اندر کا خوف‘ احتساب کا ڈر

یہ آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی توجہ حاصل کرنے کا حربہ تھا یا ذرائع ابلاغ کے ذریعے شہرت حاصل کرنے کی خواہش‘ فیصل آباد کا بینر باز‘کامران رہا۔ پندرہ لاکھ روپے کی لاگت سے تو کسی ایک چینل کا اتنا وقت نہیں خریدا جا سکتا جتنا محمد کامران کو ملا۔ چہ جائیکہ صف اوّل کے تمام ٹی وی چینلز اور مقبول اینکر پرسن پرائم ٹائم میں اس سے آن کیمرہ سوال و جواب کریں۔ پوسٹر تو تیرہ شہروں میں لگے مگر ٹی وی چینلز نے دو تین روز تک ہر اس شہری کو دکھائے جو شام کو دن بھر کی تھکاوٹ دور کرنے کے لیے ٹی وی کے سامنے بیٹھ کر ملکی اور بین الاقوامی حالات و واقعات سے باخبر ہونا چاہتا ہے۔
آرمی چیف کو متوجہ کرنے اور حکومت وقت کی نیند حرام کرنے کے لیے اس نوعیت کے پوسٹر اور بینر چسپاں کرنے کا آغاز ہمارے مرحوم دوست میجر(ر) رشید وڑائچ نے کیا تھا۔ 1992-93ء میں جنرل آصف نواز آرمی چیف تھے اور میاں نواز شریف وزیر اعظم پاکستان‘ آج کل میاں صاحب کو پاناما پیپرز نے پریشان کر رکھا ہے اُن دنوں کوآپریٹو سکینڈل ان کا پیچھا کر رہا تھا۔ بے نظیر بھٹو اور نواز شریف پاکستان کے وہ خوش قسمت سیاستدان ہیں جنہیں دوران اقتدار بدعنوانی‘ رشوت ستانی اور اقربا پروری کے الزامات کا سامنا کرنا پڑا‘ ان کی بیرون ملک جائیدادیں منظر عام پر آئیں اور اندرون ملک لوٹ مار کی داستانیں زبان زد عام ہوئیں مگر ''باشعور عوام‘‘ نے انہیں بار بار ووٹ دیا۔ محترمہ کو دو بار اور میاں صاحب کو تین بار وزیر اعظم بننے کا موقع ملا‘ جبکہ مشتاق گورمانی‘ شوکت حیات‘ ممتاز دولتانہ‘ حنیف رامے‘ مخدوم زادہ حسن محمود جیسے پڑھے لکھے‘ ذہین‘ شاطر اور جوڑ توڑ کے ماہر سیاستدان ایک بار وزیر اعظم بننے کی حسرت دل میں لیے دنیا سے رخصت ہو گئے۔
رشید وڑائچ نے ایک بڑا سا فلیکس لکھوایا اور نہر کنارے اپنی اقامت گاہ پر آویزاں کر دیا: ''مر جائے گی مخلوق تو انصاف کرو گے‘‘۔ اس بینر کی تصویر تمام اخبارات میں شائع ہوئی اور میجر رشید وڑائچ کی دھوم مچ گئی۔ 1997ء میں میاں صاحب دوبارہ اقتدار میں آئے تو انہوں نے ایک نمائشی سا ادارہ بنا کر رشید وڑائچ کو اس کا ڈائریکٹر جنرل بنا دیا۔ 1999ء میں جنرل پرویز مشرف نے 12 اکتوبر کیا تو رشید وڑائچ پکڑے گئے۔ مرحوم بتایا کرتے کہ ایک فوجی افسر کے سامنے پیش کیا گیا‘ جس نے کرختگی سے پوچھا: ''سابق فوجی ہو کر تم نے سنا ہے کہ میاں صاحب کو آرمی چیف کی برخاستگی کا مشورہ دیا‘‘۔ میں نے جواب دیا: ''حضور میں میاں صاحب کا مشیر تھا‘ انہوں نے مشورہ مانگا میں نے دے دیا‘ جنرل پرویز مشرف مجھے اپنا مشیر بنا لیں میں انہیں مشورے دیا کروں گا‘‘۔ کہنے لگے بالفرض ایسا ہو تو کیا مشورہ دو گے؟ میں نے کہا: ''مجھے مشیر بنا کر میاں صاحب کا جو حشر ہوا یہ دیکھ کر بھی جنرل پرویز مشرف مجھے مشیر مقرر کرے گا؟ میں اسے اتنا احمق نہیں سمجھتا‘‘۔
بینر جنوری میں بھی آویزاں ہوئے تھے مگر اب کی بار جمہوریت پسندوں نے آسمان سر پر اٹھا لیا۔ بینر لگانے والے کا فون نمبر درج تھا اور جس جس نے رابطہ کیا اسے بات کرنے کا موقع بھی مل گیا مگر یہ تاثر ملا کہ ملک اور جمہوریت کے خلاف کوئی بڑی سازش پکڑی گئی ہے۔ کوئی ان بینروں کا ملبہ فوج اور خفیہ اداروں پر ڈال رہا تھا اور کسی کو حکومت ملوث نظر آ رہی تھی۔ بعض سیاستدانوں اور تجزیہ کاروں نے تو بینر بازوں کے خلاف آئین کے آرٹیکل چھ کے تحت کارروائی کا مطالبہ بھی کر دیا اور ہرگز نہیں سوچا کہ موجودہ حکومت جنرل پرویز مشرف کے خلاف آئین کے آرٹیکل چھ کے تحت کارروائی کا نتیجہ بھگت چکی ہے۔ اتنی جلد اس جال میں نہیں پھنسے گی۔ جہاں تک ملک میں مارشل لاء کے نفاذ کا معاملہ ہے‘ مخدوم جاوید ہاشمی نے درست کہا کہ وہ بینروں اور مطالبوں کا محتاج نہیں‘ پچھلے سال ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کے وزیر اور ''سوہنے منڈے‘‘ حفیظ پیرزادہ نے مطیع اللہ جان کو انٹرویو دیتے ہوئے تفصیل سے ان حالات و واقعات کا ذکر کیا تھا‘ جو 1977ء میں مارشل لاء پر منتج ہوئے۔ یہ انٹرویو عید کے دنوں میں قند مکرر کے طور پر نشر ہوا۔ پیرزادہ صاحب نے لگی لپٹی رکھے بغیر بتایا کہ انتخابات میں دھاندلی کے الزامات اور صوبائی انتخابات میں عوام کی واضح عدم شرکت کے بعد حکومت اخلاقی ساکھ کھو چکی تھی: احتجاجی تحریک نے انتظامی مشینری مفلوج کر دی تھی اور بھٹو صاحب نے کسی معاہدہ پر پہنچنے کے بجائے وقت گزاری کی کوشش کی۔ پیرزادہ کے بقول 25 جون کو آرمی چیف نے کھل کر بتا دیا تھا کہ سیاستدان کوئی معاہدہ نہ کر پائے تو میرے لیے فوج کا داخلی دبائو برداشت کرنا مشکل ہو گا۔ پیرزادہ صاحب ضیاء الحق کے حامی تھے نہ بھٹو صاحب کے مخالف اور نہ جمہوریت دشمن مگر حقیقت انہوں نے دیانتداری سے بیان کی۔ آخری عمر میں دوسروں کی طرح وہ غلط بیانی نہ کر سکے کہ اقتدار کے بھوکے جرنیلوں نے معاہدہ ہو جانے کے بعد شب خون مارا وغیرہ وغیرہ۔
پاکستان میں اس وقت حالات جس نہج پر پہنچ چکے ہیں وہ فوج کے پیدا کردہ ہیں نہ اپوزیشن ذمہ دار ہے۔ ضرب عضب اور کراچی آپریشن کے ذریعے فوج نے منتخب حکمرانوں کو یہ سہولت فراہم کی کہ وہ امن و امان میں بہتری کا فائدہ اٹھا کر عوام کے حقیقی مسائل و مشکلات غربت‘ افلاس‘ بے روزگاری‘ جہالت اور لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ کریں‘ تعلیم اور صحت کی سہولتیں بہتر بنائیں اور دہشت گردی‘ ٹارگٹ کلنگ‘ بھتہ خوری کے خاتمے میں فوج کا ہاتھ بٹائیں مگر تین سال کے عرصے میں سول حکومت اور انتظامیہ اس قابل بھی نہیں کہ آج اگر فوج سوات‘ وزیرستان اور دیگر شورش زدہ علاقوں‘ رینجرز کراچی اور ایف سی بلوچستان سے واپسی کا فیصلہ کرے تو یہ سول اداروں کے ذریعے اس خلا کو پُر کر سکے جو وردی پوشوں کی واپسی سے پیدا ہو گا۔ پاناما پیپرز منظر عام پر آئے تو حکمران خاندان نے مندرج الزامات کو غلط قرار دیا اور وزیر اعظم نے تحقیقات کا اعلان کیا مگر آج تک قابل اعتماد ٹی او آرز ہی طے نہیں پائے‘ جن کی روشنی میں آزادانہ‘ منصفانہ اور غیر جانبدارانہ تحقیقات ممکن ہوں۔ کراچی میں رینجرز کو شکایت ہے کہ سول حکومت و انتظامیہ تعاون کے بجائے روڑے اٹکاتی ہے۔ گزشتہ روز لاڑکانہ میں صوبائی وزیر داخلہ کے کارندوں نے رینجرز سے کئی مقدمات میں مطلوب شخص اسد کھرل زبردستی چھین کر غائب کر دیا اور پنجاب پولیس کی اہلیت و صلاحیت چھوٹو گینگ کے خلاف کارروائی کے موقع پر سامنے آ چکی ہے۔
مقبوضہ جموں و کشمیر میں قیامت برپا ہے‘ نسل کُشی جاری ہے۔ پیلٹ گن کے استعمال سے ہزاروں کشمیری بینائی سے محروم ہوئے۔ گزشتہ روز سری نگر انتظامیہ نے دہلی سے آئی سرجن طلب کئے‘ جو متاثرین کا علاج کر سکیں مگر آزاد کشمیر اور پاکستان میں ہرگز احساس نہیں ہوتا کہ پاکستان کے وفاداروں پر قیامت گزر گئی ہے۔ 2014ء میں دھرنا اور 2016ء میں پاناما پیپرز کے ہنگامے پر پارلیمنٹ کا اجلاس بہ عجلت طلب کیا گیا اور سیاسی مخالفین کے علاوہ فوج کے بھی لتّے لیے گئے مگر سرینگر میں قیامت صغریٰ برپا ہونے پر کسی کو پارلیمنٹ کا اجلاس بلانے کا خیال آیا نہ آل پارٹیز کانفرنس اور نہ عوامی سطح پر کشمیری عوام سے اظہار یکجہتی کا۔ سیاسی جماعتوں‘ منتخب حکمرانوں اور پارلیمانی اداروں کی اسی غیر فعالیت‘ جمہوری اقدار و روایات کی پامالی‘ عوام کے مسائل و مشکلات سے بے اعتنائی اور فیصلہ سازی کے عمل میں ذاتی پسند و ناپسند سے عوام کی بیزاری میں اضافہ ہوتا ہے اور وہ منتخب حکومتوں و اداروں سے مایوس ہو کر ادھر ادھر دیکھتے ہیں تو میجر رشید وڑائچ اور محمد کامران جیسے لوگوں کو اظہار ذات اور شوق تشہیر کی تکمیل کا موقع ملتا ہے۔ کوئی مانے نہ مانے لوگ ان بینروں میں دلچسپی لیتے اور کسی مسیحا کا بے تابی سے انتظار کرتے ہیں۔ عوام کے جذبات و احساسات کے منافی‘ کوئی بینر مسلم لیگ (ن) کے گڑھ میں آویزاں ہو سکتا ہے‘ نہ میڈیا پر بحث کا موضوع بن سکتا اور نہ جمہوریت خطرے میں پڑ سکتی ہے۔ راحیل شریف نے اپنے ذمے کام خوش اسلوبی سے کیا‘ اپنا فرض نبھایا اور دہشت گردوں کو مار بھگایا۔ سیاستدان اپنے وعدے پورے کر سکے نہ بلند بانگ دعوووں پر عملدرآمد کا اہتمام۔ اپنے گریبان میں جھانکنے کے بجائے راحیل شریف کی مقبولیت سے خائف ہیں اور انہیں مدت ملازمت میں توسیع کا لالچ دے کر نہ صرف اپنے پانچ سال پورے کرنا چاہتے ہیں بلکہ اگلے الیکشن میں تعاون کی امید بھی رکھتے ہیں۔ یہ اندر کا خوف ہے اور احتساب کا ڈر جس نے جمہوریت پسندوں کو چند بینرز سے پریشان کر دیا اور مارشل لاء کے خطرے سے دوچار۔ ڈیوڈ کیمرون استعفے دے کر اتنے پریشان نظر نہ آئے جتنی ہمارے حکمرانوں کی ایوان اقتدار میں حالت دیدنی ہے۔ دو روٹیوں کی بھوک میں تیسری کھانے کا شوق یوں ہی پریشان کرتا ہے۔ مارشل لاء بینرز کا محتاج نہ ایٹمی اسلحہ سے لیس پانچ لاکھ فوج کے سپہ سالار کو محمد کامران جیسوں کی تائید درکار۔ ع
توبہ توبہ، خدا خدا کیجے

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں