’’ہم بھی وہاں موجود تھے‘‘

لیفٹیننٹ جنرل (ر) عبدالمجید ملک اللہ کو پیارے ہو گئے۔ ان کا نام پہلی بار 1979ء میں سنا۔ جنرل ضیاء الحق نے ذوالفقار علی بھٹو کا تختہ الٹ کر ملک میں مارشل لاء نافذ اور عدالتی حکم پر عملدرآمد کیا تو صحافتی اور سیاسی حلقوں میں چہ میگوئیاں ہوئیں کہ بھٹو صاحب جنرل (ر) ٹکا خان کی رائے اور جنرل (ر) عبدالمجید ملک کے مشورے کو اہمیت دیتے تو اس انجام سے دوچار نہ ہوتے۔ باضابطہ ملاقات 1985ء کے غیر جماعتی انتخابات کے بعد ہوئی۔ اور پھر لاہور‘ اسلام آباد میں یہ سلسلہ جاری رہا۔ ملک پارلیمنٹ کے متحرک رکن تھے اور جنرل ضیاء الحق کی مخالفت کے باعث وفاقی کابینہ میں شامل نہ ہو سکے تو اس وقت کے وزیر اعظم محمد خان جونیجو نے انہیں فیڈرل اینٹی کرپشن کمیٹی کا چیئرمین مقرر کیا۔ سکندر اعظم مرحوم کے ہمراہ پارلیمنٹ ہائوس کے دروازے پر کھڑا تھا کہ مجید ملک صاحب کی نظر پڑ گئی۔ گاڑی میں بٹھا کر دفتر لے گئے۔ پوچھا: کمیٹی کی افادیت کیا ہے۔ بولے: چند دنوں بعد آپ کو پتہ چل جائے گا۔ ایک روز اچانک وزیر اعظم نے اپنے تین وزراء کو کابینہ سے سبکدوش کر دیا۔ شہزادہ محی الدین‘ چودھری انور عزیز اور اسلام الدین شیخ کی برطرفی کی سفارش مجید ملک نے کی تھی۔
پانچ جرنیلوں کو بائی پاس کرکے بھٹو صاحب مجید ملک کا بطور آرمی چیف تقرر چاہتے تھے بلکہ انہوں نے ایک خفیہ ملاقات میں ملک صاحب کو بتا بھی دیا تھا۔ اپنی خود نوشت سوانح میں‘ جو پچھلے سال ''ہم بھی وہاں موجود تھے‘‘ کے عنوان سے منظر عام پر آئی تھی‘ لکھتے ہیں: ''جب بھٹو نے غلام مصطفی کھر کے سامنے مجھے چیف آف آرمی سٹاف کی ذمہ داری دینے کا عندیہ دیا تو میں نے بھٹو سے کہا: مجھ سے پانچ جنرل سینئر ہیں اور ایک سے بڑھ کر ایک پیشہ ورانہ قابلیت کا حامل ہے‘ ہر ایک کی نوکری کی اوسط 35 سال بنتی ہے‘ اگر مجھے چیف آف آرمی سٹاف کے عہدے پر ترقی دی جاتی ہے تو ان پانچوں جرنیلوں کے 175 سالوں کا عسکری تجربہ ضائع ہو جائے گا... بھٹو نے کہا کہ میں یہ فیصلہ آرمی کے سپریم کمانڈر کی حیثیت سے پاک آرمی اور ملک کے بہترین مفاد میں کر رہا ہوں‘ جو میں جانتا ہوں وہ آپ نہیں جانتے‘‘۔
بھٹو صاحب کے قریبی ساتھی اور معتمد رفیع رضا اپنی کتاب "Zulfiqar Ali Bhutto and Pakistan 1967-1977" میں رقمطراز ہیں: ''وہ (بھٹو) چیف آف آرمی سٹاف کے تقرّر میں محتاط تھا کیونکہ وہ آرمی چیف میں وفاداری اور تابعداری جیسی خصوصیات کا ہونا ضروری سمجھتا تھا... اس طرح کی ایک مثال جنرل ضیاء الحق کی بطور چیف آرمی آف سٹاف تقرری سے پہلے پیش آئی۔ اس سے پہلے بھٹو کا انتخاب عبدالمجید ملک تھا جس کو اس نے میری موجودگی میں واضح عندیہ دے دیا تھا‘‘۔
جونیجو کے بعد ملک صاحب میاں نواز شریف کے قابل اعتماد ساتھیوں میں شامل ہوئے اور خوراک و زراعت کی وزارت بھی ان کے حصہ میں آئی۔ وہ جنرل (ر) پرویز مشرف کے بطور آرمی چیف تقرر اور معرکہ کارگل کے عینی شاہد تھے۔ جنرل جہانگیر کرامت کے استعفے کے بعد کی صورتحال پر مجید ملک کا تبصرہ یہ ہے: ''چاہئے تو یہ تھا کہ سب سے سینئر جنرل کو میرٹ اور سنیارٹی کی بنیاد پر آرمی چیف بنایا جاتا مگر اکثر حکمران یہ سوچتے ہیں کہ کون سا شخص ان کے اقتدار کے لیے زیادہ موزوں ثابت ہو گا۔ اس چیزکو مدنظر رکھتے ہوئے جب اگلے آرمی چیف کی تقرری کا مرحلہ سامنے آیا تو اس سلسلے میں نواز شریف کی مشاورت بہت محدود تھی۔ میں نواز شریف کے بہت قریب تھا‘ وہ مجھ پر اعتماد کرتے تھے‘ میری عزت بھی کرتے تھے اور فوج میں سینئر عہدوں پر فائز رہنے کی وجہ سے مجھ سے مشاورت بھی کر سکتے تھے‘ لیکن اس بار ایسا نہ ہوا۔ عمومی تاثر یہ تھا کہ آرمی چیف کے انتخاب کے بارے میں میاں نواز شریف نے میاں شہباز شریف اور چودھری نثار علی خاں سے مشاورت کی۔ پرویز مشرف کئی سال تک ایس ایس جی کمانڈو رہے۔ ان کا پیشہ ورانہ ریکارڈ بھی اچھا تھا‘ لیکن ان کو آرمی چیف بنانے کے سلسلے میں ان کی فوجی مہارت سے بڑھ کر شاید یہ پہلو مدنظر رکھا گیا تھا کہ یہ شخص مہاجر ہے‘ اور اس کا کوئی حلقہ نہیں‘ اس سے حکومت کو کسی قسم کی مزاحمت یا مخالفت کا کوئی امکان نہیں... جس دن یہ اعلان کیا گیا‘ اسی دن جنرل علی قلی خان نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا جبکہ جنرل خالد نواز ملک نے استعفیٰ ہی نہیں دیا بلکہ استعفے پر دستخط کرنے کے بعد وردی بھی اتار دی۔ ان کے پاس چونکہ ذاتی کار نہیں تھی‘ وہ پبلک ٹرانسپورٹ میں بیٹھ کر اپنے گھر چلے گئے‘‘۔
نواز شریف‘ پرویز مشرف کشمکش کے ضمن میں عبدالمجید ملک لکھتے ہیں: ''نواز حکومت کے خاتمے اور پرویز مشرف کے اقتدار سنبھالنے کا واقعہ اگرچہ ایک طویل پس منظر رکھتا ہے اور اس تبدیلی کی بہت سی وجوہات ہیں‘ لیکن اگر مجھے اس کی کوئی ایک وجہ بیان کرنی پڑے تو میں بڑے وثوق سے ''کارگل‘‘ کا ذکر کروں گا۔ کچھ سینئر جرنیلوں کو چھوڑ کر جنرل پرویز مشرف کو آرمی چیف بنانا وزیر اعظم نواز شریف اور ان کے اقربا کا فیصلہ تھا‘ لیکن اس کے کچھ عرصہ بعد دونوں فریقوں میں کچھ سرد مہری اور چپقلش واقع ہونا شروع ہو گئی۔ نواز شریف اور ان کی پارٹی چونکہ بھاری اکثریت سے منتخب ہو کر آئی تھی‘ اس لیے وہ چاہتے تھے کہ ہر قومی ادارہ ان کے مکمل کنٹرول میں ہو۔ بدقسمتی سے جو پہلے دور میں عدلیہ اور صدر کے ساتھ ان کے تنازعات تھے۔ اس سے انہوں نے سبق نہیں سیکھا تھا۔ اتنی بڑی عوامی قوت حاصل کرنے کے بعد سیاسی پارٹیوں کو یاد نہیں رہتا کہ عدلیہ‘ پریس‘ آرمی‘ وکلاء اور دیگر اداروں کے بھی حقوق ہوتے ہیں‘ اور انہی حقوق کو مدنظر رکھ کر پالیسیاں ترتیب دی جانی چاہئیں... 1999ء میں جب کارگل کا معاملہ شروع ہوا‘ تو اس سے وزیر اعظم نواز شریف اور آرمی چیف پرویز مشرف میں بد اعتمادی پیدا ہو گئی۔ پرویز مشرف اور ان کے ساتھیوں نے کارگل کی پہاڑیوں پر قبضے کا جو منصوبہ بنایا تھا‘ اس کی منظوری وزیر اعظم سے نہیں لی تھی‘ اور اس کی منصوبہ بندی بھی مجموعی طور پر اچھی نہیں تھی‘‘
''عمرہ کی ادائیگی کے بعد بھی دونوں کے دلوں سے کدورت کلی طور پر ختم نہ ہو سکی... دونوں ایک دوسرے کو نکالنے کے لیے موقع کی تلاش میں تھے۔ ملٹری انٹیلی جنس نے وزیر اعظم اور وزراء کے ٹیلی فون ٹیپ بہ زبان مشرف اور مشرف کے حساب سے ان کو عہدے سے ہٹانے کے اشارے مل گئے۔ دوسری جانب آرمی ہائی کمان نے کور کمانڈرز کے اجلاس میں ایک سے زیادہ مرتبہ اس بات پر بحث کی کہ اگر وزیر اعظم اور حکومت کی طرف سے آرمی کمان میں تبدیلی کے متعلق کوئی قدم اٹھایا جائے تو اس صورتحال میں کیا حکمت عملی اختیار کی جائے۔ اور اس متوقع صورتحال کے لیے اپنا پلان بھی تیار کر لیا۔ وزیر اعظم کو 
اگرچہ آئینی لحاظ سے پورا اختیار تھا کہ وہ آرمی چیف کو کسی وقت بھی عہدے سے برخاست کر سکتے تھے‘ لیکن اس سارے معاملے کو اگر اس طرح دیکھا جائے کہ تقریباً ایک سال کے دورانیے میں دو آرمی چیف کو برخاست کرنے کی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی‘ مشرف کو برخاست کرنے کا جو طریقہ اختیار کیا گیا یہ نہایت ہی نامناسب تھا۔ خواجہ ضیاء الدین کی تقرری کا فیصلہ بھی درست نہیں تھا کیونکہ ان کو فوجی دستوں کی عملی طور پر کمان کرنے کا وسیع تجربہ نہ تھا۔ وہ اس عہدے کے لیے موزوں نہیں تھے۔ لیکن پھر وہی بات کہ پاکستانی حکام کا یہ طریقہ کار رہا ہے کہ وہ ہر شخص کو کوئی عہدہ تفویض کرتے وقت ضرور ایک ہی بات سوچتے ہیں کہ وہ ان کے اقتدار کے لیے کتنا مفید ہے۔ خواجہ ضیاء الدین کے بطور ڈی جی آئی ایس آئی تعیناتی پر آرمی میں مختلف رائے پائی جاتی تھی‘ کیونکہ وہ اس عہدے پر ہوتے ہوئے اس بات سے بے خبر تھے کہ آرمی چیف کی برطرفی کی صورت میں آرمی کا ردعمل کیا ہو گا کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ ضیاء الدین کا بٹ (خواجہ) ہونا اضافی قابلیت تھی‘‘
جنرل مجید ملک کو زندگی بھر یہ فخر رہا کہ ''انہوں نے ضیاء الحق کو آرمی چیف مقرر کرنے پر استعفے اور بھٹو کی پھانسی پر سفارتی عہدے سے علیحدگی کا فیصلہ کیا‘ قیام پاکستان کے بعد انہیں مالی مراعات کے عوض قادیانی بننے اور بطور چیف آف جنرل سٹاف امریکی سفیر کی طرف سے سی آئی اے کے لیے کام کرنے کی پیشکش ہوئی مگر اللہ تعالیٰ نے انہیں استقامت بخشی جبکہ آئی جے آئی کی تشکیل کے لیے رقوم کی تقسیم ہوئی تو مجھے کسی کو پیشکش کرنے کی جرات نہ ہوئی‘‘ البتہ وہ اعتراف کرتے تھے کہ حاجی گل شیر (فاٹا) کو ان کے توسط سے کچھ رقم دی گئی۔ سپاہی سے جرنیل اور وزارت کا سفر طے کر کے وہ اللہ تعالیٰ کے حضور پیش ہو گئے۔ اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں