نادان دوست

سیانے کہتے ہیں کہ انسان کو دانا دشمن سے زیادہ نادان دوست نقصان پہنچاتے ہیں۔ مرد ناداں کے بارے میں اقبالؒ نے بھر تری ہری سے استفادہ کیا ؎
پھول کی پتی سے کٹ سکتا ہے ہیرے کا جگر
مرد ناداں پر کلامِ نرم و نازک بے اثر
لندن میں میاں نواز شریف کے نادان دوستوں یا شاہ سے زیادہ شاہ کے وفاداروں نے وہ کیا جو عمران خان کی خواہش ہو سکتی تھی۔
پیپلز پارٹی سمیت کئی سیاسی جماعتوں نے شریف برادران کی رہائشی بستی جاتی اُمرا کے سامنے دھرنا دینے کی مخالفت اس بنا پر کی کہ یہ وزیر اعظم کا گھر سہی مگر یہاں ان کے خاندان کے دوسرے لوگ رہتے ہیں اور دھرنا چار دیواری کے تقدس کے منافی حرکت ہو گی۔ یہی استدلال بے نظیر بھٹو کے دوسرے دور حکومت میں پیپلز پارٹی نے اس وقت پیش کیا جب اپوزیشن لیڈر کے طور پر میاں نواز شریف نے سردار فاروق احمد خاں لغاری کے ذاتی رضی فارم پر چڑھائی کی اور علامتی دھرنا دیا۔ میاں صاحب کا دعویٰ تھا کہ لغاری صاحب نے بطور صدر پاکستان یہ فارم کراچی کے ایک سیٹھ کو بیچا نہیں بلکہ اراضی کی فروخت کی آڑ میں‘ ڈیڑھ دو کروڑ روپے کی رقم اینٹھی ہے۔ رضی فارم بکایا نہیں مگر ایک ڈیڑھ سال بعد لغاری‘ نواز بھائی بھائی ہو گئے اور دونوں نے مل کر بے نظیر حکومت کا دھڑن تختہ کر دیا۔
کسی حکومتی عہدیدار کی ذاتی رہائش گاہ کے سامنے دھرنا دینا جبکہ وہ وزیر اعظم کیمپ ڈیکلیر کی جا چکی ہو‘ اخلاقی اور سیاسی طور پر درست ہے یا نہیں ؟ اس پر دو رائے ہو سکتی ہیں۔ پیپلز پارٹی کے موقف میں وزن ہے اور عمران خان کے مداحوں کے دلائل بھی بے سروپا نہیں ‘مگر لندن میں جمائما گولڈ سمتھ کے گھر کے سامنے مسلم لیگ کا مظاہرہ ؟ کیا جمائما گولڈ سمتھ ‘ اس کی والدہ یا بھائیوں میں سے کسی نے پانامہ پیپرز افشا کئے؟ شریف خاندان پر کوئی الزام لگایا؟ یا عمران خان کو ٹھہرانا جرم ہے؟ یہ باتیں تلخ سہی ‘مسلم لیگ کے قائدین اور سنجیدہ فکر کارکنوں کو ان پر غور ضرور کرنا چاہیے۔ اب کس منہ سے مسلم لیگی متوالے عمران خان کے متوقع دھرنا کی صورت میں مشرقی روایات کی دہائی دیں گے ؎
تمہاری زلف میں پہنچی تو حسن کہلائی
وہ تیرگی جو مرے نامۂ سیاہ میں ہے
پانامہ پیپرز کے منظر عام پر آنے سے قبل عجلت میں حسین نواز کے انٹرویوز‘ بعداز افشا میاں نواز شریف کا ٹی وی پر غیر متاثر کن خطاب اور بعض بسیار گو وزراء ‘ ارکان اسمبلی کی شوکت خانم ہسپتال کے خلاف بیان بازی کی طرح احتجاجی مظاہرے نے بھی شریف خاندان کا مقدمہ مزید کمزور کیا ہے۔ صرف اخلاقی سطح پر نہیں‘ سیاسی طور پر بھی لوگ اسے گھبراہٹ اور کمزور مدافعت سے تعبیر کرتے ہیں۔
پانامہ پیپرز میں آف شور کمپنیوں کا اندراج کسی پاکستانی سیاستدان نے کرایا ہے نہ ان کا افشا پاکستانی میڈیا کی کارستانی ہے۔ اعتراف بھی شریف خاندان کے ولی عہد نے بزبان خود کیا۔ اس معاملے کی تحقیق کے لیے کمشن بنانے کا اعلان بھی وزیر اعظم کی طرف سے ہوا ؎
تمہارے پیامی نے سب راز کھولا
خطا اس میں بندے کی سرکار کیا تھی
یہ عمران خان‘ شوکت خانم ہسپتال اور عمران خان ٹرسٹ اس بحث میں کہاں سے آ گیا؟ یہ تو کھسیانی بلی کھمبا نوچے والی کیفیت ہے جس سے قوم بے وقوف بن سکتی ہے نہ معاملے کی نوعیت بدل سکتی ہے۔ اگر یہ فرض کر لیا جائے کہ عمران خان بھی کرپٹ ہے تو اس سے حکمرانوں کی پاکدامنی کیسے ثابت ہو گی اور جس لولے لنگڑے کمشن کی داغ بیل ڈالنے کے لیے اسحق ڈار دن رات ایک کیے ہوئے ہیں اسے تحقیقات میں مدد کیسے مل سکتی ہے؟ ویسے یہ اطلاع منظر عام پر آنے کے بعد کہ نیک نام جسٹس (ر) سرمد جلال عثمانی کی اہلیہ محترمہ شرمین عثمانی مسلم لیگ سندھ کی رکن یا عہدیدار ہیں اور گزشتہ روز استعفیٰ دیدیا ہے ‘ان کی سربراہی میں کمشن کا قیام مذاق ہی ہو گا۔ پیپلز پارٹی نے انکار کر دیا ہے ‘تحریک انصاف اور کوئی دوسری جماعت بھی شائد اسے قبول نہ کرے ‘اس صورت میں ایک قابل احترام جج اپنی آزادی اور غیر جانبداری کو دائو پر کیوں لگائیں۔
بیگمات کی آزادانہ حیثیت اور ذاتی رائے بھی عجیب ستم ڈھاتی ہے ۔بیگم تہمینہ درانی کی ٹویٹ نے خادم پنجاب کو دفاعی پوزیشن پر لا کھڑا کیا اور بیگم شرمین عثمانی کی وجہ سے جسٹس (ر) سرمد عثمانی کی سربراہی میں کمشن کے قیام پر انگلیاں اٹھ رہی ہیں۔ بیگم شرمین عثمانی کے استعفے کی خبر پڑھ کر جنرل ضیاء الحق دور کے گورنر سندھ لیفٹیننٹ جنرل (ر) ایس ایم عباسی کی بیگم یاسمین عباسی یاد آ گئیں۔ بیگم صاحبہ حقوق نسواں کی علمبردار اور دیت و قصاص قانون کی ناقد تھیں جو ضیاء الحق نے اپنے دور میں نافذ کیا تھا۔ اخبار نویسوں کو پتا چلا کہ بیگم صاحبہ کی قیادت میں خواتین کا ایک جلوس گورنر ہائوس سے برآمد ہوا اور فوجی آمر کے نافذ کردہ قوانین کے خلاف نعرے بازی کر رہا ہے۔ مارشل لاء کا دور تھا اور صحافت پابندیوں کی زد میں‘ مگر سجاد میر صاحب نے اپنے ایڈیٹر کی رضا مندی سے اس جلوس کی تصویر اور خبر صفحہ اول پر شائع کر دی۔ کراچی سے اسلام آباد تک ایوان اقتدار میں بھونچال آ گیا۔ جنرل ضیاء الحق نے براہ راست مدیر محترم جناب مجید نظامی سے رابطہ کیا اور خبر شائع کرنے پر سجاد میر کے خلاف کارروائی کی فرمائش کی۔ نظامی صاحب نے کہا کہ اخبار یا سجاد میر پر ناراض ہونے کے بجائے اپنے گورنر سے کیوں نہیں کہتے کہ وہ اپنی بیگم صاحبہ کو روکیں۔ ضیاء الحق نے بے تکلفی سے کہا ''وہ ان کی کب سُنتی ہیں‘‘ نظامی صاحب کب چوکنے والے تھے ‘بولے ''گورنر کی بیگم ان کی نہیں سنتی تو میرے ایڈیٹر میری کب سنتے ہوں گے‘‘ بات آئی گئی ہو گئی۔
پانامہ پیپرز کے منفی اثرات سے چھٹکارا پانے کی اب ایک ہی صورت باقی ہے کہ حکومت ادھر ادھر ٹامک ٹوئیاں مارنے اور عمران خان کو گندا کر کے اصل معاملے سے توجہ ہٹانے کے بجائے اپوزیشن کی بامقصد مشاورت کے بعد ایک ایسا کمشن تشکیل دے جو وائٹ کالر کرائم کی چھان بین میں مہارت رکھنے والے افراد پر مشتمل ہو اور جسے ہر شخص کو طلب کرنے کے علاوہ ہر طرح کے ریکارڈ تک رسائی کا حق ہو۔ شریف خاندان کو قدرت نے تیسری بار حکمرانی کے مزے لوٹنے کا موقع فراہم کیا۔ صوفیا کہتے ہیں کہ اقتدار انسان کو بطور انعام ملتا ہے یا برائے امتحان۔ جو لوگ اسے آزمائش و امتحان سمجھتے ہیں ان کے لیے یہ انعام بن جاتا ہے لیکن جو اسے انعام سمجھ کر خلق خدا کے بارے میں سوچنے کے بجائے اپنے اور اپنے خاندان‘ دوست احباب اور حاشیہ برداری کے بارے میں سوچنا شروع کر دیتے ہیں ان کے لیے یہ کڑا امتحان ثابت ہوتا ہے ۔ حکمران خاندان کے لیے یہ امتحان کی گھڑی ہے ؎
یہ گھڑی محشر کی ہے تو عرصۂ محشر میں ہے
پیش کر غافل عمل کوئی اگر دفتر میں ہے
آزادانہ‘ منصفانہ اور غیر جانبدارانہ تحقیقات اور اختیارات سے تجاوز‘ امانت میں خیانت کرنے والوں سے باز پرس اب نہ ہوئی تو کب ہو گی ؟ عدم استحکام احتساب کے مطالبہ سے نہیں ضد و ہٹ دھرمی سے جنم لے رہا ہے۔ وزیر اعظم کی اخلاقی ساکھ سنجیدہ سوالات کی زد میں ہے۔ وفاقی دارالحکومت پر افواہوں اور قیاس آرائیوں کا راج ہے اور عالمی دارالحکومتوں میں اس سکینڈل کا چرچا ہے مگر حکمران ٹولہ تسلی بخش جواب دینے کے بجائے کبھی ادھر کی ہانکتا ہے کبھی اُدھر کی۔ 
جائیداد کی خریداری‘ آف شور کمپنی کے قیام اور رقم کی منتقلی کے ایک سیدھے سادے معاملے کو بیان بازی کے ذریعے الجھانے والے میاں صاحب کے خیر خواہ ہوں گے مگر جمائما گولڈ سمتھ کے گھر کے سامنے مظاہرہ کرنے والے نادان دوست لگتے ہیں۔ اب عمران خان اگر ایک بار پھر دھرنے کا فیصلہ کرتے ہیں اور جاتی امرا کا انتخاب ہوتا ہے تو سر پھرے سیاستدان کو روکنے والے کیا جواز پیش کریں گے۔ ابتدا مسلم لیگ (ن) کی برطانیہ شاخ نے کی ہے انتہا خدا جانے۔ زبیر گل اور ان کے ساتھیوں نے اپنے قائد کے ساتھ اچھی نہیں کی۔ پاکستان میں میاں صاحب کے بڑ بولے ساتھی بھی ہر روز کی بیان بازی سے ان کی مشکلات میں اضافہ کر رہے ہیں۔ ان دنوں گیلپ سروے ہو تو عوام کے حقیقی جذبات اور ردعمل کا پتا چلے ؎
سن تو سہی جہاں میں ہے تیرا فسانہ کیا
کہتی ہے تجھکو خلق خدا غائبانہ کیا

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں