بالک ہٹ

یہ بالک ہٹ ہے۔ بلاول زرداری کو کون بتائے کہ یہ بھارت نہیں پاکستان ہے ۔ریاستیں اور معاشرے بچوں کی فرمائش پر فیصلے نہیں کرتیں ‘اپنی قومی ضرورتوں‘ معاشرتی اقدار اور عوامی جذبات و خواہشات کو مدنظر رکھ کر کیے جانے والے فیصلے ہی مستحکم اور پائیدار ہوتے ہیں۔
بلاول بار بار سوال کرتے ہیں کہ اگر ہندوستان میں مسلمان صدر ہو سکتا ہے تو پاکستان میں کسی اقلیتی برادری سے تعلق رکھنے والا شخص اس منصب پر فائز کیوں نہیں ہو سکتا؟ پیپلز پارٹی کے چیئرمین اپنے نانا ذوالفقار علی بھٹو کے دور حکومت میں منظور کئے جانے والے متفقہ آئین کا مطالعہ کر لیتے تو شائد بار بار یہ سوال نہ اٹھاتے مگرچونکہ ہمارے ہاں سیاستدانوں کو پڑھنے کی عادت ہے نہ اپنے بیانات کے سوا حرفِ مطبوعہ سے دلچسپی لہٰذا ان کو آئین کی مختلف شقوں کے بارے میں کچھ بتانا بھینس کے آگے بین بجانے کے مترادف ہے۔ یہ اکیلے بلاول کی کمزوری نہیں دیگر سیاستدان بھی الا ماشاء اللہ اس معاملے میں نہلے پہ دہلا ہیں۔
ہندوستان اور پاکستان میں بنیادی فرق یہ ہے کہ وہاں مسلمانوں کی آبادی کا تناسب سرکاری اعداد و شمار کے مطابق15فیصد اور غیر سرکاری اعداد و شمار کے مطابق20فیصد ہے ۔کانگریس اور ہندو قیادت متحدہ قومیت کی علمبردار رہی اور وہ مسلمانوں‘ سکھوں‘ ہریجنوں میں سے کسی کا الگ تشخص تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں۔ کانگریس نے اپنے آپ کو ہندو جماعت سمجھا ‘نہ مہاتما گاندھی اور ان کے ساتھیوں نے کبھی ہندو کا نمائندہ کہلوانا گوارا کیا۔ یہی راگ الاپا گیا کہ ہندوستان میں ایک ہی قوم آباد ہے ہندوستانی۔ مسلم لیگ اور قائد اعظم نے کبھی اس غلط بیانی اور فریب کاری کا ارتکاب نہیں کیا۔23مارچ1940ء کو منٹو پارک میں خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا ''میں کئی بار کہہ چکا ہوں اور پھر کہتا ہوں کہ جناب گاندھی دیانتداری سے تسلیم کر لیں کہ کانگریس ہندو جماعت ہے اور وہ صرف ہندوئوں کے نمائندہ ہیں‘جناب گاندھی کیوں یہ بات فخریہ نہیں کہتے کہ میں ہندو ہوں اور کانگریس کو ہندوئوں کی حمایت حاصل ہے‘ مجھے تو یہ کہنے میں کوئی شرم محسوس نہیں ہوتی کہ میں مسلمان ہوں‘‘
اس فریب کارانہ موقف ‘متحدہ قومیّت پر اصرار اورتقسیم ہند کے تناظر میں مسلمانوں اور سکھوں کو نمائشی صدارتی منصب پر فائز کرنا بھارت کی مجبوری ہے ۔ بھارت میں صدارتی منصب پر فائز ہونے والے فخر الدین علی احمد‘ ذیل سنگھ اور عبدالکلام کو کوئی اہمیت اور وقعت حاصل تھی نہ وہ اپنے مذہبی گروہ کی نمائندگی کرتے تھے۔ ذیل سنگھ خود یہ واقعہ ریکارڈ پر لا چکے ہیں کہ جب سانحہ دربار صاحب کے بعد انہوں نے ایک غیر ملکی دورے پر جانا چاہا تو اندرا گاندھی نے دورے کی منظوری دینے سے انکار کر دیا۔ انہیں اندیشہ تھا کہ سردار جی باہر جا کر کہیں دربار صاحب پر فوجی حملے اور سکھوں کی نسل کشی کے حوالے سے کوئی بیان جاری نہ کر دیں۔ پاکستان کی ایسی کوئی مجبوری نہیں۔یہاں مسلم آبادی96سے98فیصد تک ہے ‘دو سے چار فیصد اقلیتوں کو صوبائی اور قومی اسمبلیوں میں دوہرے ووٹ کا حق حاصل ہے جو دنیا کے کسی حصے میں کسی اقلیت کو حاصل نہیں ۔صدر کے سوا دیگر اہم مناصب بھی ان کے لیے حاضر ہیں۔
پاکستان بھارت طرز کی ریاست ہے نہ اس کے دستور سازوں نے ایسا کبھی سوچا۔ ہندوستان کی کوکھ سے جنم لینے والی اس مسلم ریاست کا اپنا آئین‘ اپنا طرز معاشرت اور اپنا طرز حکمرانی ہے۔1973ء کا آئین طالبان نے مرتب کیا نہ آج تک اس کی اسلامی شقوں پر قوم کی واضح اکثریت کو کبھی اعتراض ہوا۔ آئین میں اٹھارہویں ترمیم کے لیے قائم کمیٹی نے پورے آئین کوکھنگال مارا‘ سینکڑوں تبدیلیاں کیں مگر اس کے اسلامی تشخص اور صدر کی مذہبی شناخت پر کوئی اعتراض کیا نہ تبدیلی کی ضرورت محسوس کی ۔ مگر بلاول معلوم نہیں‘ کس کے کہنے پر بار بار ایک ہی بات کیے جاتے ہیں ۔ جواب تو واضح ہے کہ آئین رکاوٹ ہے اور پاکستان دو قومی نظریہ کی بنیاد پر وجود میں آیا ہے‘متحدہ قومیت کے فریب کارانہ تصوّر پر نہیں۔ اگر وہ یا ان کے کچھ ساتھی متحدہ قومیت کے علمبردارہیں تو بات گھوم پھر کر کرنے کے بجائے کھل کر کہیں ‘تاکہ انہیں آٹے دال کا بھائو معلوم ہو۔
والد گرامی کی طرف سے ٹاسک برخوردار کو پارٹی کی تنظیم نو ‘ اور احیا کا ملا ہے مگر وہ دیگر بکھیڑوں میں پڑ گئے۔ وہ بھٹو کی طرح ذہین اور تجربہ کار ہیں نہ ان کے اردگرد کوئی جے اے رحیم ‘ ڈاکٹر مبشر حسن‘ حنیف رامے اور مولانا کوثر نیازی ہے جو قیام پاکستان کی تاریخ‘ نظریے اور قومی احساسات و جذبات سے واقف ہو‘ آصف علی زرداری اور ان کے ساتھیوں کی ہوس زر‘ جلاوطنی اور مفاہمتی سیاست نے جیالوں کو مایوس کیا۔ کارکنوں کی بوڑھی نسل کی جگہ نوجوانوں کو پارٹی میں لانے کی سنجیدہ کوشش ہوئی نہ ان کے لیے اس پارٹی میں کشش باقی ہے۔ صرف بھٹو خاندان کی خدمات کا پرچار اور بھٹو ‘بھٹو کے نعروں سے بوڑھے جیالوں کا خون گرمایا نہیں جا سکتا۔ ؎
جلا ہے جسم جہاں‘ دل بھی جل گیا ہو گا
کریدتے ہو جو اب راکھ‘ جستجو کیا ہے
پارٹی کے احیا میں اصل رکاوٹ فعال‘ صاحب بصیرت قیادت کا فقدان‘ نظریاتی کارکنوں کا قحط‘ عصری تقاضوں سے ہم آہنگ سیاسی‘ معاشی اور سماجی ایجنڈے کی عدم موجودگی اور موجودہ ملکی حالات کے فہم و ادراک سے عاری نعرے بازی ہے۔ بلا شبہ بلاول زرداری جوان ہیں‘ فعال اور تعلیم یافتہ مگر اتالیق کون ہے؟ آصف علی زرداری‘ پھوپھی فریال تالپور ‘انکلز یوسف رضا گیلانی‘ راجہ پرویز اشرف اور شیری رحمن... سبحان اللہ۔ بلاول تو یہ فیصلہ کرنے سے قاصر ہیں کہ انہیں والدہ محترمہ کی پارٹی بچانی ہے یا والد گرامی کا ترکہ۔ دونوں کے تقاضے مختلف ہیں ۔جو پارٹی اپنی ساری ساکھ اور توانائی عاصم حسین کو بچانے پر صرف کر دے‘ اس کا انجام معلوم۔ پیپلز پارٹی کے کارکنوں اور قیادت کے مابین سکیورٹی اور پروٹوکول کی دیوار حائل ہے۔ عام ووٹر کو متاثر کرنے کے لیے کوئی پروگرام ہے نہ نعرہ۔ تحریک انصاف کی فعالیت سے قبل پیپلز پارٹی کے سمجھدار لیڈروں اور کارکنوں کی مجبوری تھی کہ وہ جائیں تو جائیں کہاں ؟کسی مذہبی اور علاقائی جماعت میں وہ جا نہیں سکتے اور مسلم لیگ ن کو وہ ضیاء الحق کی باقیات سمجھتے تھے۔ اب عمران خان کی شکل میں ایک کرشمہ ساز لیڈر اور تحریک انصاف کی صورت میں متبادل پلیٹ فارم میسر ہے ۔وہ ایک تحلیل ہوتی پارٹی میں بیٹھ کر اپنا وقت کیوں ضائع کریں۔
پیپلز پارٹی کو دوبارہ قومی جماعت بنانے کے لیے ترقی پسند نعروں اور پرکشش پروگرام کی ضرورت ہے ۔ جیالوں کو منظم ‘نوجوان نسل کو اپنی طرف راغب کرنے کی۔ دو قومی نظریے ‘ متفقہ دستور اور اکثریتی آبادی کی خواہشات کو فراموش کر کے پارٹی مقبول ہو سکتی ہے نہ نسل نو کے لیے کشش کا باعث۔ نریندر مودی نے ہندوستان اورڈونلڈ ٹرمپ نے امریکہ میں مسلم عقائد و نظریات‘ مسلمانوں کے جذبات احساسات کے برعکس نعرے بازی سے مقبولیت ضرور حاصل کی اور آج کل اسلام اور مسلمانوں کو تختہ مشق بنانا مقبول فیشن ہے مگرمودی اور ٹرمپ اپنی اکثریت کو خوش کر رہے ہیں۔ بلاول سیاست پاکستان میں کر رہے ہیں جہاں مظلوم مسلمانوں کی اکثریت ہے اور ووٹ انہیں پاکستانیوں سے لینے ہیں۔ اگر محض اقلیتوں کے ووٹ سے کوئی ملک کا وزیر اعظم‘ صدر بن سکتا تو جے سالک سے زیادہ شعلہ بیان مقرر‘ عوامی خدمتگار‘ عجزو انکسار کا نمونہ اور متحرک و فعال کوئی نہ تھا۔ صدارت کا منصب کسی اقلیتی فرد کو سونپنا تو بلاول کے بس میں نہیں آئین رکاوٹ ہے اور عوام تیار نہیں۔وہ اگر اقلیتوں کے حقیقی ہمدرد ہیں تو پیپلز پارٹی کا چیئرمین اپنے کسی مسیحی‘ ہندو یا قادیانی کو بنا دیں۔ ہندوستان میں کانگریس کے صدر مولانا ابوالکلام آزاد رہے جنہیں قائد اعظم نے شو بوائے قرار دیا ۔پاکستان کی لبرل ‘ ترقی پسند اور اقلیتوں کے حقوق کی محافظ پیپلز پارٹی کا چیئرمین رمیش لال‘ گیان چند‘ لال چند یوکرانی میں سے کوئی ایک کیوں نہیں ہو سکتا۔پی پی کے دستور میں چیئرمین کسی مسلمان بھٹو یا زرداری کو بنانے کی شرط نہیں۔ جب بلاول بھٹو نے کہہ دیا کہ اقلیتوں اور مسلمانوں کا پاکستان الگ الگ نہیں ہو سکتے۔ پرویز مشرف اور بے نظیر بھٹو کے پاکستان میں فرق نہیں تو پھر بلاول بھٹو رمیش لال اور گیانی چند میں فرق کیوں؟ یہ تو مذہبی‘ نسلی اور طبقاتی تعصب ہوا اور بالک ہٹ۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں