بیگانی شادی میں عبداللہ دیوانہ

ترکی میں فوج نے بغاوت بحیثیت ادارہ کی یا ایک مختصر ٹولے نے‘ یہ بحث اب فضول ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ صدر طیب اردوان کے وفادار فوجیوں‘ پولیس کے خصوصی طور پر تیار کیے گئے حفاظتی دستوں اور عوام نے مل کر بغاوت کو فرو کیا اور طیب اردوان اس بحران میں سرخرو ہوئے۔ طیب اردوان سے سیکولرازم اور اتاترک کی قائم کردہ سیکولر روایات کی محافظ فوج خوش ہے نہ امریکہ بہادر‘ اپوزیشن اور مادر پدر آزادی کا علمبردار میڈیا اور نہ امام فتح اللہ گولن کی خدمت تحریک۔
امریکہ طویل عرصہ تک خطے میں ترک فوج کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتا رہا اور نیٹو میں ترکی کا کردار امریکہ کے گماشتہ کا رہا مگر2003ء میں پہلی بار امریکہ نے عراق کے خلاف کارروائی کے لیے ترکی سے مدد طلب کی تو اردوان نے پچیس ارب ڈالر کی پیشکش ٹھکرا کر امریکہ کو ٹکا سا جواب دیدیا ۔کہا کہ پارلیمنٹ تیار نہیں۔ امریکہ کے لیے یہ انکار شرمندگی کا باعث تھا۔ عالم اسلام کی واحد نیوکلیئر پاور پاکستان کے فوجی سربراہ جنرل پرویز مشرف نے جنرل کولن پاول کی ایک فون کال پر نہ صرف تمام مطالبات تسلیم کئے بلکہ ایک ایسے ملک کے خلاف بمباری کے لیے اپنی فضائی حدود استعمال کرنے کی اجازت دی جو ہمسایہ‘ دوست اور غیر ملکی فوجی مداخلت کا شکار تھا۔ مصر میں امریکی سرپرستی میں فوجی مداخلت اور دیگر کئی مواقع پر اردوان نے باوقار اور آزادانہ موقف اختیار کیا جبکہ دو اڑھائی سال قبل اردوان کی اسلام پسندانہ پالیسیوں کے خلاف اپوزیشن اور نام نہاد سول سوسائٹی نے مورچہ لگایا تو اردوان نے ان کے سرپرست امریکہ اور یورپ کو کھری کھری سنائیں۔ مسجدوں کو اپنے قلعے‘ مساجد کے گنبد وں کو ہیلمٹ اور میناروں کو نیزے قرار دینے والے اردوان سے دنیا بھر کے مذہب بیزار اور اسلام دشمن عناصر شاکی ہیں اور ترکی کا نام نہاد روشن خیال اور لادینیت کا پرچار کرنے والا میڈیا بھی۔ جبکہ اتاترک کی مذہب بیزارباقیات فوجی جرنیلوں کی عوام دشمن پالیسیوں کا مزہ چکھنے والی قوم بالخصوص نوجوان نسل اس کی پرجوش حامی ہے کیونکہ اردوان اور اس کے عبداللہ گل جیسے ساتھیوں نے ترکی کو ایک بار پھر عظمت رفتہ کی راہ دکھائی‘ عوام کو اپنے پائوں پر کھڑا کیا‘ معاشی آسودگی کو یقینی بنایا‘ مسجدیں آباد کیں اور مقروض ریاست کو خود کفیل ریاست میں بدل دیا۔
فتح اللہ گولن کے پیروکاروں کی مخالفت اس بنا پر ہے کہ اردوان نے مولانا روم کے پیروکار اس صوفی سکالر کے قائم کردہ سکولوں کو سرکاری تعلیمی نظام میں مدغم کرنے اور فوج‘ عدلیہ ‘بیوروکریسی اور پولیس میں موجود پرجوش حامیوں کو خدمت تحریک کے بجائے ریاست اور حکومت کی وفاداری پر آمادہ کرنے کی کوشش کی۔ بین المذاہب ہم آہنگی کے گولن تصور کو بالائے طاق رکھ کر ترک شہریوں کی مذہبی شناخت کو اجاگر کیا۔ اردوان مذہبی شعائر پر اتا ترک دور کی پابندیوں کو ختم کرنے پر کمر بستہ ہے جس سے ترکی میں آباد بعض غیر مسلم گروہوں بالخصوص آرمینیائی باشندوں اور اسرائیل کو تکلیف پہنچی۔فلسطینیوں کی حمایت اور جنرل سیسی کی مخالفت نے بھی گولن کو ناراض کیا۔
باغیوں کے سرغنہ جنرل باقر آکن اوز ترک کی اس ایئر بیس میں موجودگی جو امریکہ کے زیر استعمال ہے اور باغی طیاروں کی اسی ایر بیس میں ری فیولنگ سے اس سازشی تھیوری کو تقویت ملی کہ بغاوت میں امریکہ کا کچھ نہ کچھ کردار ہے جبکہ جنرل آکن اوز ترک چند ہفتے پہلے تک صدر اردوان کے قریب تھے، اس قدر قریب کہ صدر جمہوریہ کی صاحبزادی کی شادی کے موقع پر جو سرکاری تصویر جاری ہوئی اس میں موصوف صدر اور خاتون اول کے ساتھ کھڑے ہیں۔ موصوف کی مدت ملازمت میں توسیع اور سکیورٹی کونسل میں اہم عہدے پر تعیناتی تک کسی کو علم نہ تھا کہ آکن اسرائیل میں خدمات انجام دے چکے اور کسی باغی گروہ کے ساتھ رابطے میں ہیں۔ باغی فوجی آرمی چیف خلوصی آقار، ایئر چیف اور نیول چیف کو یرغمال بنانے ‘ ٹی وی چینلز پر قبضہ کرنے اور ایف سولہ طیاروں اور ہیلی کاپٹر کو فضا میں اڑا کر اپنی طاقت کا بھر پور مظاہرہ کرنے کے بجائے ناکام کیوں ہوئے ؟حالانکہ ابتدائی مراحل میں امریکی اور یورپی میڈیا نے ان کی بھر پر مدد کی۔ترکی عوام کے علاوہ پوری دنیا کو یہ تاثر دیا کہ فوج ملک پر قابض ہو چکی‘ مارشل لاء اور کرفیو نافذ اور اہم حکومتی سرکاری عہدیدار گرفتار ہیں جبکہ صدر اردوان بیرون ملک فرار ہو چکے ہیں۔ یہ اہم سوال ہے مگر جواب مشکل نہیں کہ عوام اور باقی ماندہ فوج کے لیے عسکری اقتدار میں کسی قسم کی کشش تھی نہ اردوان اور ان کے جفا کش ساتھیوں سے نفرت۔ عوام جمہوریت نامی بت کی پوجا کے لیے نہیں ایک ایسی حکومت اور سیاسی قیادت کے حق میں سڑکوں پر نکلے جس نے ملک کو ترقی اور قوم کو خوشحالی سے ہمکنار کیا اور ترکی کو عالمی برادری میں عزت و عظمت سے نوازا۔ جمہوریت کے لیے نکلنا ہوتا تو عوام 1960‘1980اور 1997ء میں نکلتے جب فوجی جرنیلوں نے شب خون مارا اور منتخب حکمرانوں کو برطرف کیا۔ عوام ماضی کے تجربات کی روشنی میں اپنے عقیدے ‘ نظریے ‘ آسودگی اور بہتر معاشی مستقبل کے تحفظ کے لیے نکلے اور ایک ایسی سیاسی قیادت کی آواز پر جو جھوٹ بولتی ہے نہ اپنے مفادات کے لیے عوام کے مستقبل اور ملک کی آزادی و خود مختاری کا سودا کرتی ہے اور نہ مشکل وقت میں عوام کو فوجی آمروں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیتی ہے۔
بغاوت کے خاتمے کے بعد اردوان نے جلد بازی میں جو اقدامات کیے وہ البتہ تشویش ناک ہیں، کسی مفصل انکوائری کے بغیر فتح اللہ گولن پر الزام اور امریکہ سے واپسی کا مطالبہ‘ مشتبہ فوجیوں کی گرفتاری کے ساتھ ہی اڑھائی ہزار سے زائد ججوں کی برطرفی اور آپریشن کلین ا پ کا اعلان مخالفین کے علاوہ اردوان کے حامیوں اور خیر خواہوں کے لیے پریشان کن ہے۔ ان اعلانات اور اقدامات سے انتقام کی بو آتی ہے اور اتنے بڑے جھٹکے کے بعد معاملات کو سدھارنے کے بجائے نئے محاذ کھولنے کے مترادف۔ ہزاروں کی تعداد میں برطرفیوں ‘ فوجیوں کی سرِ عام تذلیل اور خدمت تحریک پر الزامات سے فوج اور عدلیہ میں منفی ردعمل پیدا ہونا فطری ہے اور یہ تاثر پختہ ہو رہا ہے کہ اردوان ایک بالغ نظر مدبّر کے بجائے ہر موقع پر سیاسی فائدہ اٹھانے والے سیاستدان ہیں جو اپنے راستے کی رکاوٹوں کا ایک ہی بار قلع قمع کرنے میں مصروف ہے۔ حالانکہ چودہ سالہ اقتدار کے بعد اب اردوان کو مہاتیر محمد اور نیلسن منڈیلا کی طرح ملکی معاملات اپنے جانشینوں کے سپرد کر کے بابائے قوم کے طور پر ان کی رہنمائی کرنی چاہیے تاکہ اپنی زندگی میں ہی اپنی تیار کردہ سیاسی کھیپ کی بہتر کارگزاری کا نظارہ کر سکیں۔ عبداللہ گل اور احمد اوولو کے ساتھ اختلافات کے بعد اردوان کا جانشین کون ہو گا؟ قوم کو یہ بھی معلوم نہیں۔
خدا کرے کہ اردوان بحران سے نکلنے کے بعد اپنے دفتر عمل پر ناقدانہ نگاہ ڈالیں‘ اسے محض مقامی نوعیت کی مخالفانہ سرگرمی کے بجائے عالمی سطح پر گریٹ گیم کا حصہ سمجھیں اور گزشتہ تین چار سال کے دوران کی گئی اپنی اور اپنے ساتھیوں کی غلطیوں کا جائزہ لیں‘ احتساب اور انتقام میں فرق روا رکھیں اور عالم اسلام کو ترکی سے جو توقعات وابستہ ہیں ان پر پورا اترنے کے لیے تدبر‘ تحمل اور دوراندیشی کا مظاہرہ کریں۔ امیر تیمور گرگانی کا قول ہے کہ میری کمزوری میرے دشمن کی قوت ہے‘ اردوان اپنی کسی کمزوری کو دشمن کی طاقت میں تبدیل نہ ہونے دیں کہ منزل یہی کٹھن ہے قوموں کی زندگی میں۔
پاکستان کے عوام‘ سیاست دانوں اور حکمرانوں کے لیے ترکی کے حالیہ واقعات میں یہ سبق پوشیدہ ہے کہ منتخب حکومت کا دفاع جمہوریت کے ثمرات سے فیضاب عوام اور منظم سیاسی جماعتوں کے بے لوث‘ بے ریا‘ نڈر اور ایماندار کارکن کرتے ہیں، تنخواہ دار کارندے اور مناصب و مراعات کے بھوکے غرض کے بندے نہیں۔جتّھے ویکھاں توّا پرات، اُتھے گانواں ساری رات! 1977ء میں انتخابی دھاندلی کے خلاف تحریک میں سیاسی و مذہبی کارکنوں نے ''لاٹھی‘ گولی کی سرکار نہیں چلے گی‘‘ کا نعرہ لگایا۔ بندوقوں کے سامنے سینہ تان کر کھڑے ہوئے اور گولیوں کی بوچھاڑ میں ترکی کے سیاسی کارکنوں کی طرح اللہ اکبر کا نعرہ لگایا۔ جس طرح اردوان کے پیروکار مسجدوں سے نکل کر ٹینکوں کے سامنے آئے اسی طرح 1977ء میں بھی کارکنوں نے مسجدوں کو تحریک کا مرکز بنایا اور قربانیوں کی عظیم داستان رقم کی مگر سیاسی و مذہبی قیادت بے وفا نکلی اور دانشوروں و قلم کاروں نے یہ راگ الاپنا شروع کر دیا کہ یہ بحالی جمہوریت کی تحریک نہیں، امریکہ کی سازش تھی اورکارکنوں نے کسی اعلیٰ مقصد کے لیے نہیں صرف ضیاء الحق کی فوجی آمریت ملک پر مسلط کرنے کے لیے قربانیاں دیں۔ بیلٹ بکس کا تقدس پامال کرنے والے جمہوریت کے چیمپئن اور ہیرو ٹھہرے اور دھاندلی مارکہ سول آمریت کے خلاف سینہ سپر لوگ ولن۔۔۔۔!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں