جبلّت

پاناما پیپرز میں حکمران خاندان کی بیرون ملک آف شور کمپنیوں کا ذکر‘ سابق صدر آصف علی زرداری اور ان کے قریبی ساتھیوں کے بارے میں ڈاکٹر عاصم حسین کے انکشافات اور بلوچستان کے سیکرٹری خزانہ مشتاق رئیسانی سے لوٹی ہوئی اربوں روپے کی دولت کی برآمدگی کے علاوہ کراچی میں آٹھ بنگلوں کی موجودگی سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ پاکستان میں وسائل کی کمی ہے نہ لوٹ مار کے کاروبار پر کسی قسم کی پابندی۔ بس ذرا آدمی کو چالاک اور بااثر ہونا چاہیے۔ ڈھیٹ اور سنگدل بھی۔
ہمارے دوست اور سابق صوبائی وزیر ڈاکٹر شفیق چودھری ایک واقعہ سنایا کرتے ہیں‘ وہ ایران میں پہلے ملازمت اور پھر کاربار کرتے رہے‘ ایک بار وطن واپس آئے تو ان کی ملاقات اس وقت کے وفاقی وزیر میاں زاہد سرفراز سے ہوئی۔ وفاقی وزیر نے پوچھا ''ڈاکٹر! ایران میں کیا کر رہے ہو؟‘‘ جواب دیا:''دال روٹی کا بندوبست‘‘۔
وفاقی وزیر مسکرائے اور بولے: ''بارہ کروڑ بے وقوفوں کے ملک میں دال روٹی کا بندوبست بہتر انداز میں نہیں ہو سکتا کہ جلا وطنی کی زندگی بسر کر رہے ہو؟‘‘ (یہ ضیاء الحق کا دور تھا اور پاکستان کی آبادی بارہ کروڑ تھی) 
یہ ان دنوں کی بات ہے جب لوگ تلاش روزگار کے لیے دبئی‘ ایران‘ سعودی عرب اور دیگرممالک کا رخ کرتے۔ بعد کے برسوں میں ہماری حکمران اشرافیہ کے لیے پاکستان ان ممالک سے زیادہ بارآور ثابت ہوا اور جتنی دولت چند خاندانوں نے پاکستان سے کمائی اور بیرون ملک منتقل کی ایران‘ دبئی اور سعودی عرب کے حکمران اس پر حسد ہی کر سکتے ہیں۔
سوال مگر یہ ہے کہ جن افراد اور خاندانوں کو پاکستان میں اقتدار و اختیار ملا‘ دھن دولت کے انبار لگے‘ آئندہ دس نسلوں کے معاشی تحفظ کا اہتمام ہوا اور اندرون وبیرون ملک اثاثوں‘ اکائونٹس اور تعلقات میں اضافہ ہوا، انہیں کس چیز نے زیادہ سے زیادہ سمیٹ کر باہر لے جانے اور ملک و قوم کو کنگلا کرنے پر آمادہ کیا؟ خاندانی تربیت‘ اردگرد کاماحول‘ مستقبل کا خوف، عدم تحفظ کا احساس یا جبلّت اور سرشت؟ جن لوگوں نے عوام کے منہ سے آخری نوالہ چھین کر‘ ان کے بچوں کو تعلیم‘ صحت ‘ روزگار اور زندگی کی دیگر اہم ضروریات سے محروم کر کے دولت کے انبار لگا لیے‘ ان کی ہوس زر ختم ہونے میں کیوں نہیں آ رہی؟ کثرت کی خواہش نے انہیں بائولا کیوں کر رکھا ہے؟ یہ ایک سنجیدہ سوال ہے؟
شیخ مصلح الدین شرف سعدیؒ کو فارسی سے نابلد اور اپنے شاندار ماضی سے کٹی نوجوان نسل نہیں جانتی مگر انسانی جبلت کے حوالے سے ان کا تجربہ و تجزیہ دلچسپ و سبق آموز ہے۔ شیخ سعدیؒ نے ایک بادشاہ کے دربار کا قصہ قلمبند کیا ہے جس میں دو وزیروں کے درمیان یہ بحث چھڑ گئی کہ انسان اپنے اعمال و افعال اور اہم فیصلوں میں جبلّت اور سرشت کے مطابق بروئے کار آتا ہے یا ماحول‘ تربیت اور درپیش واقعات و حالات اثر انداز ہوتے ہیں۔ جس وزیر کا موقف تھا کہ جبلّت پر تربیت‘ ماحول اور زندگی کی تلخیاں‘ آسودگیاں اثر انداز ہوتی ہیں ایک ماہ بعد اس نے یہ ثابت کرنے کا وعدہ کیا کہ وہی درست اور برحق ہے۔ جبکہ دوسرے وزیر نے اسے غلط ثابت کرنے کا وعدہ کیا۔ مقررہ مدت کے بعد بادشاہ کا دربار سجا‘ وزیر نے اشارہ کیا اور آٹھ دس بِلیاں سر پر روشن دیے سجائے، پنجوں میں مشعلیں پکڑے قطار میں رقص کرتی نمودار ہوئیں۔ رقص کے دوران قطار ٹوٹی‘ کوئی دیا گرا نہ مشعل بجھی اور تالیوں کی گونج میں بِلیاں دوسرے دروازے سے باہر نکل گئیں۔ بادشاہ اور درباری عش عش کر اٹھے۔ بلیوں نے یہ عمل تین بار دہرایا۔ دوسرے وزیر نے عرض کی بادشاہ سلامت میں کل اپنے دوست کی غلط فہمی دور کر دوںگا۔
دوسرے دن پھر دربار سجا‘ بلیوں کا رقص شروع ہوا اورمرحبا کی صدائوں سے محل گونج اٹھا۔ اچانک بادشاہ اور درباریوںنے دیکھا کہ بلیوں نے مشعلیں پھینکیں‘ دیے گرائے‘ قطار توڑی‘ رقص چھوڑا اور دیوانہ وار ایک طرف بھاگنے لگیں‘ پتا چلا کہ دوسرے وزیر نے بلیوں کے سامنے چوہا چھوڑا ہے، ساری بلیاںجس کا تعاقب کر رہی ہیں۔ جبلت اور سرشت کسی قیمت پر تبدیل نہ ہونے کے دعویدار وزیر نے ایک چوہے کے ذریعے اپنے ساتھی کی مہینے بھر کی ریاضت اور بلیوں کی تربیت پر پانی پھیر دیا تھا۔
حکایات سعدیؒ میں ایک واقعہ چرواہے کا درج ہے جس نے شیرنی کے نوزائیدہ بچے کو جنگل سے اٹھایا اور اپنی بکریوں میں سے ایک کے دودھ پر لگا دیا۔ بکری اسے دیگر بچوں کی طرح لاڈ پیار سے رکھتی اور شیر کا بچہ بھی ریوڑ کے دوسرے میمنوں کی طرح دودھ پیتا‘ گھاس کھاتا اور منمناتا۔ چرواہا فخر سے دوسروں کو بتاتا کہ اس نے پال پوس کر شیر کے بچے کو میمنہ بنا دیا ہے جو شکل و صورت سے تو شیر لگتا ہے مگر عادات و خصائل میں میمنہ ہے۔ ایک دن اس کی یہ دیکھ کر خوش فہمی دور ہو گئی کہ شیر کے بچے نے بکری کی گردن پر پنجے گاڑے، شہ رگ چیری اور سانسیں رکنے پر ایک طرف بیٹھ کر مزے سے بکری کا گوشت کھانے لگا۔ تب چرواہے نے تعجب سے شیر کے بچے کو مخاطب کیا: ''سکھایا تو بکری نے تمہیں دودھ پینا‘ گھاس کھانا اور بکریوں کے باڑے میں آرام سے سو جانا تھا یہ تمہیں جانور کی گردن دبو چنا اور گوشت سے پیٹ بھرنا کون سکھا گیا؟‘‘
فرد ہو یا قوم ماحول‘ تربیت اور زندگی کے تجربات سے سیکھنے اور اپنے آپ کو بدلنے کی صلاحیت تو اللہ تعالیٰ نے سب کو عطا کی ہے اور ہم بڑی حد تک سیکھنے اور اپنے آپ کوبدلنے کا عمل جاری بھی رکھتے ہیں مگر اپنی سرشت‘ جبلت ‘ مزاج‘ طبیعت اور بشری تقاضوں کو بالائے طاق رکھ کر اعلیٰ ترین اخلاقی اصولوں اور بلند ترین مقاصد کے لیے زندگی بسر کرنا اور اپنی ذات و مفاد سے بالا تر ہو کر محض دوسروں کے لیے‘ اپنی قوم اور ریاست کے لیے کچھ کر گزرنا ہر شخص کے بس کی بات نہیں۔ ہماری حکمران اشرافیہ کے بس میں تو ہرگز نہیں۔
یہ اللہ تعالیٰ کے فرستادہ پیغمبرؑ اور رسولؐ ہوتے ہیں ‘ ولی‘ قطب اور ابدال یا عمر عبدالعزیزؓ جیسے حکمران جو اپنے آپ کو طمع ‘ لالچ‘ ہوس زر‘ مفاد پرستی‘ ریا کاری‘ نمودو نمائش ‘ اقربا پروری‘ حُب جاہ اور اقتدار پسندی سے دور رکھتے اور اللہ کی خوشنودی ‘ خدمت خلق کو زندگی کا نصب العین بنا کر اپنے اور معاشرے کے لیے دائمی مسرتوں کا اہتمام کرتے ہیں۔ قائد اعظمؒ‘ نیلسن منڈیلا‘ مہاتیر محمد اور نتیش کمار جیسے مدبّر بھی جو اگلے الیکشن کے لیے نہیں قوم کے مستقبل کے لیے سوچتے اور تاریخ کو حیران کر دیتے ہیں۔ نواز شریف‘ آصف زرداری، پرویز مشرف اور ہماری قسمت کے مالک دیگر رہنما دعوے جو بھی کریں اپنے عمل اور فیصلوں میں جبلت کے تابع رہتے ہیں اور کبھی رتی بھر انحراف نہیں کر پاتے۔ ہوس زر‘ ہوس اقتدار اور ہوس اختیار ان کا اوڑھنا بچھونا اور غریبوں کے محلے اجاڑ کر اپنے محلّات آباد کرنا ان کے مشاغل۔
اس معاملے میں قوم بھی حکمرانوں سے پیچھے نہیں۔ برس ہا برس سے قوم کا مزاج بدلا نہ حکمرانوں اور فیصلہ سازوں کی خُو تبدیل ہوئی، اشرافیہ کے حالات ضرور بدلے۔ سرشت وہی ظالمانہ اور سنگدلانہ رہی۔ عوام کی قسمت بدلی نہ خوئے غلامی میں ذرہ برابر فرق آیا۔ البتہ خواہش یہ ہے کہ حکمران اپنے طور طریقے بدل لیں اور اقربا پروری‘ خویش نوازی اور شعبدہ بازی چھوڑ کر ان کی خدمت میں جت جائیں‘ راتوں رات ان کی تقدیر بدل ڈالیں۔
فارسی میں کہتے ہیں: خر عیسیٰؑ اگر بہ مکہ رود‘ چوں باز آید ہنوز خر باشد
(عیسیٰ علیہ السلام کا خچر مکہ سے واپس آ کر بھی خچر ہی رہتا ہے) سرور کائناتﷺ نے فرمایا: اگر کوئی شخص مجھے آ کر یہ خبر دے کہ احد کا پہاڑ اپنی جگہ سے ہٹ گیا ہے تو شاید میں مان لوں مگر کسی کی جبلت تبدیل ہو گئی؟ ہرگز نہیں ؎
نہ تُم بدلے نہ دل بدلا نہ دل کی آرزُو بدلی 
میں کیسے اعتبارِ انقلابِ آسماں کر لوں
جب ہم نے اپنی تقدیر ہی ذوالفقار علی بھٹو ‘ ضیاء الحق ‘ بے نظیر بھٹو‘ نوازشریف ‘ الطاف حسین جیسوںسے وابستہ کر لی ہے‘ بادشاہ کے وزیر کی طرح یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ بلیاں چوہوں کے پیچھے دوڑنے سے باز آ سکتی ہیں اور شیر کا بچہ گوشت کھانا چھوڑ کر گھاس خوری پراکتفا کرے گا تو پھر رونا دھونا کیسا اور گلہ کس سے؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں