عظیم انسان

''عظیم انسانوں کے بغیر کوئی عظیم کام نہیں ہوتا‘‘ ڈیگال نے لکھا''وہ عظیم اس لیے ہوتے ہیں کیونکہ ان کے ارادوں میں پختگی ہوتی ہے‘‘۔ سابق امریکی صدر رچرڈ نکسن کی کتاب ''لیڈرز‘‘ میں ان لیڈروں کا ذکر ہے جو دوسروں سے زیادہ کامیاب ہوئے اور انہوں نے تاریخ پر اپنے عزم و استقلال کا نقش ثبت کیا۔
ریفرنڈم کے نتائج سامنے آنے پر ڈیوڈ کیمرون نے جس تمکنت‘ وقار اور خوش دلی کے ساتھ استعفے کا اعلان کیا وہ ارادے کی پختگی اور مستقبل بینی کے غیر معمولی وصف کا اظہار تھا۔ ڈیوڈ کیمرون سے کسی نے استعفے کا مطالبہ کیا نہ آئینی و قانونی طور پر وہ اس کا مکلّف تھا اور نہ کنزر ویٹو پارٹی یا عوام نے اس کے کسی سرکاری فیصلے اور اقدام کے برعکس رائے دی۔ تینوں بڑی برطانوی جماعتیں یورپی یونین کے ساتھ رہنے یا نہ رہنے کے معاملے میں منقسم تھیں۔ اگر اس فیصلے کے نتیجے میں سکاٹ لینڈ اور پھر آئر لینڈ تاج برطانیہ سے علیحدگی اختیار کرتے اور برطانوی سلطنت مزیدسکڑتی ہے تو تاریخ میں یہ ایک بُرے اور تباہ کن عوامی فیصلے کے طور پر یاد رکھا جائیگا مگر ایک باوقار اوربا عزت سیاستدان کے طور پر ڈیوڈ کیمرون نے اپنی باقیماندہ ساڑھے تین سالہ ٹرم قربان کر دی‘ اس وقت کا انتظار نہیں کیا جب کوئی بورس جانسن یا لیبر پارٹی کا سر پھرا رکن پارلیمنٹ ڈینی سکنر استعفے کا مطالبہ کرے یا کسی اور طرف سے مخالفانہ آواز اُٹھے۔ قومی عظمت اور ذاتی احترام کے لیے سیاست و اقتدار کے ایوانوں کا رخ کرنے والے باعزم ‘بے لوث لوگ ہمیشہ عزت اور اقتدار میںسے انتخاب کے وقت عزت کو ترجیح دیتے ہیں۔ اعلان کے بعد ڈیوڈ کیمرون کا پرسکون دمکتا چہرہ اس کے اندرونی اطمینان کی چغلی کھا رہا تھا۔
پاکستان میں یوں تو پارلیمانی طرز جمہوریت رائج ہے اور جب جنرل پرویز مشرف کے دور میں ملکہ برطانیہ پاکستان کے دورے پر آئیں تو قومی اسمبلی کے سپیکر نے اپنے استقبالیہ کلمات میں تاج برطانیہ سے طویل وابستگی پر اظہار فخر کیا مگر ہمارے کسی وزیر اعظم نے چرچل‘ مارگریٹ تھیچر‘ جان میجر‘ ٹونی بلیئر اور ڈیوڈ کیمرون کی پیروی نہیں کی۔ ہمارے بعض تجزیہ نگار‘ دانشور اور سیاسی نابغے منتخب حکومت اور وزیر اعظم کی بے اختیاری‘ مجبوری اور بے بسی کا رونا روتے اور انہیں میر تقی میر کی صف میں لاکھڑا کرتے ہیں ؎
ناحق ہم مجبور وں پر یہ تہمت ہے مختاری کی
چاہتے ہیں سو آپ کرے ہیں ہم کو عبث بدنام کیا
تو یہ کہنے کو جی کرتا ہے کہ لاکھوں لوگوں کے ووٹ حاصل کر کے اقتدار میں آنے والے آزادی عمل اور اختیار سے محروم کرسی پر چمٹے رہنے کے بجائے عزت نفس کا مظاہرہ کیوں نہیں کرتے وہ بے بسی کا رونا رونے کے بجائے اقتدار کو ٹھوکر کیوں نہیں مارتے؟ مفادات اور مصلحتوں کی زنجیروں میں کیوں جکڑے رہتے ہیں؟ حتیٰ کہ انہیں توہین آمیز طریقے سے نکال باہر کیا جاتا ہے۔
گزشتہ روز عمران خان نے جب یہی بات پاناما پیپرز کی زد میں آئے حکمرانوں کو باور کرائی تو یہ شکوہ بے جا نہ تھا۔ صبح و شام سلطانی جمہور کا ورد کرنیوالوں کو برطانیہ ‘ آئس لینڈ اور دیگر ممالک سے کچھ توسیکھنا چاہیے اور دوسروں کو جمہوری روایات کی پاسداری کا سبق پڑھانے والوں کو خود بھی اپنے گریباں میں جھانکنا چاہیے مگریہاں کا باوا آدم نرالا ہے۔ پاناما پیپرز پر سیاسی احتجاج جائے بھاڑ میں حکومت کاترجمان ایک دینی مدرسے جامعہ حقانیہ کو محض اس لیے دہشت گردوں کا گڑھ اور بے نظیر بھٹو کے قاتلوں کی پناہ گاہ ثابت کرنے پر تلا ہے کہ تحریک انصاف کی صوبائی حکومت نے اسے سرکاری گرانٹ سے نوازا ہے۔
خیبر پختونخوا حکومت نے بجٹ میں مولانا سمیع الحق کے مدرسہ کے لیے تیس کروڑ روپے کی گرانٹ مختص کی تو تین طرح کے لوگوں نے مخالفانہ ردعمل ظاہر کیا۔
سر فہرست وہ اللہ کے بندے جنہیں مذہب‘ مدرسے اور مولوی سے اللہ واسطے کا بیر ہے۔ یہ امداد اگر جامعہ حقانیہ کے بجائے جامعہ نعیمیہ کو ملتی تو بھی یہ اعتراض کرتے ۔ان کا بس چلے تو بارک حسین اوباما کو ان دینی مدارس اور مساجد پر ڈرون حملوں کی ترغیب دیں جہاں سے صدائے لاالٰہ الا اللہ بلند ہوتی ہے۔ مخالفین کی دوسری قسم وہ ہے جنہیں عمران خان اور تحریک انصاف سے چڑ ہے۔ پرویز رشید کی مخالفت کی وجہ ذاتی بھی ہے اور جماعتی بھی۔1970ء کے انتخابات میں مولانا سمیع الحق کے والد مولانا عبدالحق نے پیپلز پارٹی کے امیدوار نصراللہ خاں خٹک کو انتخابی مہم چلائے بغیر عبرتناک شکست دی اور 1977ء کے جھرلو الیکشن میں دوبارہ اپنے مخالف امیدوار کو ہرایا جو اس وقت صوبہ سرحد کا بااختیار وزیر اعلیٰ تھا۔ پرویز رشید نصراللہ خٹک کے قریبی ساتھی اور مشیر تھے۔ اب اگر عمران خان کی صوبائی حکومت مولانا عبدالحق کے قائم کردہ مدرسے کی مالی امداد کرے تو فائد اٹھانا رسم دنیا بھی ہے‘ موقع بھی ہے‘ دستور بھی ہے۔ مولانا فضل الرحمن بھی خوش اور مذہب‘ مولوی اور مدرسہ کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے خواہش مند بھی راضی۔
تیسرا گروہ البتہ وہ ہے جسے صرف ایک مدرسہ کو امداد دینے پر اعتراض ہے کہ یہ دیگر دینی مدارس سے ناانصافی اور مساوات و میرٹ کے دعوئوں کی نفی ہے۔ ایک لحاظ سے میاں نواز شریف کی فضل الرحمن نوازی کا جواب۔ اس گروہ کے اعتراضات رفع کرنا خیبر پختونخوا حکومت‘ تحریک انصاف اور عمران خان کا فرض ہے اور انہیں یہ وضاحت بھی کرنی چاہیے کہ صوبے کے دیگر مدارس کو اس عنایت خسروانہ سے محروم کیوں رکھا گیا ۔تاہم جامعہ حقانیہ کے ناقدین کو طالبان اور بے نظیر بھٹو کے قاتلوں کی رٹ لگانے کے بجائے امداد نہ دینے کا ٹھوس جواز پیش کرنا ہو گا۔ اگر دیگر جدید سرکاری و غیر سرکاری تعلیمی اداروں کو سرکاری امداد دینا درست ہے تو ان دینی مدارس کو کیوں نہیں جہاں غریبوں کے بچوں کو تعلیم کے علاوہ رہائش‘ خوراک‘ لباس علاج معالجے اور وظائف کی سہولت حاصل ہے اور جو ریاستی وسائل پر بوجھ بنے بغیر مخیر حضرات کے عطیات‘ زکوٰۃ ‘ صدقات سے اپنی تعلیمی ‘طبی اور معاشی ضرورتیں پوری کر رہے ہیں۔ بائیس لاکھ طالب علم اگر دینی مدارس کا رخ نہ کریں تو اس ریاست میں جہاں اڑھائی کروڑ بچے سکولوں میں داخلے سے محروم ہیں کہاں جائیں گے؟ کیا یہ سماج کا حصہ نہیں‘ کیا سرکاری سکولوں‘ نجی تعلیمی اداروں‘ این جی اوز اور سیاستدانوں اور صحافیوں کو نوازنا جائز ہے ‘ قال اللہ و قال الرسولؐ کا ورد کرنے والوں پر عنایت جرم ہے۔
رہا دہشت گردی اور طالبان کا ذکر تو پیپلز پارٹی پانچ سال تک برسر اقتدار رہی ‘بے نظیر بھٹو کے شوہر نامدار آصف علی زرداری نے ایک ایسے مدرسے کو بند کیوں نہ کیا جو دہشت گردوں بالخصوص محترمہ کے قاتلوں کا گڑھ ہے اور موجودہ حکومت تین سال سے منہ میں گھنگھنیاں ڈال کر کیوں بیٹھی رہی؟ جب طالبان سے مذاکرات کے لیے مولانا سمیع الحق کی خدمات حاصل کی گئیں تو کسی کو یہ کیوں یاد نہیں رہا کہ موصوف طالبان کے استاد اور بے نظیر بھٹو کے قاتلوں کے سرپرست ہیں۔ اب باسی کڑھی میں ابال آنے کا سبب عمران دشمنی کے سوا کیا ہے۔؟اگر یہ مدرسہ واقعی دہشت گردوں کی نرسری ہے تو وفاقی حکومت تنقید کے بجائے بندش کا فیصلہ کرے۔
ویسے بھی طالبان تو ضیاء الحق کی پیداوار تھے نہ جنرل پرویز مشرف کے چہیتے‘ انہیں محترمہ بے نظیر بھٹو اور جنرل نصیر اللہ بابر نے پال پوسا‘اپنے بچے قرار دیا ۔ نجی جہاد کی پالیسی بھٹو صاحب نے افغان حکومت اور نیپ کی ریشہ دوانیوں کے ردعمل میں شروع کی اور حکمت یار‘ ربانی اور عبدالرسول سیاف کو پاکستان بلا کر افغان جہاد کی بنیاد رکھی جسے ضیاء الحق‘ بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کے علاوہ پرویز مشرف نے جاری رکھا‘ یہ کسی مدرسے یا مولوی کی اختراع تھی نہ کسی مذہبی جماعت کا منصوبہ۔ معترضین کو صرف عمران خان یا خیبر پختونخوا حکومت پر برسنے سے پہلے ایمانداری سے تاریخ کا مطالعہ کر لینا چاہیے تاکہ تعصب‘ تنگ نظری‘ مذہب اور مدرسے سے بغض کا الزام نہ لگے۔ میاں نواز شریف کے مخلص ساتھیوں میں سے کوئی دل پر ہاتھ رکھ کر یہ کہہ سکتا ہے کہ ماضی میں شریف حکومت نے جامعہ حقانیہ اور مولانا سمیع الحق کو کبھی نہیں نوازا؟ اور مولانا فضل الرحمن‘ اپنے استاد مولانا سمیع الحق کی طرح اپنے آپ کو طالبان کا استاد اور مُربی قرار نہیں دیتے؟
عمران خان نے خیبر پختونخوا کے اس اقدام کا دفاع کر کے یہ ثابت کیا ہے کہ وہ عظمت کا مینار نہ سہی مگر اپنے ارادوں میں پختہ اور دلیرضرور ہے اور محض تنقید سے گھبرا کر معذرت خواہانہ لب و لہجہ اختیار نہیں کرتا۔ ان دنوں مدرسے کا دفاع بعض علماء بھی ڈھنگ سے نہیں کرپاتے اور چونکہ‘ چنانچہ پر اُترآتے ہیں مگر عمران خان؟مولانا کے بقول''یہودیوں کا ایجنٹ‘‘ اور دینی مدارس اور ان کے بے آسرا‘ یتیم‘ بے یارومددگار ‘ طالب علموں کا دفاع؟
پاسبان مل گئے کعبے کوصنم خانے سے!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں