قوت برداشت

دوسروں کا تو علم نہیں بغاوت کے بعد طیب اردوان کے غیر حکیمانہ طرزعمل نے مجھے پریشان کیا۔ پہلی بار اقتدار میں آنے سے آخری انتخاب جیتنے تک تحمل و برداشت‘ کشادہ قلبی اور رواداری کا مظاہرہ کرنے والا روشن خیال حکمران آخر اس قدر مشتعل کیوں ہے؟ فوجی بغاوت کی ناکامی کا غصہ امام فتح اللہ گولن سے روحانی وابستگی رکھنے والے ججوں‘ پولیس افسروں‘ اساتذہ اور غریب سرکاری ملازمین پر کیوں نکال رہا ہے۔ یونیورسٹیوں کے ڈین اور نچلی سطح کے جج کیا‘ فوجی بغاوت کی کامیابی میں کوئی کردار ادا کر سکتے ہیں۔
بغاوت کا سرغنہ گرفتار ہو چکا ہے‘ فوج میں چھانٹی پر کسی کو اعتراض نہیں تاکہ دوبارہ کسی کو منتخب نظام کے خلاف بغاوت کی جرأت نہ ہو مگر شفاف تحقیقات کے بغیر عدلیہ‘ تعلیمی اداروںاور دوسرے شعبوں کی تطہیر کیا انصاف ہے یا سراسر انتقام؟ انسان بالخصوص حکمران کی پہچان عیش کے دنوں میں ہوتی ہے یا جب وہ طیش میں ہو ؎
ظفر آدمی اس کو نہ جانیے گا‘ ہو وہ کیسا ہی صاحب فہم وذکا 
جسے عیش میں یادِ خدا نہ رہی جسے طیش میں خوف ِخدا نہ رہا
حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم پر ابن ملجم نے وار کیا‘ تلوار زہر میں بجھی تھی اور زخمی کرنے کے بعد قاتل نے برملا یہ کہا امیر المومنین کا بچنا محال ہے کیونکہ یہ زہر پورے شہر کو زندگی سے محروم کرسکتا ہے مگر حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم نے قاتل کی گرفتاری کا حکم دیا اور گرفتاری کے بعد جب ابن ملجم آپ کے سامنے لایا گیا تو فرمایا''اسے گرفتار رکھو‘ قید میں حسن سلوک کا معاملہ کرو‘ اگر زندہ رہا تو سوچوں گا کہ کیا کروں؟ معاف کروں یا قصاص لوں۔ اگر مر جائوں تو ایک جان کا بدلہ ایک جان سے لیا جائے اور اس کا مُثلہ نہ کیا جائے‘‘۔ اپنے صاحبزادگان امام حسنؓ اورامام حسینؓ کو وصیت کی''تم کہو گے امیر المومنین قتل کر دیئے گئے مگر خبردار سوائے میرے قاتل کے کسی اور کو قتل نہ کرنا دیکھو اگر میں اس کے وار سے مر جائوں تو اس پر بھی ایک ہی وار کرنا‘‘۔
یہ ایک خدا ترس مثالی حکمران کا طرز عمل تھا جس نے موت کو سامنے دیکھ کر بھی اپنے حواس برقرار رکھے‘ طبیعت انتقام پر آمادہ نہ ہوئی اور اس سنگین واقعہ کو اپنے مخالفین یعنی خوارج کے خلاف وسیع پیمانے پر کارروائی کے لیے استعمال نہ کیا‘ایسا ہی حکمران موت کی آنکھوں میں آنکھ ڈال کر کہہ سکتا ہے‘ فُزت برب کعبہ(رب کعبہ کی قسم میں کامیاب ہو گیا) انصاف کے تقاضے پورے کرنا اور انتقام سے بچنا سب سے بڑی کامیابی ہے۔ حکمرانی صبر و تحمل اور برداشت کا مطالبہ کرتی اور کامیابی کی کلید سمجھی جاتی ہے جبکہ انتقام معاشرے کو تقسیم اورمخالفین کو آمادہ فساد کرتا ہے۔ یہ تاریخ کا سبق ہے۔ یہی قوموں کے عروج و زوال کی کہانی اور ریاستوں کی بقاء و دوام‘ اتحاد و استحکام کا نسخہ ہے مگر اردوان اور ان کے ساتھیوں نے ایک ہفتہ میں ہزاروں لوگوں کی گرفتاری سے پوری اسلامی دنیا میں جنم لینے والی ہمدردی کو مایوسی میں بدل دیا ہے۔ اردوان کے حامی اور خیر خواہ ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں کہ اپنی قوم کو حُزن و ملال کے بجائے حوصلے اور استقلال کی تلقین کرنے والا رہنما اس قدر خوفزدہ کس سے ہے، فتح اللہ گولن اگر اس بغاوت کے پیچھے تھا بھی تو اس کی رفاہی تنظیم‘ تعلیمی اداروں اور روحانی سلسلے سے وابستہ ہر ترک شہری کو گرفتار‘ ملازمت سے برخاست اور پریشان کرنے کا کیا جواز ہے؟ حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کا قول ہے کہ '' زندگی کے ہر موڑ پر صلح کرنا سیکھو۔ کیونکہ جھکتا وہی ہے جس میں جان ہوتی ہے اکڑنا تو مُردوں کی پہچان ہے‘(مردہ جسم بے لچک ہوتا ہے)
تاریخ میں حکمرانوں کی قوت برداشت کے بعض واقعات پڑھ کر آدمی حیران رہ جاتا ہے اگرچہ ان واقعات کا تعلق کسی بغاوت یا اپنے مخالفین کے ساتھ سلوک سے نہیں ۔
سعودی عرب کے پہلے فرمانروا امیر عبدالعزیز السعود کی سوانح حیات میں ایک واقعہ قبائلی سرداروں سے ملاقات کا درج ہے۔ امیر عبدالعزیز السعود کے ساتھیوں نے دیکھا کہ ملاقات کے دوران شاہ کے چہرے پر بار بار تکدّر اور تکلیف کے آثار پیدا ہوتے اور وہ بولتے بولتے اچانک خاموش ہو جاتے ہیں۔ ملاقات شیڈول کے مطابق اختتام پذیر ہوئی۔ شاہ نے ہر مہمان کو گلے سے لگا کر احترام سے رخصت کیا۔ محل کے رہائشی حصے میں جاتے ہوئے شاہ کی چال ڈھال سے جلد بازی کا تاثر ملا نہ کسی پریشانی اور ہیجان کا۔ کمرے میں پہنچ کر شاہ نے اپنا کرتا اتارا تو پتہ چلا کہ ایک بچھو نے جگہ جگہ کاٹ کر جسم کا رنگ نیلا کر دیا ہے اور زہر پورے جسم میں پھیل گیا ہے۔ شاہ سے پوچھا گیا کہ انہوں نے محفل برخاست کیوں نہ کی تو جواب ملا: یہ مہمانوں کی توہین اور شاہی آداب کی نفی ہوتی ۔یہ سردار کی قوت برداشت کا امتحان تھا جس میں مجھے پورا اترنا تھا۔
ہندوستان کے پہلے مغل حکمران ظہیر الدین بابر سے کسی نے پوچھا، آپ نے زندگی میں کتنی کامیابیاں حاصل کیں۔ جواب ملا،صرف ڈھائی۔ ایک کامیابی جنگل میں اژدھے سے لڑائی تھی‘ دوسری خارش کا مقابلہ تھا اور آدھی مغل سلطنت کا قیام۔ خارش کے مقابلے میں کامیابی کا قصّہ یوں ہے کہ ایک بار بادشاہ کو خارش کے مرض نے آ لیا۔ طبیبوں نے علاج شروع کیا مگر مرض قابو میں نہیں آ رہا تھا۔ شدّت کا یہ عالم کہ لباس پہن کر بیٹھنا محال‘ بیماری کی خبر پھیلی تو پرانے حریف شیبانی خان نے پیغام بھیجا کہ وہ عیادت کے لیے آنا چاہتا ہے۔ کورا جواب دینا مردانگی اورشاہی آداب کے خلاف تھا اور مریضوں والے لباس میں حریف کے سامنے آنا ذلّت آمیز۔ شیبانی خان کو ملاقات کا وقت دے دیا گیا۔ شیبانی خان آئے، بابر نے مکمل شاہی لباس میں استقبال کیا۔ کافی دیر تک بیٹھا گپ شپ کرتا رہا مگر شدید تکلیف میں بھی ایک بار جسم کے کسی حصہ پر ہاتھ پھیرا نہ حریف کو احساس دلایا کہ وہ جلد رخصت ہو۔
شکسپیئر کا قول ہے''کچھ لوگ پیدائشی عظیم ہوتے ہیں‘ کچھ محنت سے عظمت حاصل کرتے ہیں اور بعض پر عظمت مسلط ہو جاتی ہے‘‘ مسلم دنیا کی صرف سیاسی نہیں مذہبی قیادت کا المیہ ہے کہ محنت سے عظمت حاصل کرنے والے ہوں یا اتفاقیہ عظمت کا بار اٹھانے والے‘ بحران میں ضبط‘ تحمل‘ برداشت‘ انصاف ‘ صلح‘ مفاہمت کا دامن چھوڑ کرہیجان و اضطراب ‘ جنگجوئی ‘ انتقام کی راہ پر چل نکلتے ہیں۔ ناگزیریت کا احساس اور بالادستی کی خواہش‘ ان کی عظمت کو گہنا اور راستہ کھوٹا کر دیتی ہے۔ اردوان گزشتہ تیرہ چودہ سال سے ترکی کا حکمران ہے اور عظمت اس پر ٹوٹ کر برسی۔ وہ پوری دنیا میں اسلام کی نشاۃ ثانیہ کے خواہش مند خوش عقیدہ مسلمانوں کی توقعات کا مرکز ہے اور ترک عظمت رفتہ کی بحالی کی علامت۔ ملک میں اس کی قوت اور اثاثہ فوج ہے نہ ایف ایس ایف کے انداز میں کھڑی کی گئی سپیشل پولیس فورس اور نہ اتاترک کی دل و جان سے پیرو کار‘ سیکولرازم کی علمبردار اپوزیشن جس نے حالیہ بحران سے فائدہ تو نہیں اٹھایا مگر اب اردوان کے آمرانہ اقدامات کے خلاف متحد ہو رہی ہے کیونکہ مضبوط اردوان اس کے لیے قابل قبول نہیں۔اردوان کی اصل قوت وہ ''اسلامسٹ‘‘ ہیں جو پنسلوانیا میں مقیم امام فتح اللہ گولن کی تعلیمات اور تربیت سے متاثر‘ ترکی کی عظمت رفتہ کے خواب دیکھتے اور اسے ایک بار پھر مولانا روم ؒاور بدیع الزمان سعید نورسیؒ کا ترکی بنانے کا عزم رکھتے ہیں۔اردوان اس شاخ کو کاٹنے پر کمر بستہ نظر آتے ہیں جس پر بیٹھ کہ وہ اقتدار کے مزے لوٹ رہے ہیں۔ باغیوں کا قلع قمع اور بغاوت کے جراثیم کا خاتمہ از بس ضروری ہے مگر تحمل و تدبر سے‘ ہیجان و اضطراب کے بغیر اور انتقام کے بجائے عدل و انصاف کے جذبے اور تقاضوں کے ساتھ۔ حکمران خواہ منتخب ہو یا غیر منتخب‘ بادشاہ ہو یا فوجی آمر اس کی قوت برداشت اپنے شہریوں سے کہیںزیادہ اور مثالی ہونی چاہیے۔
فیلڈ مارشل ایوب خان کی عادت تھی کہ وہ صبح کی چائے اور سگریٹ ایک ساتھ پیتے۔ ان کا بٹلر صبح صبح انہیں سگریٹ کا پیکٹ اور چائے اکٹھے پیش کرتا۔ مشرقی پاکستان کے دورے میں بنگال بٹلر سگریٹ پیش کرنا بھول گیا، فیلڈ مارشل نے بٹلر کو غصے میں بُرا بھلا کہا ‘ بٹلر خاموش کھڑا سنتا رہا اور پھر بولا ''صاحب! اس ملک کا کیا بنے گا جس کی فوج کا سربراہ سگریٹ نہ ملنے پر پاگل ہو جاتا ہے‘‘ایوب خاں یک دم سنبھلے‘ بٹلر سے معذرت طلب کی اور آئندہ زندگی بھر سگریٹ کو ہاتھ نہ لگایا۔ مگر یہ پرانے زمانے کی باتیں ہیں‘اب بغاوت فوج کرتی ہے اور عوام کو قرآنی آیات اورسیرت رسولؐ کے واقعات سنانے والا حکمران یونیورسٹی کے اساتذہ پر چڑھ دوڑتا ہے۔ قصور؟۔ یہ گولن کی تعلیمات سے متاثر ہیں لہٰذا سازش میں حصہ دار اور باغیوں کے ساتھی!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں