یہاں تک تو پہنچے وہ مجبور ہو کر

زمیندار کو جانے کیا سوجھی‘ درباری سے پوچھا''میر زادے! سچ بتائو ہم زمیندار لوگ خوشحالی کے دنوں میں اچھے لگتے ہیں یا قحط سالی اور تنگدستی کے زمانے میں۔‘‘ میر زادے نے ہاتھ جوڑ کر کہا بندہ پرور! فصلیں اچھی ہو جائیں آپ کے گھر میں دانے‘ جیب میں نوٹ ہوں تو عذاب الٰہی بن کر ہم غریبوں‘ مسکینوں پر ٹوٹ پڑتے ہیں‘ عزت و آبرو کچھ بھی سلامت نہیں رہتا۔ اگر بارشیں نہ ہوں‘ زمینیں پیاسی اور کھیت ویران ہو جائیں تو پھر بھی نتیجہ ہم کو بھگتنا پڑتا ہے۔ آپ ہمارے منہ کا نوالہ چھیننے کی کوشش کرتے ہیں لہٰذا دونوں صورتیں ہی اچھی نہیں۔ البتہ جن دنوں آپ سرکار کے زیر عتاب ہوں یا مخالفین کے نرغے میں‘ تھانے کچہری کے چکر لگانے پڑیں تو آپ بندے کے پتر بن کر ہم سے نرمی کا سلوک کرتے ہیں۔ ہماری تو ہمیشہ دعا ہوتی ہے کہ آپ کسی نہ کسی مصیبت میں پڑے رہیں تاکہ ہم غریب بھی سکھ کا سانس لے سکیں۔
یہ لطیفہ مجھے ایک عوامی نمائندے نے سنایا جسے تازہ تازہ شرف باریابی ملا اور وہ اپنے حلقے کے ایک دو کام نکلوانے پر خوش تھا۔ ان دنوں حکمرانوں کی عاجزی و انکساری اور خوش خلقی و ملنساری عروج پر ہے وہ عوام بھی یاد آ گئے ہیںجو گزشتہ تین سال کے دوران غربت و افلاس کی چکی میں پس کر یہ تک بھول چکے ہیں کہ انہیں بھوک‘ بے روزگاری‘ بدامنی‘ لوڈشیڈنگ اور مہنگائی کا تحفہ مسلم لیگ کو ووٹ دینے کے عو ض ملایا دو بار کے تلخ تجربے کے بعد تیسری بار اسی سوراخ میں ایک بار پھر انگلی ڈالنے کی پاداش میں جہاں سے وہ ڈسے جا چکے ہیں ؎
کس جرم کی پائی ہے سزا یاد نہیں
حیرت انہیں اس بات پر بھی ہے کہ پانامہ پیپرز منظر عام پر نہ آتے‘ عمران خان اور اپوزیشن کے دیگر رہنما یہ معاملہ شدومد سے عوامی سطح پر نہ اٹھاتے اور اندرونی و بیرونی دبائو نہ بڑھتا تو پھر بھی کیا میاں صاحب کے لہجے میں ان کے لیے شیرینی گھلتی‘ ان کے دیرینہ مسائل یاد آتے اور وہ بیس سال بعد مانسہرہ اور غالباً زندگی میں پہلی بار بنوں کا رخ کرتے ؟
وفاقی وزیر‘ مشیر ارکان اسمبلی‘ مسلم لیگی کارکن اور عوام میں سے جنہیں اللہ تعالیٰ نے عقل و شعور کی دولت سے نوازا(؟)اور سوچنے سمجھنے کی صلاحیت عطا کی وہ تو نجی محفلوں میں برملا اعتراف کرتے ہیں کہ ہماری یہ خاطر مدارات اور آئو بھگت اس دبائو کا نتیجہ ہے جو پانامہ لیکس کے بعد حکمران محسوس کر رہے ہیں ورنہ ہماری یہ قسمت کہاں کہ وزیر اعظم ہائوس یا وزیر اعلیٰ ہائوس سے بلاوا آئے‘ ہمیں تو اسمبلی میں بھی اس لطف و کرم کے قابل نہیں سمجھا گیا کجا کہ ان ایوانوں میں جہاں چند پیاروں اور عقل سے پیدل نو رتنوں کا قبضہ ہے کابینہ کا اجلاس سات ماہ بعد ہوا اور اخباری اطلاع کے مطابق مسلم لیگ کی مرکزی مجلس عاملہ کا اجلاس 38ماہ بعد بلانے کا فیصلہ ہوا ہے۔ مجلس عاملہ کے ارکان یہ خبر پڑھ کر اپنی چٹکیاں کاٹتے ہیں کہ واقعی عالم بیداری میں یہ پڑھ رہے ہیں یا حالت خواب میں۔آرمی چیف کی ملاقات کے بعد میاں صاحب نے پارلیمنٹ میں قدم رنجہ فرمانے کا فیصلہ کیا ہے ؎
شرما گئے‘ لجا گئے ‘ دامن بچا گئے
اے عشق مرحبا وہ یہاں تک تو آ گئے
ارکان اسمبلی کو تین سال میں پہلی بار موقع ملا تو ایک دوسرے سے بڑھ کر بہتی گنگا میں اشنان کرنے لگے۔وہی بیورو کریسی جو حکمرانوں کی آنکھ‘ کان‘ ناک بن کر عوامی نمائندوں سے شودروں کا سلوک کرتی چلی آ رہی تھی آج کل جاں بچاتی پھرتی ہے جب سے بہاولنگر کے ایم این اے عالم داد لالیکا کی شکایت پر ایک پولیس افسر شارق کو پنجاب بدر کیا گیا ہر ڈپٹی کمشنر‘ کمشنر‘ ایس ایس پی اور ڈی آئی جی پریشان اور عوامی نمائندوں کی چاپلوسی میں مصروف ہے جانتا ہے کہ اگر کسی نے شکایت لگا دی تو خضدار اور تھرپارکر کی سیر کرنی پڑے گی۔ گزشتہ روز ایک بیورو کریٹ سے اتفاقیہ ملاقات ہوئی تو بتایا کہ انہیں کوئٹہ تبدیل کر کے او ایس ڈی لگا دیا گیا ہے حالانکہ چار پانچ سال پہلے وہ لاہور کے بے تاج بادشاہ تھے۔ یہ انداز حکمرانی ہے جسے کوئی شاہانہ کہے تو ہمارے بعض دوست ناراض ہوتے اور اس بے ننگ و نام جمہوریت کی وہ خوبیاں بیان کرتے ہیں‘جو اس ملک کے نوّے فیصد عوام کو نظر آتی ہیں نہ تین سال تک محروم التفات مسلم لیگی کارکنوں نے جن کا نظارہ کیا۔
جمہوریت کے اجزائے ترکیبی میں اجتماعی فیصلہ سازی‘ قانون کی حکمرانی‘ فیصلوں میں شفافیت‘ بہتر طرز حکمرانی(گڈ گورننس) جمہور کی خدمت اور اوپر سے نیچے تک بلا تفریق و امتیاز احتساب و مواخذہ کا بے لاگ عمل شامل ہیں مگر یہاں ان میںسے ایک کا اہتمام کبھی ہوانہ کسی نے سوچا ۔وفاقی وزراء اگر تنخواہ سرکاری خزانے سے لے کر حکمران خاندان کی قصیدہ خوانی اور صفائی دینے پر مامور ہوں‘ بکری چور‘ قرضہ خور اور کھربوں روپے کی لوٹ مار میں ملوث بااثر لوگوں کے لیے الگ الگ قوانین رائج ہوں اور قوم کو آج تک یہ بھی علم نہ ہو کہ مغربی روٹ‘ وسطی روٹ ‘ مشرقی روٹ کا مخمصہ کیا ہے اوراورنج لائن ٹرین اپنے وسائل سے بن رہی ہے یا سی پیک منصوبے کا حصہ ہے تو کہاں کی اجتماعی فیصلہ سازی‘ شفافیت ‘ قانون کی حکمرانی اور بہتر طرز حکمرانی ؟۔بہتر طرز حکمرانی اور احتسابی عمل کا بھانڈا ڈاکٹر عاصم حسین‘ مشتاق رئیسانی اور چھوٹو گینگ کے کیسوں میں پھوٹ چکا ہے۔ جس شہر میں پونے دو سو ارب کی لاگت سے اورنج لائن بن رہی ہے وہاں میو ہسپتال‘ سروسز ہسپتال اور جناح ہسپتال کے کسی وارڈ میں ہمارے حکمرانوں میں سے کوئی ایک رات گزارنے پر تیار نہیں کہ یہ بیماریوں کی آماجگاہ اور گندگی کا ڈھیر ہے‘ جراثیم چمٹے تومہینہ بھر علاج کرانا پڑے گا۔ میٹرو بس کے انٹر چینج پر ایئر کنڈیشنڈ چل رہے ہیں مگر سامنے واقع جنرل ہسپتال ‘گلاب دیوی ہسپتال اور میو ہسپتال میں پنکھے اور بلب بھی کرنٹ سے محروم ہیں اور سرجنوں کو موبائل فون کی روشنی میں غریبوں کے آپریشن کرنے پڑتے ہیں۔
ایک سال قبل خاتون نے گائنی ہسپتال کے صحن میں بچے کو جنم دیا تھا کیونکہ وارڈ اور آپریشن تھیٹر میں جگہ نہ ہونے کی وجہ سے اسے داخلہ نہیں مل سکا تھا‘اس ہسپتال میں حالت آج بھی جوں کی توں ہے۔ لیہ میں پینتیس افراد محض اس بنا پر جان ہار گئے کہ مقامی ہسپتال اور ملتان کے نشتر ہسپتال میں معدہ صاف کرنے کا انتظام نہ تھا چند روز قبل مری کے گورنر ہائوس کی تزئین و آرائش کے لیے 43کروڑ روپے کے فنڈز مخصوص کیے گئے۔ مری کے لوگ حیران ہیں کہ انہیں تو گرمیوں میں پینے کو پانی مشکل سے ملتا ہے۔ ان کی بنیادی ضرورت روزگار‘سکول اور ہسپتال ہیں اور 43کروڑ روپے میں تو نئی اور عالیشان عمارت تعمیرہو سکتی ہے، اتنی بڑی رقم صرف تزئین و آرائش پر خرچ کیوں ہو رہی ہے۔ ظاہر ہے یہ کھابہ پروگرام ہے جتنا قیمتی منصوبہ اتنا ہی بڑا کھانچہ۔
اس کھانچہ پروگرام کی روک تھام اس صورت میں ممکن ہے کہ ہمارے جاگیردار و سرمایہ دار حکمران کسی نہ کسی دھرنا ‘ پانامہ لیکس اور دبئی لیکس جیسی مصیبت اور عمران خان ایسی آفت کا سامنا کرتے رہیں۔ انہیں جاگتے ہوئے عمران خان اور خواب میں راحیل شریف نظر آئے اور بنوں کے بپھرے ہوئے عوام جنہوں نے مولانا اور درانی کے ناٹک کا سارا مزہ کرکرا کر دیا۔ جمہوریت کو کوئی ڈی ریل نہیں کرنا چاہتا۔ بشرطیکہ وہ جمہوریت ہو‘ اس کے نام پر کلنک کا ٹیکہ نہیں اور حقیقی جمہوریت کی بحالی کے لیے احتساب کا بے رحم کوڑا برسنا ضروری ہے۔میرزادے نے جو بات زمیندار سے کہی اس پر پورا موجودہ حکمران اشرافیہ اتر رہی ہے۔ عمران خان کی لے تیز ہوئی ‘ اپوزیشن اس کے ساتھ استقامت سے کھڑی رہی اور جنرل راحیل شریف بھی بلا تفریق احتساب کے دعوے پر قائم رہے تو قوم کے اچھے دن آئیں گے۔خدا نہ کرے کہ سارے چور اُچکے جمہوریت بچانے کا نعرہ لگا کرایک بار پھر یکجا ہو جائیں اور چوری کا مال برآمد ہونے کی رہی سہی امید باقی نہ رہے۔ لیہ کے عمر حیات‘بہاولنگر کے ڈی پی او شارق صدیقی اور لیڈی ولنگڈن ہسپتال کے احاطے میں مردانہ ہجوم کے سامنے زچگی کے عمل سے گزرنے والی خاتون سے کوئی پوچھے کہ یہ جمہوریت مزید چلنی چاہیے یا تو بہ ہی بھلی۔ یہ کیسی جمہوریت ہے جس میں حکمرانوں کو اپنے ووٹر تو درکنار‘ وزیر مشیر ارکان اسمبلی اور پارٹی عہدیدار بھی اس وقت یاد آتے ہیں جب ان کے اقتدار کو خطرہ ہو اور آل اولاد کو پریشانی لاحق۔ ہائے پارلیمنٹ۔ میں صدقے جاواں تھانیدارا! توں ماں تے یاد کرادتی اے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں