نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پاہے رکاب میں

یہ مومنانہ فراست تھی‘ اپنے ساتھیوں کی ذہنی کم مائیگی کا احساس یا نوزائیدہ مملکت کو درپیش چیلنجوں کا ادراک؟ قائدؒ نے قیام پاکستان سے چار دن قبل اُن خرابیوں کی نشاندہی کی جن سے ہم آج دوچار ہیں۔
11 ؍ اگست 1947ء کی مشہور زمانہ تقریر کو ہمارے ترقی پسندوں نے سیکولر بیانیہ قرار دے کر سخت زیادتی کی‘ اسلامی نظام کے نام لیوائوں نے بھی اُن دو سطروں پر سارا زور بیان صرف کیا جو برصغیر کے طول و عرض میں فسادات کی پریشان کن خبروں اور ہندو و انگریزی پریس کے مخالفانہ پروپیگنڈے سے کبیدہ خاطر ایک قومی رہنما کی تقریر کا حصہ تھیں‘ مقصد پاکستان میں بسنے والی اقلیتوں بالخصوص خوفزدہ ہندوئوں کو یہ یقین دہانی کہ برصغیر میں کوئی تنگ نظر مذہبی ریاست قائم نہیں ہو رہی، جہاں اقلیتوں کے حقوق محفوظ نہ ہوں اور کسی سے اس کے مذہب اور فرقے کی بنا پر ناانصافی ہو۔ انگلستان میں دو مذہبی فرقوں کے مابین تصادم ہوا اور ہندوستان میں کانگریسی حکومتیں قائم ہونے کے بعد مسلمانوں کے ساتھ گاندھی کے چیلوں اور پٹیل کے پیروکاروں نے ناانصافی روا رکھی۔
تقریر کا یہ حصہ بھی سیکولر بیانیہ نہیں، میثاق مدینہ کی طرز پر ایک اسلامی ریاست میں غیر مسلموں کو حاصل حقوق و مراعات کی یقین دہانی ہے جس کو پہلی دستور ساز اسمبلی میں موجود مذہبی پیشوائوں مولانا عبدالحامد بدایونی‘ مولانا شبیر احمد عثمانی اور دیگر نے چیلنج کیا نہ بعد میں آنے والوں نے قابل اعتراض سمجھا۔ اسمبلی کے ریکارڈ اور مصدقہ مواد میں شامل اس تقریر کے بارے میں یہ تہمت طرازی بعد میں ہوئی کہ کسی نے اس کے ایک حصے پر پابندی لگائی یا تبدیلی کی کوشش کی۔ پوری تقریر کو البتہ ہماری حکمران اشرافیہ نے کبھی درخور اعتنا نہیں سمجھا۔ پاکستان اور مسلم لیگ پر سیاسی‘ فکری اور عملی تسلط حاصل کر کے جاگیرداروں‘ وڈیروں‘ سرمایہ داروں ‘دیگر مفاد پرستوں اور ان کے گماشتہ مذہبی رہنمائوں‘ دانشوروں اور تذکرہ نویسوں نے بھرپور کوشش کی کہ تقریر کے وہ حصے منظر عام پر نہ آئیں جو پاکستان کو جدید‘ پُرامن، روشن خیال‘ خوشحال اور سماجی و معاشی استحصال سے پاک ریاست بنانے میں مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔ مذہبی ریاست اور سیکولرازم کی بحث اسی مقصد کے لیے چھیڑی گئی کہ دایاں اور بایاں بازو لایعنی بحث میں الجھا رہے اور بدعنوان عناصر لوٹ مار جاری رکھیں۔
قائداعظمؒ نے قوم کو خبردار کیا تھا: ''حکومت کی اصل اور بنیادی ذمہ داری امن و امان کا قیام ہے‘‘ انہوں نے کرپشن و رشوت ستانی‘ اقرباء پروری‘ مذہبی، لسانی‘ نسلی و تعصبات اور ذخیرہ اندوزی کو ملک و قوم کے لیے زہر قاتل قرار دیا‘ مگر کمال عیاری سے پوری تقریر کو بالائے طاق رکھ کر صرف مسلمانوںاور ہندوئوں کواپنی عبادت گاہوں میں جانے کی آزادی والی سطروں پر غیر منطقی دلائل کا طومار باندھا گیا اور اقربا پرور‘ کرپٹ حکمران اشرافیہ کے علاوہ اس کے زیر سایہ پروان چڑھنے والے مفاد پرست طبقات بالخصوص نسلی و لسانی فرقہ پرستوں‘ ذخیرہ اندوزوں اور رشوت خوروں کو موقع فراہم کیا گیا کہ وہ جس حد تک ممکن ہے قومی وسائل کو لوٹ کر اندرون و بیرون ملک اثاثوں میں اضافہ کریں‘ اگلی نسلوں کے اقتدار کو یقینی بنائیں‘ عوام کے خون پسینے کی کمائی سے پرتعیش زندگی گزاریں‘ اپنے قصیدہ خواں خوشامدیوں کو نوازیں اور قومی اداروں کو اُن ندیدوں کی تحویل میں دیدیں جنہیں صرف اجاڑنے کا ہُنر آتا ہے۔اقتدار میں آ کر امن و امان قائم کریں نہ قاتلوں‘ اغوا کاروں کی سرکوبی، کوئی اُن سے پوچھنے والا نہیں‘ کسی کو نظریاتی بحث سے فرصت ہی نہیں۔ آج پاکستان کے عوام جن مصائب سے دوچار ہیں۔۔۔۔ غربت و افلاس‘ جہالت‘ پسماندگی‘ بے روز گاری‘ بدامنی اور دہشت گردی نے ان کا جینا حرام کر دیا ہے اور بھتہ خوروں‘ اغواء کاروں اور لٹیروں نے ان کی رات کی نیند دن کا چین چھین لیا ہے۔ وہ اس اقربا پروری‘ کرپشن‘ ذخیرہ اندوزی اور مذہبی‘ نسلی‘ لسانی تعصبات کا کیا دھرا ہے جس کی روک تھام کے لیے کہا جائے تو حکمران اشرافیہ کو پاگل پن کے دورے پڑنے لگتے ہیں اور ان کے وظیفہ خواروں کو جمہوریت خطرے میں نظر آنے لگتی ہے۔ان سنگدلوں کو بچوں کا اغوا نظر آتاہے‘ نہ مفلس اور بے بس ماں باپ کی خودکشی اور نہ مائوں کے ہاتھوں بچوں کو دریا برد کرنے کے شرمناک واقعات کی خبر، ان کی ترجیحات میں پی آئی اے کی پریمیٔر سروس ہے اور اربوں کے کھابہ منصوبے۔ 
کوئٹہ دھماکے کے بعد حکمران خوفزدہ تھے‘ اس قدر زیادہ کہ یوم آزادی کی سرکاری تقریبات کھلے مقامات سے بند کمروں میں منتقل کر دی گئیں۔ دُشمن کی خواہش تھی کہ پاکستانی عوام یوم آزادی جوش و خروش اور ولولے سے نہ منا سکیں مگر مصائب کی ماری قوم نے ہمت ہاری نہ خودکش بمباروں اور کل بھوشن کے یاروں سے مرعوب ہوئی۔ پاکستان کے عوام سے زیادہ جوش و جذبے کا مظاہرہ مقبوضہ کشمیر کے عوام نے کیا۔ سرینگر میں پاکستان کا پرچم لہرا کر انہوں نے مودی سرکار کو باور کرایا کہ ؎
تیغوں کے سائے میں ہم پل کر جواں ہوئے ہیں
خنجر ہلال کا ہے قومی نشان ہمارا 
یہ ان دانشوروں کے مُنہ پر طمانچہ تھا جو اب بھی قوم کو گمراہ کرتے ہیں کہ کشمیری عوام بھارت کی طرح پاکستان سے بھی بیزار ہیں۔ ''پاکستان کا رشتہ کیا‘ لا الہ الا اللہ‘‘ کا نعرہ لگا کر پیلٹ گن کے چھروں سے اپنا جسم چھلنی کرانے والے کشمیری عوام پر یہ تہمت صرف وہی لگا سکتا ہے جس کے دل میں خوف خدا ہے نہ آنکھ میں شرم و حیا۔
پاکستان دشمنوں کی آنکھ کا کانٹا ہے، صرف آنکھ نہیں دل و دماغ کا بھی‘ دہشت گردی‘ ٹارگٹ کلنگ اور تخریب کاری کے ذریعے اسے زیر کرنے کی تدبیریں دم توڑ رہی ہیں۔ مقبوضہ جموں و کشمیر میں مزاحمتی تحریک نے بھارت کو چیخ و پکار پر مجبور کر دیا ہے جو کمزوری کا اظہار ہے۔ بھارتی وزیر داخلہ راجناتھ سارک کو فتح کرنے کے ارادے سے اسلام آباد وارد ہوئے مگر واپس لوٹے تو سابق وزیر مانی شنکر نے پھبتی کسی کہ ناکام دورے کے بعد لوٹ کے بدھو گھر کو آئے۔ 11 ؍ اگست 1947ء سے 14 ؍ اگست 2016ء کے سفر میں پاکستان سے غلطیاں سرزد ہوئیں‘ عوام کے حصہ میں محرومیاں اور مایوسیاں بھی آئیں اور بدمعاش جاگیرداروں‘ ظالم وڈیروں‘ کرپٹ حکمرانوں‘ اقربا پرور سیاستدانوں کے علاوہ سول و خاکی بیورو کریسی نے ملک کو جی بھر کر لوٹا‘ یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے مگر کامرانیوں کی فہرست بھی طویل ہے۔ پانچ گنا بڑے‘ طاقتور‘ باوسیلہ اور مکار دُشمن کے مقابلے میں بقا کی جنگ اور اپنی سٹرٹیجک پوزیشن کا تحفظ‘ نیوکلیئر صلاحیت کا حصول اور فاٹا سے کراچی تک دُشمنوں کی ریشہ دوانیوں‘ سازشوں اور جنگی کارروائیوں کا دفاع معمولی کارنامہ نہیں۔ اصل خطرہ مگر داخلی ہے، اس زہر کا تریاق ڈھونڈھنا لازم‘ جس کی نشاندہی قائداعظمؒ نے 11 ؍ اگست 1947ء کی تقریر میں کی۔
موجودہ آدم خور اور عوام دُشمن سیاسی‘ اقتصادی‘ سماجی اور انتخابی ڈھانچہ کرپشن میں اضافہ کر سکتا ہے، خاتمہ ہرگز نہیں‘ اقربا پروری کو فروغ دے رہا ہے، راستے میں رکاوٹ نہیں اور مذہبی‘ لسانی‘ نسلی تعصبات کی آبیاری میں مصروف ہے۔ بیخ کنی کا روادار ہرگز نہیں۔ حالت جنگ میں بھی جو فرسودہ اور ناکارہ نظام نیشنل ایکشن پلان کی آٹھ شقوں پر عملدرآمد کے لیے تیار ہے نہ کسی اور کو راستہ دینے پر آمادہ۔ آرمی چیف جنرل راحیل شریف کو بھی مختلف ترغیبات اور دبائو سے زیردام لانے کے درپے ہے۔ فوجی قیادت بلاامتیاز و بلاتفریق احتساب کی بات کرے‘ پاناما سکینڈل کے بارے میں شفاف تحقیقات کا مطالبہ ہو اور دہشت گردی کے سہولت کاروں‘ مالیاتی مددگاروں پر ہاتھ ڈالنے کی اجازت مانگے تو حیلوں بہانوں سے ٹال مٹول سے کام چلایا جائے۔ پاکستان کی بقا و استحکام‘ آزادی و سلامتی کو اصل خطرہ لوٹ مار کے اس نظام سے ہے جس پر جمہوریت کا لیبل لگا کر ہم مطمئن ہیں۔ اس نظام کو کوئی ٹاسک فورس بچا سکتی ہے نہ کرپٹ عناصر کی ملی بھگت۔ حکومت کی صفوں میں انتشار‘ وزیروں میں توتکار اور اتحادیوں میں جو تم پیزاربھی اسی کا شاخسانہ ہے۔ قائداعظمؒ کی تعلیمات اور تصورات کو سینے سے لگا کر‘ عملی شکل میں ڈھال کر ہی موجودہ بے یقینی‘ مایوسی اور خوف سے نجات ممکن ہے مگر یہ کام کرے کون؟ وہ قیادت؟ جس کا ع
نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پاہے رکاب میں

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں