’’کر لو جو کرنا ہے‘‘

پانامہ پیپرز کے نام سے دستاویزات میں پاکستان کے موجودہ اور سابق حکمرانوں کی بیرون ملک جائیداد‘ آف شور کمپنیوں اور بینک اکاوئنٹس کی جو تفصیلات گزشتہ روز سامنے آئیں وہ حیران کن ضرور ہیں نئی نہیں‘ چند سال قبل معاشی جرائم پر اتھارٹی سمجھے جانے والے ممتاز امریکی تاجر محقق اور مصنف ریمنڈ ڈبلیو بیکر نے اپنی کتاب Capitalism's Achilles Heel میں برطانوی جزائر ورجن کی کمپنیوں نیلسن انٹرپرائزز‘ نیکسول لمیٹڈ‘ مارلٹن بزنس‘ بومر فنانس اور امریکہ‘ سوئزرلینڈ‘ فرانس میں رجسٹرڈ آف شور کمپنیوں کا ذکر کیا‘ جو شریف خاندان اور بھٹو خاندان کی ملکیت تھیں۔ لوگوں نے آف شور کمپنیوں کا ذکر نوّے کی دہائی میں نواز شریف اور اُن کے ساتھیوں کے مُنہ سے سنا اور حوالہ آصف زرداری کی کرپشن تھی۔
2005ء میں منظر عام پر آنے والی بیکر کی کتاب پاکستان کے بارے میں ہے نہ پاکستانی سیاستدانوں کی لوٹ مار کی داستاں۔ سرمایہ داریت کے فوائد و نقصانات کا تخمینہ ہے اور سرمایہ داری نظام سے مستفید ہونے والوں کی ہوشربا کہانی‘ کتاب منظر عام پر آئی تو کسی نے مان کر نہیں دیا کہ ہمارے حکمرانوں کے بیرون ملک اثاثے‘ اکائونٹس اور کاروبار ہیں یا لوٹ مار کے مال پر انہوں نے آف شور کمپنیوں کا پردہ ڈال رکھا ہے۔ آصف علی زرداری نے برطانیہ کا سرے محل فروخت کیا‘ سوئزرلینڈ میں منجمد اکائونٹس سے رقوم نکلوائیں اور وہ قیمتی ہار وصول فرمایا جو پاکستان کو واپس کرنے کے بجائے محترمہ بینظیر بھٹو نے جلاوطنی کو ترجیح دی تو پتہ چلا کہ عرصہ دراز تک اپنے پیروکاروں‘ پاکستانی عوام‘ اندرون و بیرون ملک عدالتوں اور میڈیا سے جھوٹ بولا گیا۔ یہی حال فریق ثانی کا ہے جو تیسری بار پاکستان پر حکمرانی کے مزے لوٹ رہا ہے مگر اس بدنصیب ملک کو کاروبار کے لیے موزوں سمجھتا ہے نہ اثاثوں اور اکائونٹس کے لیے مناسب اور نہ اپنے اور اپنے خاندان کے مستقبل کے لیے محفوظ ۔ حکمرانی کے لیے‘ البتہ اس سے بہتر کوئی ریاست ہے نہ تابعدار قوم‘ صرف تابعدار نہیں زیاں کار اور زدو فراموش بھی۔
ریمنڈ بیکر کی کتاب آنے پر بھٹو خاندان اور شریف خاندان کے کسی مداح و پیروکار نے سوچنے کی زحمت گوارا کی نہ اب یہ توقع کرنی چاہیے کہ پانامہ پیپرز پڑھ کر کسی کے کان پر جوں رینگے گی۔ پاکستان میں سیاست صرف موروثیت کا نام نہیں بلکہ یہ سیاسی جماعتیں اور سیاسی خاندان پیر خانے ہیں‘ روحانی پیشوائوں کے آستانے‘ جہاں کسی سوال کی پذیرائی ہوتی ہے نہ گستاخانہ سوچ کی اجازت ؎
بہ مے سجادہ رنگین کن گرت پیر مغاں گوید
کہ سالک بے خبر نبود زراہ و رسم منزلہا
(اگر پیر مغاں کہے تو بے دریغ مصلّیٰ‘ شراب سے رنگیں کر دو‘ کیونکہ طریقت کی راہ بتانے والا منزل تک پہنچنے کی رسم و راہ سے بے خبر نہیں ہو سکتا)
ویسے بھی ہمارے ہاں پیروکارو کارکن بیچارے پیدا ہی اپنے لیڈروں کے ہر اُلٹے سیدھے پر تالیاں بجانے اور بھنگڑا ڈالنے کے لیے ہوئے ہیں۔
پاکستان میں سیاستدان ہمیشہ سے بدعنوان اور لٹیرے نہیں تھے قائد اعظمؒ کے ساتھیوں میں سے تو بعض ایسے تھے کہ ؎
دامن نچوڑ دیں تو فرشتے وضو کریں
لیاقت علی خان جدی پُشتی نواب تھے اور ملک کے وزیر اعظم مگر راولپنڈی میں جام شہادت نوش کیا تو اپنا گھر تھا نہ کروڑوں کا بینک بیلنس‘ بینک اکائونٹ میں صرف سینتالیس ہزار روپے موجود تھے۔ غسل کے لیے شیروانی اتاری گئی تو قمیض پر پیوند لگے تھے اور جراب پھٹی ہوئی۔ محکمہ بحالیات کے ایک خیرخواہ افسر نے مکان الاٹ کرانے کا مشورہ دیا تو جواب ملا کہ جب تک آخری مہاجر کو ٹھکانہ نہیں مل جاتا میں گھر الاٹ نہیں کروا سکتا۔ محمد خان جونیجو‘ ملک معراج خالد‘ مولانا شاہ احمد نورانی اور مولانا عبدالستار خان نیازی جیسے دیانتدار سیاست دان اور مذہبی رہنما اس دھرتی پر جئے اور کرپشن کے حمام سے دور رہے۔ محمد خان جونیجو نے جنرل ضیاء الحق اور پیر صاحب پگاڑا کی مخالفت مول لے کر پرنس محی الدین‘ چودھری انور عزیز اور اسلام الدین شیخ کو کابینہ سے فارغ کر دیا تاکہ ان پر کوئی انگلی نہ اٹھا سکے۔ یہ نہیں کہا کہ میرے کسی وزیر پر الزام لگانے کے بجائے مخالفین عدالتوں سے رجوع کریں۔ 
بجا کہ فوجی اور سول آمروں نے مخالفین کا جینا حرام کئے رکھا‘ اپوزیشن سے تعلق پر کاروبار اور خاندان کو نقصان پہنچانے کی شرمناک روایت قائم کی بھٹو صاحب کی نیشنلائزیشن پالیسی نے کاروباری طبقے کو بیرون ملک کاروبار‘ اثاثے بنانے اور بینک اکائونٹس کھولنے پر مجبور کیا۔ پرویز مشرف نے شریف خاندان سے جو سلوک کیا وہ محترمہ بینظیر بھٹو اور میاں نوازشریف نے ایک دوسرے کے ساتھ روا رکھا اور دونوں کو جلاوطنی کا مزا چکھنا پڑا مگر 2008ء سے تو یہاں جمہوریت اور مفاہمتی سیاست رائج ہے۔ میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری نے 1990ء کے عشرے کی سیاست سے یہ سبق سیکھا کہ دونوں ایک دوسرے کو تنگ نہ کریں بلکہ ایک دوسرے کے مفادات کا مل جل کر تحفظ کریں۔ فرینڈلی اپوزیشن حکمرانوں کی کرپشن اور بے ضابطگی کا پردہ چاک کرے نہ حکومت کرپٹ مخالفین سے لوٹ مار کا حساب مانگے بلکہ اگر دونوں کے اتفاق رائے سے وجود میں آنے والا نیب کسی وقت کتاب کے مطابق چلنے کی سعی کرے تو اسے دونوں ہی شٹ اپ کال دیں کہ ایاز قدر خود شناس۔ اس صورت میں بیرون ملک کاروبار‘ اثاثوں اور آف شور کمپنیوں کی ضرورت کیا ہے؟ اور دوسروں کو ملک میں سرمایہ کاری کی دعوت کس برتے پر دی جاتی ہے۔ جو ملک حکمرانوں کے خاندان کے لیے موزوں نہیں وہاں دوسرے آ کر کاروبار کیوں کریں۔ انہیں پاگل کُتے نے کاٹا ہے۔
آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل حمید گل مرحوم اور شریف خاندان کے سرپرست بزرگ صحافی ریکارڈ پر ہیں کہ انہوں نے 1990ء میں وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالنے کے بعد Conflict of Interest کے اُصول کے تحت میاں نواز شریف اور اُن کے والد بزرگوار کو اپنا کاروبار مزید وسیع نہ کرنے کا مشورہ دیا مگر خندۂ استہزا سے ٹال دیا گیا۔ ذاتی مفاد سے متصادم مشورہ قبول کرنا ہمارے حکمرانوں کی عادت ہے نہ مزاج ؎
جو کہا تو سن کے اڑا دیا‘ جو لکھا تو پڑھ کے مٹا دیا
دنیا بھر میں حکمران عام شہریوں سے زیادہ ملکی قوانین کے پابند اور محتاط ہوتے ہیں۔ امریکہ میں کسی خاتون سے معاشقہ جرم ہے نہ اپنے مخالفین کی سرگرمیوں پر نظر رکھنا گناہ‘ مگر بل کلنٹن کو مونیکا لیونسکی سے معاشقہ مہنگا پڑا‘ اگر ہلیری کلنٹن فراخدلی کا مظاہرہ نہ کرتی تو نکسن کی طرح کلنٹن بھی کوچہ صدارت سے بے آبرو ہو کر نکلتے۔ ویت نام جنگ کا خاتمہ اور چین سے تعلقات کی بحالی نکسن کے دو ایسے کارنامے ہیں جنہیں امریکی قوم کبھی بھلا نہ پائے گی مگر اپنے مخالفین کی جاسوسی پر ان کا مواخذہ ہوا‘ وہ مستعفی ہو گئے۔ یہی اُصول ہمارے حکمرانوں پر بھی لاگو ہوتا ہے۔ وہ اپنے آپ کو دوسروں کی طرح تاجر سمجھیں نہ ''تصادم مفاد‘‘ کے اُصول سے مستثنیٰ۔ اگر اولاد‘ کاروبار اور ذاتی و خاندانی مفاد عزیز ہے اور وہ ملک و قوم کے لیے کوئی قربانی دے نہیں سکتے تو پھر سیاست اور حکمرانی کو معاف رکھیں۔ مگر کثرت کی خواہش؟ آغاز بھی رسوائی انجام بھی رسوائی۔ سیاستدان اور حکمران پوری دنیا میں قوم کے لیے رول ماڈل سمجھتے جاتے ہیں؛ البتہ یہاں قانونی و تکنیکی موشگافیوں سے اپنی پہاڑ جیسی غلطی کو درست ثابت کرنے کا رواج ہے اور اختیارات کے بل بوتے پر زیادہ سے زیادہ دولت سمیٹنے کا مرض اگلی بیس نسلوں کا مستقبل سنوارنے کا شوق‘ روز قیامت جوابدہی کا احساس کسی کو نہیں۔ 
پانامہ لیکس نے ملک بھر میں ہونے والی قیاس آرائیوں‘ عمران خان کی ''الزام تراشی‘‘ اور قومی میڈیا میں ہونے والی بحث و تمحیص پر مہر تصدیق ثبت کی ہے۔ بیشتر باتیں وہی ہیں ریمنڈ بیکر کی کتاب میں تفصیل سے جن کا ذکر آ چکا۔ بھارت سمیت کئی ممالک نے پانامہ لیکس کے بعد تحقیقات کا حکم دیا ہے۔ شاید کئی سیاستدانوں کو اپنے سیاسی‘ جماعتی اور حکومتی مناصب سے سبکدوش ہونا پڑے کچھ حوالۂ زنداں ہوں گے مگر ہمارے ہاں احتساب کی پختہ روایت ہے نہ کسی کی آنکھ میں شرم‘ دل میں خوف خدا کہ اپنی غلطی کا اعتراف کرے اور مفادات کے تصادم کی آئینی شق کے تحت کاروبار اور حکومت میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنے کے بارے میں سوچے۔ احتساب اور مواخذہ کسی طاقتور کا پہلے ہوا نہ اب ہو سکتا ہے اپوزیشن‘ میڈیا اور عمران خان چار دن شور مچا کر خاموش ہو جائیں گے کیونکہ جواب انہیں یہی ملے گا ''کر لو جو کرنا ہے‘‘۔
کسی نے پوچھا حافظ جی حلوہ کھائو گے؟ ''حلوہ نہیں کھانا تو نابینا کس لیے ہوئے‘‘ جواب ملا۔ کاروبار اور دولت میں بڑھوتری نہیں تو اقتدار و اختیار کا فائدہ؟ بنا ہے عیش تجمل حسین خان کے لیے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں