اساں موٹر وے کو بھا‘ لیسوں

یہ ستمبر 1999ء کا آخری ہفتہ تھا‘ عوامی جمہوریہ چین میں انقلاب کی پچاسویں سالگرہ کی تقریبات میں شرکت کے لیے سینئر صحافیوں کا ایک وفد اس وقت کے وزیر اطلاعات سید مشاہد حسین کی قیادت میں بیجنگ پہنچا۔ ان دنوں کرگل کی وجہ سے وزیر اعظم نواز شریف اور جنرل پرویز مشرف کے مابین تعلقات بگاڑ کا شکار تھے‘ اور اپوزیشن اتحاد نے گو نواز گو کی تحریک شروع کر رکھی تھی۔ دوران سفر وزیر اطلاعات اور صحافیوں میں بحث جاری رہی کہ سول ملٹری تعلقات میں بگاڑ کا نتیجہ کیا نکلے گا؟ سید مشاہد حسین کا تجزیہ یہی تھا کہ فوجی مداخلت کا دور گزر چکا۔ ملک جس اقتصادی بحران کا شکار ہے اس سے نمٹنے کے لیے منتخب جمہوری حکومت کی موجودگی از بس ضروری ہے‘ اور کوئی فوجی سربراہ مداخلت کی حماقت کر سکتا ہے نہ جمہوریت کی گاڑی کے ڈی ریل ہونے کا کوئی اندیشہ ہے۔ میرے جیسے قنوطی اخبار نویس کا نقطہ نظر تھا کہ میاں صاحب عادت اور مزاج کے مطابق صورتحال کو سلجھانے کے بجائے بم کو لات ضرور ماریں گے‘ اور پھر کسی کو جمہوریت یاد رہے گی نہ سلطانی جمہور کے لیے سازگار عالمی ماحول‘ سب ٹھاٹھ پڑا رہ جائے گا جب لاد چلے گا بنجارہ۔
بیجنگ‘ شنگھائی اور ژیان میں مصروفیات کے بعد وفد کے ارکان دارالحکومت میں پاکستانی سفیر ریاض کھوکھر کے گھر ظہرانے پر جمع ہوئے تو پرویز رشید نے بتایا کہ وزیر اعظم نے آرمی چیف کو چیفس آف سٹاف کمیٹی کے چیئرمین کا اضافی منصب بھی سونپ دیا ہے‘ لہٰذا سرد مہری ختم اور دونوں شیر و شکر۔ مشاہد حسین سید نے خبر سن کر مجھے مخاطب کیا ''گرائیں اب بتائو حالات معمول پر آ گئے یا نہیں‘‘ میں کیا کہتا۔ اپنے مرحوم ایڈیٹر کے ذریعے مجھے وزیر اعظم کے ارادوں کی تھوڑی بہت بہت سن گن تھی مگر 
ہم ہنس دیئے‘ ہم چپ رہے منظور تھا پردہ تیرا
وطن واپسی پر 12 اکتوبر سے پالا پڑا اور جمہوریت بچانے کے لیے امریکہ بہادر آگے بڑھا نہ پاکستان کے جمہوریت پسندوں نے دم خم دکھایا۔ سب اس موقع پر بٹنے والی مٹھائی کھانے میں مصروف ہو گئے۔ سب سے زیادہ مٹھائی بیڈن روڈ پر بکی اور بٹی جو شریف برادران کا محفوظ سیاسی قلعہ ہے۔
چین ہی میں ہمیں علم ہوا کہ منشیات فروشی‘ بغاوت اور وطن دشمنی کی طرح کرپشن بھی مائو اور ڈینگ پیائو سینگ کے دیس میں ناقابل معافی اور سنگین جرم ہے‘ یہاں کرپٹ افراد کو اڈیالہ اور لانڈھی جیل میں بٹھا کر ریاست کے داماد جیسا سلوک نہیں کیا جاتا‘ بلکہ سزائے موت کا مستحق سمجھا جاتا ہے۔ ایک واقعہ بھی سننے کو ملا کہ مائوزے تنگ کے دور میں ایک دریائی پل سیلاب کی نذر ہوا تو لمبی چوڑی تحقیقات میں پڑے بغیر حکومت نے پل بنانے والی تعمیراتی کمپنی کے انجینئرز‘ منیجرز‘ کاریگروں‘ مستریوں کو بلایا۔ اسباب‘ وجوہات بیان کرنے کو کہا‘ اور ہر ایک کا نقطہ نظر معلوم کیا‘ جو ظاہر ہے کہ اپنی ذمہ داری سے فرار اور ملبہ دوسروں پر ڈالنے کی عمومی ذہنیت کا آئینہ دار تھا‘ حادثے میں جاں بحق ہونے والے شہریوں کے لواحقین بھی بلائے گئے تھے۔ ان کی رائے بھی معلوم کی گئی اور پھر فیصلہ ہوا کہ تمام ذمہ داران کو بلا تخصیص گولی سے اڑا دیا جائے۔ بندوق بردار دستے نے شست باندھی‘ ٹریگر دبایا اور آن واحد میں سارے مجرم کیفر کردار کو پہنچ گئے۔ پھر کسی نے سنا نہیں کہ کوئی پل ٹوٹا‘ بلڈنگ گری یا مقررہ مدت سے قبل سڑک زمین بوس ہوئی۔
تہران میں بھی ہم نے رضا شاہ پہلوی کے والد محمد رضا شاہ کے زمانے کا ایک قصہ سنا تھا کہ جب ریلوے لائن بچھائی گئی اور افتتاح کا موقع آیا تو شاہ نے تعمیراتی کمپنی کے سی ای او اور دیگر اعلیٰ افسروں کے علاوہ پٹڑی بچھانے والے لوگوں کو بلایا۔ کاریگروں کو بال بچوں سمیت راستے میں تعمیر ہونے والی پلوں کے نیچے کھڑا کیا‘ ان کی نگرانی پر مسلح محافظ تعینات کئے‘ افسران کو گاڑی میں بٹھایا اور گاڑی کو ریلوے لائن پر ایک سرے سے دوسرے سرے تک تین چکر لگانے کے لیے کہا تاکہ اگر ناقص تعمیر کی وجہ سے کوئی حادثہ ہو تو بے گناہ مسافر نہیں یہ لوگ نشانہ بنیں اور اپنے کئے کی سزا بھگتیں۔
گزشتہ روز میاں نواز شریف کے قابل اعتماد ساتھی محمود خان اچکزئی کی پارلیمنٹ میں تقریر سن کر یہ واقعات یاد آئے۔ محمود خان اچکزئی نے کرپشن کو صرف مقامی نہیں عالمی مسئلہ قرار دے کر حکومت اور اپوزیشن کو ہوش کے ناخن لینے اور اس مسئلہ کی سنگینی کا احساس کرنے کی تلقین کرتے ہوئے موزوں تجویز پیش کی کہ پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلا کر تمام اکابرین کے دستخطوں سے متفقہ قرارداد منظور کی جائے جس میں پاکستان کو ''کرپشن فری‘‘ ریاست اور پارلیمنٹ کو سیاست کا منبع قرار دیا جائے‘ جہاں تمام داخلہ اور خارجہ پالیسیوں کی تشکیل ہو۔ کرپشن کی روک تھام کے لیے ایک نیا‘ مقتدر و خود مختار ادارہ وجود میں لایا جائے جو فوج‘ عدلیہ‘ پارلیمنٹ اور حکومت سمیت تمام اداروں کا احتساب کرے‘ اور دنیا بھر میں پڑی قومی دولت کو واپس لائے۔ انہوں نے ارکان پارلیمنٹ کو احساس دلانے کی کوشش کی کہ پاناما لیکس کے بعد جمہوریت کے لیے خطرات بڑھ گئے ہیں‘ اور ہمیں سنگینی کا احساس نہیں۔
یہی باتیں ایک روز قبل عمران خان نے کیں‘ جس پر سنجیدگی سے غور کرنے کے بجائے وزیر دفاع خواجہ آصف نے جگت بازی شروع کر دی جبکہ آئی ایم ایف کی سربراہ کرسٹائین لیگارڈ نے اینٹی کرپشن سربراہ کانفرنس میں پاکستان جیسے ممالک کو کرپشن کے نتائج و عواقب سے آگاہ کرتے ہوئے برملا کہا: ''میگا پروجیکٹس کرپشن اور احساس محرومی کو جنم دیتے ہیں اور کرپشن قومی پیداوار‘ معاشی استحکام اور سرمایہ کاری کو متاثر کرتی ہے‘‘۔ ہماری فوجی قیادت نے پائیدار امن اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کی کامیابی کو کرپشن کے خاتمے سے مشروط کر کے کم و بیش آئی ایم ایف کے تحفظات کا ادراک کیا ہے اور بڑھتی ہوئی کرپشن کی وجہ سے قومی سلامتی و آزادی کو درپیش خطرات کے حوالے سے خطرے کی گھنٹی بجائی ہے مگر حکمران طبقہ 1999ء کی طرح طوطا مینا کی کہانیاں بیان کر کے اپنے علاوہ عوام اور جمہوری قوتوں کو دھوکہ دے رہا ہے۔ بلوچستان کے سیکرٹری خزانہ مشتاق رئیسانی‘ سندھ میں ہائر ایجوکیشن کے چیئرمین عاصم حسین اور اسلام آباد میں ڈائریکٹر وزارت خارجہ شفقت چیمہ کی گرفتاری اور اربوں روپے کی کرپشن کے ثبوت سامنے آنے کے بعد بھی اگر کوئی اس عفریت سے آنکھیں بند کرنے پر مُصر ہے تو اس کا مطلب ہے کہ یا تو اسے حالات کی سنگینی کا احساس نہیں یا پھر وہ 1999ء کی طرح جمہوریت کی کشتی کو چٹان سے ٹکرا کر مظلوم ہونے کا سوانگ رچانا چاہتا ہے تاکہ اس کا احتساب ہو نہ مواخذہ اور وہ سول ملٹری تعلقات میں بگاڑ کا الزام مخالفین پر ڈال کر پانامہ پیپر کو آتش دان میں ڈال سکے۔
کرپشن کا خاتمہ اس صورت میں ممکن ہے کہ سیاسی دبائو اور حکمرانوں کے بے جا شور و غوغا کی پروا کیے بغیر بلا امتیاز احتساب کا ڈول ڈالا جائے‘ ایسا بلا تفریق احتساب جو اگر گیہوں کے ساتھ گھن کو بھی پیس دے تو پروا نہیں اور کرپشن کی سزا‘ چین‘ سنگا پور اور کئی دوسرے ممالک کی طرح موت مقرر کی جائے۔ اگر ثابت ہونے پر دو چار لوگ بھی پھندے پر جھولے تو پھر کراچی میں کوئی فلائی اوور گر کر بے گناہوں کی موت کا سبب بنے گا‘ نہ ریل کے حادثات پیش آئیں گے اور نہ غریب کسانوں کی گندم کرپٹ اہلکاروں کی وجہ سے 1300 روپے فی چالیس کلوگرام کے بجائے گیارہ سو روپے میں بکے گی۔ انہیں آلو جلانے پڑیں گے نہ بھوک کے ہاتھوں لوگ اپنے نور نظر‘ لخت جگر اپنے ہاتھوں قتل کرنے پر مجبور ہوں گے۔ احتساب اگر نہ ہوا‘ کسی قسم کی تفریق اور امتیاز کے بغیر احتساب‘ تو پھر کسی وزیر اطلاعات کی منطق کام آئے گی‘ نہ محمود خان اچکزئی کی شعلہ بیانی اور نہ مولانا فضل الرحمن کی تائید و حمایت۔ اخلاقی ساکھ سے محروم جمہوریت محض ظلم کی داستانوں‘ منفی پروپیگنڈے کی بیساکھیوں کے سہارے نہیں چل سکتی۔ وزیر اعظم یہ کہہ کر اپنے آپ کو مظلوم اور جمہوریت پسند ثابت نہیں کر سکتے کہ سڑکیں بنانا کیا جرم ہے؟ سکولوں‘ ہسپتالوں اور بھوک کے مارے انسانوں کو نظر انداز کر کے سڑکیں بنانا بلاشبہ جرم ہے اور غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کرنے والے آٹھ نو کروڑ عوام کے افلاس و بے روزگاری کو نظر انداز کرنا گناہ کبیرہ... کرسٹائن لیگارڈ کے بقول مال بنانے کا بہانہ ؎
اساں موٹر وے کو بھا‘ لیسوں
ساڈے بکھے بال غذا منگدن
ہمارے بچے کھانا مانگتے ہیں،ہم کیا موٹروے کو آگ لگائیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں