انصاف۔۔۔۔بیچنا روا ‘ خریدنا مستحسن ‘ مفت فراہمی جرم !

میں اس بدگمانی کا شکار تو نہیں کہ حافظ سعید کی جامعہ قادسیہ میں قائم ثالثی کونسل کو متوازی عدالت کے طور پر پیش کرنے کا مقصد بھارتی جاسوس کلبھوشن یادو کی گرفتاری اور پاناما پیپرز سے توجہ ہٹانا ہے‘ لیکن دال میں کُچھ کالا ضرور ہے۔
جب ''رٹ آف گورنمنٹ‘‘ اور ''رٹ آف سٹیٹ‘‘ کا راگ الاپا جاتا ہے تو عام آدمی کی ہنسی چھوٹ جاتی ہے اور متوازی نظام کی دہائی دینے والوں کی عقل و دانش پر ماتم کرنے کو جی چاہتا ہے۔ پنجاب ملک کا سب سے زیادہ ترقی یافتہ صوبہ اور قانون کی عملداری کے حوالے سے بھی اس کا ریکارڈ دوسروں سے بہتر ہے‘ مگر ان دنوں اس کے ایک ضلع راجن پورمیں فوج‘ رینجرز‘ ایس ٹی ڈی اور پولیس مل کر چھوٹو گینگ کے خلاف کارروائی کر رہے ہیں جس نے عام آدمی تو کیا پولیس اور سرکاری انتظامیہ کا جینا دوبھر کر دیا تھا اور پنجاب پولیس کو کبھی یہ جرأت نہیں ہوئی کہ کچے کے علاقے میں بھرپور آپریشن کر سکے۔ دہشت گردوں کی پناہ گاہیں، بھارتی اسلحے کے انبار اور اغوا کاروں و بھتہ خوروں کے ڈیرے یہاں موجود ہیں۔ ایک ہفتہ قبل تک کسی کو رٹ آف گورنمنٹ کی فکر تھی نہ رٹ آف سٹیٹ کی۔
متوازی عدالتوں کے قیام کا الزام بھی خوب ہے۔ یہی ملک ہے جس میں متوازی تعلیمی نظام حکومتی سرپرستی میں چل رہا ہے۔ ایک طرف پچاس روپے ماہانہ والے سرکاری ٹاٹ سکول ہیں‘ دوسری طرف چالیس پچاس ہزار روپے ماہانہ فیس بٹورنے والے نجی ادارے جہاں نصاب الگ‘ کلچر الگ اور میڈیم آف انسٹرکشن الگ۔ صحت کا متوازی نظام گوارا ہے جس سے صرف مالدار ہی مستفید ہو سکتے ہیں۔ پولیس کے مقابلے میں نجی سکیورٹی ایجنسیوں کا کاروبار پھل پھول رہا ہے‘ کبھی کسی کو یاد نہیں آیا کہ یہ متوازی نظام ہے۔ بلوچستان کے 94 فیصد ایریا میں حکومت پاکستان‘ آئین اور مروجہ قوانین کا عمل دخل ہے نہ پولیس نام کی کوئی چیز۔ بلوچستان اورفاٹا کی طرح پنجاب کے ڈیرہ غازی خان ڈویژن میں واقع قبائلی علاقوں میں بھی جرگہ کے نام سے متوازی عدالتیں ہیں اور بلوچ لیوی کے نام سے سرداروں کی مقرر کردہ فورس‘ جو تنخواہیں ریاست سے وصول کرتی ہے ‘وفادار بلوچ سرداروں کی۔ پولیٹیکل ایجنٹ کو قبائلی علاقوں میں چیف جسٹس اور وزیراعظم کے برابر اختیارات حاصل ہیں مگر اس پر سب راضی ہیں۔ جرگہ اور پولیٹیکل ایجنٹ کو کسی مجرم کا گھر گرانے کا اختیار حاصل ہے جو شائد سپریم کورٹ نے بھی کبھی استعمال نہ کیا ہو مگر اس سے کسی کو متوازی نظام کی بو آتی ہے نہ سٹیٹ ودان سٹیٹ (State within state)کا شور مچتا ہے کیونکہ ظلم اور ناانصافی یہاں سکّہ رائج الوقت ہے اور ہر طاقتور کو سازگار۔
عام آدمی کو تعلیم‘ صحت‘ روزگار کی سہولتیں فراہم کرنے سے ریاست عملاً دست بردار ہو چکی ہے‘ ورنہ ملک بھر میں دو کروڑ ساٹھ لاکھ بچے سکولوں میں داخلے سے محروم ہوتے نہ بیروزگاری کی شرح بڑھ کر 8.5 فیصد تک پہنچتی۔ اگر اخوّت‘ الخدمت فائونڈیشن‘ غزالی ٹرسٹ‘ پیف اور دیگر خیراتی ادارے موجود نہ ہوں تو ان پڑھوں کی فوج ظفر موج معاشرے کی چولیں ہلا دے۔ مخیر حضرات کے قائم کردہ دستر خوان اور بزرگان دین کے مزارات پر قائم لنگر خانے لاکھوں لوگوں کی بھوک مٹا رہے ہیں ورنہ پورے ملک میں تھر کی کیفیت نظر آئے۔ یہی حال نظام انصاف کا ہے۔ عدالتیں اوپر سے نیچے تک ہر جگہ موجود ہیں۔ وکیلوں کی تعداد بھی لاکھوں میں ہے اور قومی خزانے سے اچھی خاصی رقم نظام عدل کے لیے وقف ہے مگر جسٹس سسٹم کی کامیابی کا اندازہ سپریم کورٹ آف پاکستان کے سینئر جج مسٹر جسٹس ثاقب نثار کے بیان سے لگایا جا سکتا ہے جو انہوں نے گزشتہ ہفتے گورنمنٹ کالج اولڈ راویئنز کے عشائیے میں دیا۔ جسٹس ثاقب نثار نے کھلے عام اعتراف کیا کہ ''لوگ تو کریمنل جسٹس سسٹم کے ناکارہ ہونے کی بات کرتے ہیں جبکہ پورے جسٹس سسٹم پر سوالیہ نشان لگ چکا ہے۔ نظام انصاف کامیاب نہ ہونے کی وجہ جج ہیں۔ میں خود بھی نااُمید ہوں‘ میں نے چند روز قبل ایک فیصلہ سنایا جس کا مقدمہ 54 سال پرانا تھا‘‘۔یہ سینئر جج کی رائے ہے جو عشروں سے نظام کا حصہ اور چشم دید گواہ ہے۔
گزشتہ روز جسٹس (ر) حفیظ اللہ چیمہ بتا رہے تھے کہ 1967ء میں میری عدالت میں ایک مقدمہ پیش ہوا جو ایک ہندو شہری نے 1934ء میں دائر کیا تھا۔ میری عدالت میں پیش ہونے والے نوجوان کا دادا اور باپ اگلے جہان سدھار چکے تھے اور پوتے کو پیروی کرتے ہوئے کوئی یقین نہیں تھا کہ مقدمے کا فیصلہ اس کی زندگی میں ہو پائے گا یا نہیں؟ ماتحت عدالتوں کے علاوہ ہائی کورٹس اور سپریم کورٹ میں لاکھوں مقدمات فیصلہ طلب ہیں۔ جھوٹے مقدمات کثرت سے دائر ہوتے ہیں‘ وکلاء اپنی فیسیں کھری کرنے کے لیے مقدمات کو لٹکاتے ہیں اور جج صاحبان بھی پیشی پر پیشی دے کر مظلوم کے صبر کا امتحان لیتے ہیں۔ ایک بار جسٹس انوار الحق مرحوم نے زیرالتوا مقدمات کی بھرمار پر تبصرہ کیا تھا کہ اخلاق و کردار کا ستیاناس ہو گیا ہے‘ سچ کی قدر نہیں اور خوف خدا رخصت ہو گیا ہے‘ ورنہ مقدمات کی اس قدر بھرمار نہ ہوتی۔چار بار برطانیہ کے وزیراعظم منتخب ہونے والے ولیم ایورٹ گلیڈ سٹون نے کہا تھا کہJustice delayed is justice deniedہمارے وکلا‘ جج صاحبان‘ سیاستدان اور دانشور اس جملے کو دہراتے ہیں مگر انصاف میں تاخیر کے اسباب و عوامل کا قلع قمع کرنے پر توجہ نہیں دیتے۔
پوری دنیا میں ثالثی اور مصالحتی عمل کو بہت زیادہ اہمیت دی جاتی ہے کئی ممالک میں کسی عدالت میں اپنا معاملہ پیش کرنے سے پہلے نچلی سطح پر ثالثی اور مصالحت سے نمٹانے کی کوشش لازم ہے تاکہ عدالتوں کا وقت ضائع نہ ہو اور مقدمات تاخیر کا شکار نہ ہوں۔ امریکہ میں چالیس فیصد مقدمات کا فیصلہ عدالتوں میں جانے سے پہلے ہوتا ہے اور یورپی یونین کے رکن ممالک میں تیس فیصد تنازعات اسی انداز میں طے ہوتے ہیں۔ ان ممالک میں میڈی ایشن کورٹس کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے کیونکہ سمجھا یہ جاتا ہے کہ مقامی سطح پر ثالثی و مصالحتی کوششوں میں جھوٹ بولنا مشکل ہوتا ہے اور تاخیری حربے اختیار کرنا ناممکن۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں عدالتوں کا بوجھ کم کرنے کے لیے سمال کلیمرز ڈسپیوٹ آرڈی ننس جاری ہوا جس سے مقامی سطح پر تنازعات حل کرنے میں مدد ملتی مگر 2015ء تک حکومت اس قانون پر عملدرآمد کے لیے فنڈز فراہم نہ کر سکی۔ 
قرآن مجید میں مسلمانوں اور انسانوں کو ترغیب دی گئی ہے کہ اگر دو گروہ آپس میں کسی تنازع پر الجھ جائیں تو ان کی صلح کرا دیا کرو۔جسٹس (ر) عبدالحفیظ چیمہ کی رائے میں ''قانون کی منشا یہ ہے کہ لوگوں کے مسائل حل ہوں اور معاشرے میں امن و صلح جوئی کو فروغ ملے۔ دنیا بھر میں ثالثی اور مصالحتی کونسلوں کی حوصلہ افزائی کی جا رہی ہے کیونکہ وکیلوں کی فیسیںاور گواہوں کو عدالتوں تک لانا اور قانونی پیچیدگیوں کا سامنا کرنا موجودہ مصروف زندگی میں مشکل اور مہنگا عمل ہے اور انصاف میں تاخیر کا سبب‘‘۔ پنجاب میں بھی پنچائتی نظام کو قانونی تحفظ حاصل ہے۔ پیچیدہ قانونی طریقہ کار‘ وکلاء کی بھاری فیسوں‘ تاخیری حربوں اور عدالتوں میں مقدمات کی بھرمار کی وجہ سے غریب پاکستانی عوام اب ایسی مصالحتی اور ثالثی کوششوں سے مستفید ہونے کی خواہش رکھتے ہیں جن کے نتیجے میں وہ نکاح‘ طلاق‘ وراثت‘ مالی لین دین‘ پانی کی وارے بندی‘ میاں بیوی کے خانگی جھگڑے‘ عدالتوں میں لے جانے اور برسوں انتظار کی زحمت اٹھانے کی بجائے گلی محلے کی سطح پر طے کر سکیں۔ ان کا پیسہ اور وقت برباد ہو نہ لڑائی جھگڑے طوالت اختیار کریں۔ یہی کام جامعہ قادسیہ‘ جامعہ نعیمیہ اور جامعہ اشرفیہ سمیت تمام ایسے اداروں میں ہوتا ہے‘ یہ کوئی متوازی عدالتی نظام نہیں‘عام آدمی کو ریلیف دینے کا ذریعہ ہے۔ موجودہ نظام انصاف میں تو دولت مندوں‘ ججوں‘ وکیلوں‘ پیشہ ور گواہوں‘ جعلسازوں اور قبضہ گروپوں کے مزے ہیں۔
تعلیم‘ صحت‘ پولیس کے متوازی نظام کو ہم نے ہضم کر لیا کیونکہ یہ نفع بخش کاروبار ہے مگر غریب‘ستم رسیدہ اور کمزور کو جلد انصاف فراہم کرنے والی ثالثی اور مصالحتی کونسلوں پر شدید اعتراضات وارد کئے جا رہے ہیں‘یہ فیصلے شریعت کے مطابق اور لوگوں کو خوف خدادلا کر صلح جوئی کی طرف راغب جوکرتی ہیں! اگر یہ بھی کاروبار کی صورت اختیار کر لے تو شائد اعتراض نہ ہو۔ فائیو سٹار تعلیمی اداروں‘ ہسپتالوں اور سکیورٹی ایجنسیوں پر کوئی معترض نہیں۔ انصاف خریدنا روا ہے‘ بیچنا مستحسن‘ مفت ملے تو گردن زدنی! جس پراپرٹی ڈیلر کو مظلوم کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے‘ اس کے خلاف درج 14 مقدمات کا بھی کسی کو علم ہے؟ کلبھوشن یادو اور پاناما پیپرز سے توجہ ہٹانے کی یہ اچھی کاوش ہے اور بھارت مخالف حافظ سعید پر تبرّا بازی مقبول فیشن۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں