انکل الطاف اور بلاول

ڈاکٹر فاروق ستار کی دلجوئی تو قابل فہم ہے۔ الطاف حسین اور ایم کیو ایم لندن سے قطع تعلقی کے بعد انہیں موقع ملنا چاہیے کہ وہ کراچی اور حیدر آباد میں ایم کیو ایم پاکستان کو منظم اور پاکستان کے وفادار حلقہ نیابت کو متحرک کر سکیں۔ مگر الطاف حسین کی ناز برداری کا سبب کیا ہے؟ سندھ اسمبلی کی طرف سے الطاف حسین کو غدار دینے اور ریاست کے غدار کے خلاف آرٹیکل چھ کے تحت کارروائی کرنے کی قرار داد پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم پاکستان نے مل کر منظور کی‘ مسلم لیگ(ن) اور دیگر جماعتوں نے بھر پور تائید کی مگر پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے الطاف حسین کو میاں نواز شریف کی طرح محب وطن قرار دیا ہے۔ الطاف حسین اور نواز شریف یکساں کیسے ہو گئے ؟پاکستان کا غدار اور بھارت کا یار ایک برطانوی شہری‘ پاکستان کے منتخب وزیر اعظم میاں نواز شریف کا ہمسر کیونکر ٹھہرا؟
میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری کے مابین حالیہ رابطوں پر کسی کو بھلا کیا اعتراض ہو سکتا ہے۔ وزیر اعظم کے ایک ماتحت اور ایک قریبی شخص کے زرداری سے رابطے کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں‘ انہی رابطوں کے بعد زرداری صاحب نے وطن واپسی کاعندیہ ظاہر کیا ہے مگر 29نومبر سے پہلے پاکستان کا وہ رخ کبھی نہیں کریں گے۔ فی الحال وہ تیل دیکھو‘ تیل کی دھار دیکھو کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔ بیرون ملک قیام کے دوران انہوں نے اپنے برخوردار بلاول بھٹو زرداری کو آزاد کشمیر کے الیکشن جیتنے کا ٹارگٹ دیا مگر اپنی ٹیم منتخب کرنے اور موجودہ حالات کے مطابق حکمت عملی ترتیب دینے کی اجازت اور آزادی نہیں دی۔ جس کا نتیجہ سامنے ہے ؎
نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم
نہ ادھر کے رہے نہ اُدھر کے رہے
مولانا فضل الرحمن کے دولت کدہ پرانکل الطاف کے حق میں کلمۂ خیر کہہ کر برخوردار نے سینیٹ‘ قومی اور صوبائی اسمبلی میں مودی کے یاروں اور ملک کے غداروں کے خلاف بڑھ چڑھ کر بولنے والے پارٹی رہنمائوں کوحیران کردیا۔ اگر الطاف حسین بھی مودی کے یار نہیں اور پاکستان کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے کی خواہش سے مغلوب شخص بھی غدار نہیں تو پھر ڈاکٹر فاروق ستار اور مصطفی کمال کی سرزنش ہونی چاہیے‘جنہوں نے بلاول بھٹو زرداری کے انکل سے بے وفائی کی اوربغاوت کے مرتکب ہوئے۔ حب الوطنی ‘ اس ملک میں طعنہ ہے اور غداری اعزاز‘ بلاول بھٹو کی بات سن کر تو یہی گمان گزرتا ہے۔
جمہوریت کے نام پر ملک میں جو عوام دشمن اور مردم خورسسٹم رائج ہے اسے برقرار رکھنے کی واحد صورت یہی ہے کہ حب الوطنی ‘ قومی مفاد اورریاست سے وفاداری کو اضافی اصطلاح اور طعنہ بنا دیا جائے اور اسے سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کی اختراع قرار دے کر بدنام کیا جائے۔ یہ اس سسٹم کی برکت ہے کہ مظہر نامی ایک شخص قتل کے الزام میں گرفتار ہوا‘ سزا ملی اور 19سال بعد بری ہو گیا مگر جب اس کے گھر والوں کو باعزت بریّت کی اطلاع ملی تو پتہ چلا کہ ملزم تو دو سال قبل قاتل اور مجرم کی حیثیت سے انتقال کر چکا ہے۔ مظہر نہ سہی اس کے پسماندگان اس لحاظ سے خوش قسمت ہیں کہ انہیں اپنے عزیز کی باعزت بریت کا پروانہ ملا کہ اب کم از کم کوئی انہیں کسی سزا یافتہ قاتل کا رشتہ دار نہیں کہے گا مگر یہاں ایسے بھی کم نصیب موجود ہیں جن پر قتل یا کسی دوسرے سنگین جرم کا الزام تو نہیں مگر کسی چھوٹے موٹے الزام میں برسوں‘ بیس بیس پچیس پچیس سال سے جیلوں میں پڑے گل سڑ رہے ہیں ان کے مقدمات کی کوئی پیروی کرنے والا ہے نہ حمائت کرنے والا۔ اس کے برعکس کئی قاتل‘ ٹارگٹ کلر‘ دہشت گرد یا تخریب کار‘ بھتہ خور اور ریاست کے باغی محض اپنے اثرورسوخ‘ سیاسی قوت۔ لوٹی دولت اور طاقتوروں کی سرپرستی کے طفیل معاشرے کے سینے پر مونگ دل رہے ہیں۔ جیلوں میں بھی انہیں وی وی آئی پی پروٹوکول ملتا ہے اور اشتہاری ہونے کے باوجود وہ ایوان صدر‘ پارلیمنٹ اور دوسرے مقامات پر عزت و احترام کے مستحق سمجھے جاتے ہیں‘اسی بنا پر کہا جاتا ہے کہ پاکستان میں چھوٹا جرم قابل گرفت اور لائق تعزیر ہے جبکہ بڑا جرم باعث اعزاز۔ صلہ عوامی نمائندگی اور اعلیٰ مناصب۔
سرحدوں کی سنگین صورتحال‘ بھارت کی جنگی تیاریاں اور ملک کی ‘سفارتی تنہائی کا تقاضا یہ تھا اور ہے کہ یہاں جذبہ اتحاد ویگانگت کو فروغ ملتا۔ ہر اس شخص اور گروہ کی سرکوبی ہوتی جس کی ملک سے وفاداری مشکوک ‘لوٹ کھسوٹ مسلّم ہے اور بھارت سے مراسم اظہر من الشمس ہیں‘ بھارت جن کے ذریعے اقتصادی راہداری کے عظیم الشان منصوبے کو ناکام بنانے پر تُلا ہے۔ اُن کی ناز برداری ہو رہی ہے عوام حیران ہیں کہ یہ منصوبہ واقعی ہماری ترقی و خوشحالی کے لیے ہے تو اس کے بعض معاملات خفیہ کیوں ہیں اور حکمران سیاسی جماعت اس پر اپنی سیاست چمکا کر دوصوبوں اور اپنے سیاسی مخالفین کو یہ موقع کیوں فراہم کر رہی ہے کہ وہ تنازعہ کھڑا کر دیں جو چین کو منظور ہے نہ اس منصوبے اور ملک کے مفاد میں۔ عمران خان اور تحریک انصاف تحریک پاناما لیکس کے ایشو پر چلا رہے ہیں مگر حکومتی سطح پر مسلسل پروپیگنڈا یہ ہو رہا ہے کہ اس شور و غوغا کا مقصد اقتصادی راہداری کے منصوبے کو ناکام بنانا ہے۔ اے این پی‘ بلوچ قوم پرست اور پیپلز پارٹی کی طرف سے اس منصوبے پر اعتراضات کی کسی کو فکر نہیں اور یہ بُرے بھی نہیں لگتے۔ بھارت کھلم کھلا‘ اس کے خلاف سرگرم عمل ہے مگر حکومت کا روئے سخن صرف اور صرف اپنے سیاسی مخالفین کی طرف ہے۔ کیا پاناما لیکس سے توجہ ہٹانے کا یہ حربہ مناسب ہے آخر حکومت کبھی کشمیر اور پارلیمنٹ کے پیچھے چھپ کر اور کبھی اقتصادی راہداری کی آڑ لے کر سکینڈل سے جان چھڑا پائے گی؟
بھارت اور امریکہ کے بڑھتے ہوئے دبائو‘ ایم کیو ایم لندن اور الطاف حسین کی سازشوں اور کشیدہ سرحدی صورتحال کا تقاضا یہ ہے کہ حکومت سیاسی درجہ حرارت کم کرے۔ بلاول بھٹو‘ خورشید شاہ‘ مولانا فضل الرحمن اور دیگر کے ساتھ عمران خان مخالف اتحاد پر توجہ دینے کے بجائے پانامالیکس کی غیر جانبدارانہ‘ منصفانہ اور شفاف تحقیقات کا ڈول ڈالے اور سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کو اپنا حصہ سمجھ کر اختلافی معاملات طے کرے۔ 30اکتوبر کی کال دے کر عمران خان نے اگر غلطی کی ہے تو نامہ و پیام کے ذریعے اسے باور کرایا جائے اور اس کے جائز مطالبات مان کر احتجاج سے روکا جائے۔ اپوزیشن کے ٹی او آرز کو مسترد کرنے کے بجائے کوئی درمیانی راستہ نکالا جاتا تو کوئی وجہ نہ تھی کہ عمران خان آخری قدم اٹھانے پر مجبور ہوتا مگر 30ستمبر کے جلسے کا انتظار کیا گیا کہ وہ ناکام ہو اور حکومت اس مالیاتی‘ سکینڈل سے ہمیشہ کے لیے پیچھا چھڑا لے۔ اب بھی 30اکتوبر کے حوالے سے طاقت کے استعمال کی آپشن زیر غور ہے۔ مذاکرات اور مفاہمت کا راستہ اختیار کرنے پرکوئی تیار نہیں۔ ایم کیو ایم کا معاملہ ہو تو حکومت اورفرینڈلی اپوزیشن کا موقف ہوتا ہے کہ سیاسی قوت کو دیوار سے لگانا دانشمندی نہیں۔ الطاف حسین کے حوالے سے بھی بلاول بھٹو کا نقطہ نظر اپنے والد کی ہدایت پر یقیناً یہی ہے مگر تحریک انصاف اور عمران خان کے باب میں سوچ بالکل الگ اور انتہا پسندانہ ہے اور اس مردم خور‘عوام دشمن سسٹم میں تبدیلی کی خواہش حکومتی سطح پر موجود ہی نہیں جس نے مائوں کو بچوں سمیت نہروں میں چھلانگیں لگانے‘ غریب باپ کو تین بچیوں کے ساتھ مل کر زہر کا پیالہ پینے اور بے گناہ شہریوں کو بیس بیس پچیس پچیس سال تک جیلوں میں جرم ضعیفی کی سزا بھگتنے پر مجبور کر دیا ہے۔ شاید انتظار کیا جا رہا ہے کہ لوگ تنگ آ کر خود ہی اس سسٹم کو جڑ سے اکھاڑ پھینکیں ۔ مگر کیا اس میں اشرافیہ کو فائدہ ہے یا وہ پہلے ہی بوریا بستر باندھ کر بیرون ملک محفوظ ٹھکانوں کی طرف کوچ کرنے کے لیے تیار بیٹھی ہے۔ عمران خان کو چھوڑئیے ملک کا مفاد کیا ہے؟ اور عوام کیا چاہتے ہیں؟ کوئی یہ بھی سوچے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں