وزیر اعظم کے ''حسنِ انتخاب‘‘ اور اسی سالہ بزرگ کے حوصلے کی داد دینی چاہیے۔
حضرت میرؔ نے عشروں قبل کہا تھا ؎
عشق ایک میرؔ بھاری پتھر ہے
کب یہ تجھ ناتواں سے اُٹھتا ہے
مگر سندھ کی گورنری عشق ہے نہ جسٹس سعید الزمان صدیقی میر تقی میر‘ سو انہوں نے یہ پتھر اٹھا لیا۔ ناقدین سوال اٹھا رہے ہیں کہ اس صحت اور عمر کے ساتھ وہ چاق چوبندڈاکٹر عشرت العباد کی جانشینی کا فرض ادا کر پائیں گے؟ انہیں شائد معلوم نہیںکہ گورنر ہائوس کی آسائشیں ‘ پروٹوکول کے مزے اور منصب کے لوازمات صحت کی بحالی میں مددگار ثابت ہوتے ہیں طبیعت پر بوجھ نہیں۔
جسٹس سعید الزمان صدیقی کے دو کارنامے یادگار ہیں‘ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سید سجاد علی شاہ کے خلاف بغاوت میں موصوف پیش پیش تھے اور انہوں نے اپنے چیف جسٹس کو معزول کرنے میں اہم کردار ادا کیا ۔جرم چیف جسٹس کا یہ تھا کہ اس نے شاہانہ انداز حکمرانی کے سامنے بند باندھنے کی کوشش کی۔ فیصل آباد میں اعلیٰ سرکاری ملازمین کو سرعام ہتھکڑیاں لگوانے کے اقدام کو عدالتی فیصلہ سے مسترد کیا اور وزیر اعظم کو آئین کے مطابق اپنے فرائض انجام دینے کا راستہ دکھایا۔ بھاری مینڈیٹ کو عدالت عظمیٰ کا یہ گستاخانہ انداز پسند نہ آیا‘ پاکستانی تاریخ میں پہلی بار حکمران سیاسی جماعت عدالت عظمیٰ پر چڑھ دوڑی اور برادر ججوں نے اس معاملے میں اپنے چیف کے بجائے حکمرانوں کا ساتھ دیا۔ اس حملے کا نزلہ میاں منیر‘ طارق عزیز اور اختر رسول پر گرا‘ حملہ کرانے والے بے قصور ٹھہرے۔ باقی تاریخ ہے۔
چیف جسٹس سجاد علی شاہ کو برادر ججوں نے سپریم کورٹ سے یوں نکالا کہ شاہ جی کو غالب یاد آ گئے ؎
نکلنا خَلد سے آدم کا سنتے آئے ہیں لیکن
بہت بے آبرو ہوکر تِرے کوچے سے ہم نکلے
اپنی باری آنے پر چیف جسٹس سعید الزمان صدیقی بھی فل کورٹ ریفرنس اور اعزاز و اکرام کے ساتھ عدالت عظمیٰ سے رخصت نہ ہوئے۔ یہ کریڈٹ انہیں بہرحال جاتاہے کہ وہ فوجی آمر جنرل پرویز مشرف کے سامنے ڈٹ گئے اورعتاب کا شکار ہوئے ‘جنہیں شک تھا کہ وہ جدہ سے رابطہ میں ہیں اور ظفر علی شاہ کیس میں میاں نواز شریف کی مرضی کا فیصلہ سنانے کی سازش کر رہے ہیں۔ سابق صدر جسٹس رفیق تارڑ پرویز مشرف کے بے جا خدشات اور بے وجود سازش کی تفصیلات بیان کر چکے ہیں۔ صدیقی صاحب کی اس انداز میں عدالت عظمیٰ سے رخصتی میاں صاحب کو پسند آئی اور انہوں نے یہ طے کر لیا کہ وہ ایک فوجی آمر کی وفاداری کا حلف نہ اٹھانے والے اس قاضی القضاہ کو صلہ ضرور عطا کریں گے۔2008ء کے الیکشن میں ان کی بطور صدارتی امیدوار نامزدگی اور اب گورنر سندھ کے طور پر تقرر اس سلسلے کی کڑی ہے۔ میاں صاحب شاہانہ مزاج رکھتے ہیں مگر صلہ و ستائش کے سلسلے میں ذاتی جیب کوہوا نہیں لگنے دیتے۔ سرکاری وسائل اور مناصب سے مستحق لوگوں کو نوازتے ہیں شائد حلوائی کی دکان پر داداجی کی فاتحہ اسی موقع پر بولا جاتا ہے۔
کراچی میں اور بھی بہت سے لوگ ہیں جو فوجی آمر کے سامنے ڈٹے رہے‘ لاٹھیاں کھائیں اور قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں۔ مشاہد اللہ خان یکے از ستم رسید گان مشرف ہیں مگر سندھ کی گورنری کا مستحق ایک ایسے مرد ضعیف کو سمجھا گیا جس کے قویٰ مضمحل ہیں اور عمر اللہ اللہ کرنے کی۔ حیرت صدیقی صاحب پر ہے کہ پاکستان کے چیف جسٹس وہ رہ چکے‘ صدارتی امیدوار بننا بھی اعزاز تھامگر ایک صوبے کی بے اختیار گورنری؟۔ دنیا بھر میں جج دوران ملازمت اورریٹائر ہونے کے بعد سیاسی معاملات میں پڑتے نہ اپنے سابقہ منصب سے فروترکوئی عہدہ قبول کرتے ہیں۔ جسٹس اے آر کارنیلس سے نیاز مندانہ تعلق رہا اپنے دفتر میں چائے پلاتے اور دلچسپ باتیں بھی کرتے مگر انٹرویوپر آمادہ ہوتے نہ کبھی اپنی خدمات کا ڈھنڈورا پیٹا ۔صلہ و ستائش سے تو وہ ہمیشہ بے نیاز رہے۔مگر اب بعض جج صاحبان الا ماشاء اللہ عدالتی فیصلوں کے ذریعے بعداز ریٹائرمنٹ ملازمت کے انتظام میں لگے رہتے ہیں اور ہرگز یہ نہیں سوچتے کہ کسی ایک سیاسی پارٹی سے وابستگی ان کے دوران ملازمت دیانتدارانہ اورجرأت مندانہ فیصلوں کے بارے میں شکوک و شبہات کو جنم دیتی اور ناقدین کو زبان درازی کا موقع فراہم کرتی ہے۔ آخر اعلیٰ مناصب پر فائز رہنے والے لوگوں میں قناعت اور عزت و وقار کا احساس کب بیدار ہو گا؟۔ وہ ریٹائرمنٹ کے بعد اپنی عمر کے بقیہ ایام دوستوں‘ عزیز و اقارب اور پوتوں‘ پوتیوں نواسے نواسیوں کے ساتھ ہنستے کھیلتے گزارنے اور اپنے آپ کو رفاہی کاموں کے لیے وقف کرنے کو ترجیح کیوں نہیں دیتے۔؟ ترغیب اور دبائو کا دلیری سے مقابلہ کرتے ہوئے با اختیار مناصب کی قربانی دینے والے آخری عمر میں نمائشی عہدوں اور برائے نام مراعات کے سامنے ڈھیر کیوں ہو جاتے ہیں؟
سعید الزمان صدیقی صاحب کا بطور گورنر تقرر میاں نواز شریف کی طرف سے سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ‘ سندھ حکومت اور اعلیٰ عدلیہ کے لیے پیغام ہے۔ سندھ اور کراچی کی موجودہ سیاسی صورتحال سے واقف ہر شخص جانتا ہے کہ ایم کیو ایم کی تین حصوں میں تقسیم ریاستی اداروں میں اندرونی کشمکش کی نشاندہی کرتی ہے ۔ڈاکٹر عشرت العباد کی افادیت مصطفی کمال نے ختم کر دی اور پیپلز پارٹی کی طرف سے احتجاجی تحریک کے اعلانات نے اسلام آباد کے کان کھڑے کیے۔ ڈاکٹر عشرت العباد وفاقی حکومت‘ صوبائی حکومت اورسکیورٹی اسٹیبلشمنٹ تینوں کے ساتھ مضبوط رابطوں کی بنا پر اسلام آباد کے لیے مشکوک ٹھہرا کہ اگر کسی وقت تینوں یا دونوں فریقوں میں سے کسی ایک کے ساتھ کھڑا ہونا پڑے تو یہ کس کا ساتھ دے گا؟بالفرض اگر سندھ میں گورنر راج لگانا پڑے تو؟ 1999ء میں میاں صاحب نے سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ آخری معرکے کی تیاری کی تو سب سے پہلے پنجاب میں شاہد حامد کو ہٹا کر سردارذوالفقار علی خان کھوسہ کو لاٹ صاحب بنایا اورسندھ میں معین الدین حیدر کی جگہ قرعہ فعال ممنون حسین کے نام پڑا ۔ اب سعید الزمان صدیقی کو موزوں سمجھا گیا۔ بم کو لات مارنے کا ارادہ ہے یا کچھ اور؟ خدا معلوم۔یہ عدلیہ کے لیے بھی پیغام ہے کہ ؎
کوئی قابل ہو تو ہم شان کئی دیتے ہیں
ڈھونڈنے والوں کو دنیا بھی نئی دیتے ہیں
سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ ‘ پیپلز پارٹی اور عدلیہ اشاروں کی زبان نہ سمجھے تو اس کی قسمت۔
ڈاکٹر عشرت العباد نے چودہ سال گورنر رہ کرریکارڈ قائم کیا۔ کسی فوجی آمرکو بھی اتنا عرصہ اپنے منصب پر برقرار رہنے کا موقع نہیں ملا۔ یہ عشرت العباد کی مہارت اور خوش قسمتی سے زیادہ ہمارے ریاستی ڈھانچے اور سیاسی نظام کی ناکامی ہے کہ ایک شخص دوہری شہریت کے باوجود چودہ سال تک اقتدار کے مزے لوٹتا رہا۔ فوجی آمر کو علم ہوا نہ بال کی کھال اتارنے والے عدالتی نظام اور جمہوری حکمرانوں کو۔ جبکہ اس عرصے میں کئی ارکان اسمبلی دہری شہریت رکھنے کے جرم میں نااہل ہوئے۔ کوئی دوسرا ملک ہوتا تو دوہری شہریت چھپانے‘ ریاست کو دھوکہ دینے اور اپنے حلف کی خلاف ورزی کرنے پر مستوجب سزا ٹھہرتا مگر یہ پاکستان ہے۔ کسی نے چودہ سالہ مراعات اورمالی فوائد واپس لینے کی ضرورت محسوس نہیں کی ۔ کوئی کرے بھی کیوں؟ جہاں ایک این آر او پر قتل کے سنگین مقدمات ختم ہو جاتے ہوں وہاں دوہری شہریت رکھنا اور چھپانا کون سا جرم ہے؟ سعید الزمان صدیقی کو اللہ تعالیٰ بہترین صحت کے ساتھ عمر خضر عطا کرے۔ ناقدین جو بھی کہیں اور سمجھیں سابق چیف جسٹس سعید الزمان صدیقی کولاٹ صاحب کا منصب مبارک ؎
گو ہاتھ کو جنبش نہیں‘ آنکھوں میں تودم ہے
رہنے دو ابھی ساغرو مینا مرے آگے