسمبلی کے منظور کردہ تحفظ نسواں بل پر رائے زنی میں اہل مذہب نے توازن برقرار رکھا نہ حقوق نسواں کے علمبردار راہ اعتدال پر گامزن رہ سکے۔ دونوں طرف جذباتیت اور افراط و تفریط کا غلبہ رہا۔
پاکستانی معاشرے میں عورت مظلوم ہے صرف بیوی کے طور پر نہیں ماں‘ بہن اور بیٹی کے طور پر بھی۔ مغربی عینک سے دیکھیں تو عورت کو مساوی سماجی‘ معاشی اور قانونی حقوق حاصل نہیں اور اسلامی کسوٹی پر پرکھیں تو یہ دور جاہلیت میں جی رہی ہے اور جو حقوق اسے اسلام نے چودہ سو سال قبل الہامی تعلیمات کی روشنی میں عطا کئے وہ بھی چھن چکے ہیں۔ عورت کا استحصال صرف مرد نہیں کرتا اس کی ہم جنس عورت بھی برابر کی شریک ہے عورت ہی سوکن‘ ساس اور نند کے طور پر‘ اس کی زندگی اجیرن کرتی اور ہنستے بستے گھر کا سکون برباد کر دیتی ہے الزام ہمیشہ مرد پر آتا ہے۔
کہنے کو ہم اسلامی جمہوریہ پاکستان کے باسی ہیں اور یہاں مرد و زن کے مساوی حقوق کا ڈھنڈورا پیٹا جاتا ہے مگر جہاں مرد بنیادی انسانی حقوق سے محروم ہوں ان کے لیے تعلیم اور روزگار کے مواقع مفقود اور انصاف کا حصول خواب ہو‘ وہاں کمزور عورت کو مساوی حقوق دینے کا دعویٰ مذاق ہے‘ بھونڈا مذاق۔ دیہات میں تو عورت کی حالت بھیڑ بکری سے مختلف نہیں‘ بے بس اتنی کہ تعلیم یافتہ نیک سیرت نوجوان عورت کا رشتہ کسی مدقوق بوڑھے یا ان پڑھ لفنگے سے طے کرتے وقت اس سے پوچھنے کی زحمت گوارا کی جاتی ہے نہ اُسے انکار کا یارا ہے کہ یہ پورے خاندان کی عزت کا سوال ہوتا ہے۔
صورتحال شہروں میں بھی مختلف نہیں‘ گھریلو تشدد تو عورت سے روا رکھی جانے والی بدسلوکی کا ایک پہلو ہے کئی اور پہلوئوں سے بھی عورت مظلوم ہے‘ وراثت میں حصہ نہ طلاق اور بیوگی کی صورت میں کسی قسم کا معاشی تحفظ اور نہ گھر سے باہر دفتر‘ کاروباری ادارے اور بازار میں اطمینان و سکون اور معاشرتی احترام۔ بے سروپا دعوے اپنی جگہ مگر عورت کے احترام کا اندازہ گلی محلے میں دوران لڑائی نہیں ہنسی مذاق میں ماں‘ بہن‘ بیٹی سے منسوب مغلظات سے لگایا جا سکتا ہے۔ تھیٹر میں فنکار ان رشتوں کی جو مٹی پلید کرتے ہیں وہ بھی ہماری ذہنیت کے عکاس ہیں مگر ہم معترض نہیں محظوظ ہوتے ہیں وہ لوگ بھی جو حقوق نسواں کے چیمپئن بنے پھرتے ہیں۔ تھیٹر میں یہ فحش اور بے ہودہ مکالمے فنکاروں کو کوئی مولوی نہیں رٹاتا۔
گھریلو تشدد ایک ایسی سماجی برائی ہے جس کا دفاع صرف وہی شخص کر سکتا ہے جس کی آنکھ میں حیاء اور دل میں خوف خدا باقی نہ رہا ہو۔ حضرت عمرؓ سے روایت ہے کہ ''ایک دن میں نے کسی بات پر اپنی بیوی کو ڈانٹا‘ اُس نے مُجھے جواب دیا۔ میں نے کہا تُم میری بات کا جواب دیتی ہو۔ میری بیوی بولی تُم کیا ہو۔ ازواج رسولﷺ چُپ نہیں رہتیں حتیٰ کہ بعض اوقات رسول اللہ ﷺ سے رُوٹھ جاتی ہیں میں نے سوچا غضب ہو گیا اور اُٹھ کر اپنی بیٹی اُم المومنین حضرت حفصہؓ کے ہاں چلا گیا اور پوچھا کیا تُم حضورﷺ سے رُوٹھ جاتی ہو اُس نے اقرار کیا میں نے کہا تُمہیں اندازہ نہیں رسول اللہﷺ کی ناراضی اللہ تعالیٰ کی ناراضی ہے۔ بخدا رسول اللہﷺ میرا خیال فرماتے ہیں ورنہ تُجھے طلاق دے چکے ہوتے۔ اپنی بیٹی کے بعد میں حضرت اُم سلمہؓ کے پاس گیا اور ان سے بھی یہی پوچھا۔ وہ بولیں عمرؓ تم ہر معاملے میں دخل دینے لگے ہو‘ یہاں تک کہ رسول اللہﷺ کی ازواج کے معاملات میں دخل دینے لگے ہو‘ میں چُپ ہو گیا اور اُٹھ کر چلا آیا‘‘
جس نبی رحمتﷺ کے اسوہ حسنہ میں بیوی کی طرف سے کسی تلخ بات کا جواب ملنے پر خاموشی اور تحمل کی روایت شامل ہو وہاں خاوند کو مارپیٹ کی اجازت کیسے ہو سکتی ہے۔ قرآن مجید کی جس آیت سے بالعموم جواز ڈھونڈا‘ استدلال کیا جاتا ہے اس کے معانی و مفہوم پر سیر حاصل بحث ہو چکی اور دور حاضر کے علماء‘ قدیم طرزفکر سے متفق نہیں اس بنا پر قانون کو اسلام کے منافی اور معاشرے میں رن مریدی کا کلچر پھیلانے کی سعی و تدبیر قرار دینا دانشمندی نہیں۔ عورت سارا گھر سنبھالے‘ بچوں کی نگہداشت کرے‘ اکثر صورتوں میں روزگار بھی کمائے‘ ساری زندگی خاوند کے علاوہ اس کے اہلخانہ کی خدمت میں گزار دے اور چھوٹی موٹی غلطی پر تشدد کا نشانہ بھی بنے‘ یہ تقاضا ئے انصاف ہے نہ اسلامی اُصولوں‘ مشرقی اقدار کی پاسداری۔یہ سراسر زمانہ جاہلیت اور ہندووانہ ‘ جاگیردارانہ رسم و رواج کی تابعداری ہے جب عورت صنف نازک یا گوشت پوست کا انسان نہیں محض مرد کی ملکیت اور جنسی خواہش کی تکمیل کا ذریعہ سمجھی جاتی تھی۔ مادر سَری معاشرے سے پدرسَری معاشرے تک کا سفر کیسے طے ہوا‘ عورت کو غلامی کی زنجیروں سے آزاد کرانے میں مذہب بالخصوص اسلام نے کیا کردار ادا کیا؟۔ علما کرام کو اس بارے میں کامل آگہی ہو تو شائد جامعہ بنوریہ کے مفتی نعیم کی طرح سیخ پا ہوں نہ لسانی لغزش کا شکار۔ مفتی صاحب نے ٹی وی پروگرام میں جو فرمایا وہ انبیاء کے وارثوں کو ہرگز زیبا نہیں۔
تاہم تحفظ نسواں ایکٹ جسمانی تشدد کے سدّباب اور حقوق نسواں کے تحفظ میں کس حد تک کارآمد ثابت ہو سکتا ہے؟ اس پر بحث کی گنجائش موجود ہے۔ پاکستان میں اکثر قوانین اس بنا پر عملدرآمد کے مراحل میں ناکام ثابت ہوئے کہ یہ قوم کے مجموعی مزاج‘ معاشرتی اقدار و روایات اور عصری حالات سے ہرگز ہم آہنگ نہ تھے۔ متذکرہ قانون کی تیاری میں بھی معاشرے کی ذہنی و علمی سطح کو ملحوظ رکھا گیا ہے نہ اس کے قابل اطلاق ہونے پر غور کیا گیا اور نہ اس کے اثرات و نتائج کا درست اندازہ لگایا گیا۔ بنیادی طور پر خواہش یہ ہونی چاہیے کہ میاں بیوی کے مابین ناچاقی کی نوبت نہ آئے‘ آئے تو دونوں پر یہ اخلاقی اور قانونی دبائو ہو کہ وہ احسن طریقے سے اپنے تنازعات طے کریں اور سر پھٹول نہ ہو اور اگر معاملہ بہت زیادہ بگڑ بھی جائے تو اسے سدھارنے کا کوئی معقول بندوبست ریاست کی سطح پر موجود ہو‘ تاکہ ہماری عائلی زندگی بگاڑ سے محفوظ رہے۔ ظاہر ہے یہ تعلیم‘ معاشرے میں بیداری کی مہم اور مردوزن کے حقوق و فرائض کے حوالے سے اسلامی و ملکی قوانین سے آگہی و شعور کے ذریعے ممکن ہے۔
ایوب خان کے دور میں جو فیملی قوانین منظور ہوئے ان پر بھی مذہبی جماعتوں کو اعتراضات تھے مگر بالآخر یہ قابل قبول قرار پائے لیکن سب جانتے ہیں کہ ان پر عملدرآمد بس اتنا ہوا کہ نکاح رجسٹر ہونے لگے اور طلاق و خلع کے لیے عدالتوں سے رجوع کیا جانے لگا۔ اللہ اللہ خیر سلاّ...یہ قانون متنازع ہی نہیں اس لحاظ سے امتیازی بھی ہے کہ عورتوں کے وہ حقوق بھی تسلیم کر لیے گئے ہیں جن کا مطالبہ خواتین کی اکثریت نے کبھی نہ کیا اور اس میںاپنی ہتھ چُھٹ‘ مُنہ پھٹ اور جھگڑالو بیوی کے خلاف مرد کی کسی جائز شکایت کے ازالے کی کوئی شق شامل نہیں‘ حالانکہ ذہنی اور جسمانی تشدد کا نشانہ صرف خواتین ہی نہیں بنتی بسا اوقات مرد بھی مرد مار قسم کی عورتوں کا ستم سہنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ عمران خان اور ریحام خان کے مابین طلاق کے بعد جو کہانیاں منظر عام پر آئیں ان میں عمران خان کی مظلومیت کا تاثر اُبھرا کئی اور واقعات بھی تاریخ کا حصہ ہیں۔ مرد کو جسمانی تشدد اور عورت کو ہراساں کرنے سے روکنے کی جو تدبیر اختیار کی گئی ہے وہ میاں بیوی کو گاڑی کے دو پہیے کی بجائے دو متوازی دھارے بنا کر رکھ دے گی۔ کوئی مرد آخر کڑا لگوانے کی توہین برداشت کرنے کے بجائے الزام لگانے والی گستاخ بیوی کو فارغ خطی دینے کا راستہ اختیار کیوں نہیں کرے گا جس سے قانون روکتا ہے نہ سماج اور نہ مذہب۔
معاملہ عدالت تک پہنچنے سے پہلے پولیس کا طرزعمل کیا ہو گا؟ ریاست کی طرف سے تحفظ ملنے کے باوجود عزت دار خاتون کی معاشرے میں حیثیت اور عزت پر کیا اثرات مرتب ہوں گے ؟اور اس کے ماں باپ‘ عزیزواقارب اور بچوں کو معاشرے کے کن سوالات کے جوابات دینے پڑیں گے؟ اس بارے میں قبل از وقت سوچ لیا جاتا تو قانون اسمبلی اور معاشرے کے اتفاق رائے سے منظور کرایا جا سکتا تھا۔ ایک سو سے زائد ارکان اسمبلی کی غیر حاضری لمحہ فکریہ ہے جبکہ قانون کے حق میں ووٹ دینے والے ارکان کی اکثریت بھی نجی محفلوں میں کچھ اور کہہ رہی ہے۔ میری ذاتی رائے میں کسی مخصوص لابی کو خوش کرنے کے لیے یہ قانون منظور تو ہو گیا ہے مگر عملدرآمد کی نوبت شاید کبھی نہ آ سکے اور جن اِکا دُکا کیسوں میں اس کا اطلاق ہوا گھر سدھارنے کے بجائے بگاڑنے کا سبب بنے گا‘ مگر قانون منظور کرانے والوں کو اس سے کیا لینا دینا۔ مخصوص لابی کی طرف سے واہ واہ تو ہو گئی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں