ابھی ہم خواجہ آصف کے نازیبا ریمارکس کا رونا رو رہے تھے کہ بیچ میں ایک مذہبی جماعت کے رہنما حافظ حمداللہ آ ٹپکے۔ جوش جذبات میں ماروی سرمد کو وہ کچھ کہہ ڈالا جس کا کوئی جواز تھا نہ موقع محل اور نہ ایک عالم دین کے شایان شان۔
ٹی وی چینلز پر اینکرز کی حشرات الارض کی طرح افزائش ہوئی تو مذہب‘ اخلاقیات‘ سماجی اقدار اور ملکی قوانین سب سان پر چڑھ گئے۔ موضوع کے تعیّن میں کوئی احتیاط نہ مہمانوں کے انتخاب میں معیار و پیمانہ اور نہ طے شدہ موضوع تک محدود رہنے کی پابندی۔ جس کے جو منہ میں آئے کہہ دے‘ کوئی روک نہ ٹوک! پروگرام کیا ہے‘ بارہ مصالحے کی چاٹ! بس لڑائی جھگڑا ہونا چاہیے کہ ریٹنگ بڑھے اور اینکرز کی جَے جَے ہو۔
مولانا حافظ حمداللہ نے ماروی سرمد سے جس پروگرام میں ناروا گفتگو کی وہ بھی اسی قسم کا تھا۔ بیرسٹر مسرور نے اسلامی نظریاتی کونسل کے قابل احترام سربراہ مولانا محمد خان شیرانی کے بارے میں جو الفاظ کہے انہیں کسی صورت مہذب اور شائستہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔ بات انہوں نے بگاڑی‘ یہ حافظ حمد اللہ کو مشتعل کرنے کی سوچی سمجھی ترکیب تھی یا مذہب اور مذہبی لوگوں سے خدا واسطے کا بیر رکھنے والے ایک شخص کا غیر محتاط طرزعمل؟ وثوق سے کچھ کہنا مشکل ہے۔ ماروی سرمد کے نظریات اور خیالات سے ٹی وی ناظرین واقف ہیں اور مولانا حافظ حمد اللہ کے بھی‘ جنہیں اکثر ٹاک شوز میں بلایا جاتا ہے۔ مگر بیرسٹر مسرور کی غیر محتاط اور دل آزار گفتگو ہو یا ماروی سرمد کی طرف سے اس کی تائید اور ہمیشہ کی طرح بے باکانہ لب و لہجہ‘ ایک مذہبی جماعت سے وابستہ عالم دین کے اُن ریمارکس کی وجہ جواز ہرگز نہیں جو موصوف نے اشتعال کے عالم میں ایک خاتون سے کہے۔ سوقیانہ گفتگو کسی کو بھی زیب نہیں دیتی‘ نجی محفل میں یا ٹی وی ٹاک شو میں‘ کجا کہ ایک عالم دین کے مُنہ سے جو انبیاء کی وراثت کا دعویدار اور پاکستان میں نفاذ دین کا علمبردار بھی ہو۔
پروپیگنڈا تو عرصہ دراز سے یہی ہو رہا ہے کہ اسلام تلوار کے زور پر پھیلا ‘ مگر تاریخی حقیقت یہ ہے کہ ہمارے نرم دمِ گفتگو‘ گرم دمِ جستجو علماء و صوفیاء کے اخلاق و کردار اور شیریں گفتاری کا اہم کردار ہے یا پھر ان تاجروں کا جو مشرق بعید میں اپنی امانت و دیانت‘ لین دین کے معاملات میں قابل رشک طرز عمل اور اپنے گاہکوں کے ساتھ حُسنِ سلوک کی بناء پر رول ماڈل ٹھیرے اور قبیلوں کے قبیلے اپنا آبائی مذہب چھوڑ کر ان تاجروں کے دین کو قبول کرنے لگے۔ ہمارے علماء‘ صوفیاء اور تاجروں نے ایک بات پلّے باندھ رکھی تھی کہ اُن کے ہاتھ اور زبان سے کسی کو ایذا نہ پہنچے کہ یہی ایک حقیقی مسلمان کی تعریف ہے اور مُبلّغ کی شان۔ فرمایا: ''تُم میں سے بہترین وہی لوگ ہیں جو اپنے اخلاق میں دوسروں سے اچھے ہیں‘ یہی لوگ مجھے زیادہ محبوب ہیں‘‘۔
ہم‘ آپ اور حافظ حمد اللہ جس رسول رحمتﷺ کے ماننے والے ہیں اُن کا اُسوہ حسنہ یہ ہے کہ ''ایک مرتبہ ایک بدّو آیا اور اُس نے رسول اللہ ﷺ کے جسم اقدس پر لپٹی چادر زور سے کھینچنی شروع کر دی‘ اس قدر زور سے کہ آپؐ کے شانہ مبارک پر نشان پڑ گیا‘ پھر وہ بدتمیزی سے کہنے لگا میرے ان دو اونٹوں پر اللہ تعالیٰ کا مال لاد دو۔ آپؐ بدّو کی گستاخانہ گفتگو پر خاموش رہے‘ تھوڑی دیر بعد فرمایا: ''سنو‘ مال تو اللہ کا دیا ہوا ہے میں اس کا بندہ ہوں مگر تُم نے میرے ساتھ جو بد تمیزی کی اس کا بدلہ لیا جا سکتا ہے‘‘۔ اس نے کہا آپؐ کی بات درست ہے مگر میں جانتا ہوں کہ آپؐ ایسا نہیں کریںگے۔ آپؐ نے پوچھا آخرکیوں؟ بدّو بولا: ''اس لیے کہ آپؐ بُرائی کا جواب بُرائی میں نہیں دیتے‘‘۔ رحمۃ للعالمینﷺ یہ سُن کر مسکرا دیئے اور حکم دیا کہ بدّو کے ایک اُونٹ پر جَو اور دوسرے پر کھجوریں لاد دی جائیں:
سلام اُس پر کہ اسرارِ محبت جس نے سمجھائے
سلام اُس پر کہ جس نے زخم کھا کر پھول برسائے
سلام اُس پر کہ جس نے بھوکے پیاسوں کو قبائیں دیں
سلام اُس پر کہ جس نے گالیاں سُن کر دعائیں دیں
عفو و درگزر سے کام لینے کا حکم ایسے ہی مواقع پر ہے جب کوئی آپ کی حق تلفی کرے‘ جذبات کو ٹھیس پہنچائے یا آپ کے خلافِ مزاج‘ خلافِ طبع کچھ کر گزرے‘ خواہ زبان سے یا عمل سے ؎
ظفر آدمی اس کو نہ جانیے گا‘ ہو کتنا ہی صاحب فہم و ذکا
جسے عیش میں یاد خدا نہ رہی‘ جسے طیش میں خوفِ خدا نہ رہا
بیرسٹر مسرور نے جو کہا سو فیصد غلط۔ ایک عالم دین کیا‘ کسی عامی کے لیے بھی یہ کہنا روا نہیں کہ وہ چرس پی کر سو رہا ہے اور پھر اس بات کو دہرائے چلے جانا۔ ماروی سرمد کا بھی مسرور کے غیر محتاط اور دل آزار جملے سے مسرور ہونا قابل اعتراض مگر اس پر حافظ صاحب کا طیش میں آ کر ایک خاتون پر ہاتھ اُٹھانا اور اخلاق سے گرے جملے دہرانا؟ ایسی غلطی جس کی تلافی صرف اور صرف کھلے دل کے ساتھ معذرت سے ممکن ہے۔ مہذب لوگوں کو اشتعال کے عالم میں بھی ایسی گفتگو اور وہ بھی ایک خاتون کے ساتھ زیب نہیں دیتی جو انسان کو ہوش آنے پر شرمندہ کر دے۔ حافظ صاحب نے شیخ سعدیؒ کو ضرور پڑھا ہو گا اور ایک کریہہ الصوت موذن کا واقعہ بھی‘ جس پر سعدیؒ نے کہا ؎
گر تو قرآن بدیں نمط خوانی
ترسم کہ بہ بُری رونق مسلمانی
ان دنوں اسلام ہمارے ترقی پسند‘ لبرل اور مذہب بیزار دانشوروںکا خصوصی ہدف ہے۔ ان میں ابھی اتنی جرأت تو نہیں کہ وہ کھُل کر مذہب کا مذاق اُڑا سکیں‘ وہ مولوی کی آڑ میں مذہب کا تمسخر اُڑاتے ہیں‘ لیکن اگر مولوی خود بھی اُن کی مشکل آسان کردے تو؟ موقع بے موقع کوئی متنازع موضوع چھیڑ کر جیسے خواتین پر ہلکا تشدد وغیرہ‘ انہیں موقع فراہم کرے کہ وہ دل کے پھپھولے پھوڑ سکیں تو انہیں اور کیا چاہیے؟ مولانا شیرانی اپنے تمام تر تقویٰ اور احترام کے باوجود اس حوالے سے بدنام ہیں۔ گزشتہ ڈیڑھ دو ہفتے سے اُن کے فرمودات کی آڑ میں مذہبی احکامات اور دینی شعائر کو ہدف تنقید بنایا جا رہا ہے۔ ضرورت اس جلتی پر پانی ڈالنے کی تھی اور خواتین کے خلاف ہونے والے سنگین جرائم کی روک تھام کے لیے رحمۃ للعالمینﷺ کی کریمانہ تعلیمات کو اجاگر کرنے کی، مگر حافظ صاحب کے فرمودات نے رہی سہی کسر پوری کر دی۔ مخالفین کو یہ کہنے کا موقع فراہم کیا کہ مذہبی عناصر قوت برداشت سے محروم ہیں‘ یہ اُسوہ رسولﷺ کے علمبردار ہیں مگر انہیں دوسروں کی کڑوی کسیلی سُن کر خاموش رہنے کا طریقہ آتا ہے نہ خواتین کے ساتھ حسن اخلاق سے پیش آنے کا سلیقہ۔ ایک عالم دین اگر اپنے غصّے پر قابو پانے کے وصف سے عاری ہے اور اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کا عادی تو پھر خواجہ آصف اور حافظ حمد اللہ میں کیا فرق رہا۔ بجا کہ بیرسٹر مسرور کا انداز گفتگو مناسب نہ تھا۔ تلک بہ جبیں ماروی سرمد بھی اُڑتے تیرکو بغل میں لینے کی عادی ہیں‘ مگر مسند انبیاء کے وارثین؟ اہل دین اور اصحاب علم و فضل کو تو نرم دمِ گفتگو‘ گرم دمِ جستجو ہونا چاہیے اور ''واذا خاطبھم الجاھلون قالوا سلاما‘‘کی مجسم تصویر۔ یہی اسوہ رسولﷺ ہے اور یہی اسلام کی اعلیٰ وارفع تعلیمات کا تقاضا ؎
رندانِ مَے پرست‘ سیہ مست ہی سہی
اے شیخ گفتگو تو شریفانہ چاہیے