حیلہ

کرپشن اور مالی ضابطگیاں چھپانے اور منصب و اختیار سے ناجائز فائدہ اٹھانے کا جو نسخہ کیمیا ہماری حکمران اشرافیہ کے ہاتھ لگا وہ جاپان کے ان حکمرانوں کو سوجھا جو کرپشن کا الزام لگنے پر خودکشی کرتے رہے نہ بھارتی سیاستدانوں جے للیتا اور لالو پرشاد یادیو کو ‘ جنہوں نے عدالتوں میں دھکے کھائے اور جیل یاترا کی۔ پھر بھی الزام ہے کہ پاکستانی حکمراں نکّمے ہیں، کچھ کرتے نہیں؛ حالانکہ کچھ نہ کریں پھر بھی کمال کرتے ہیں۔ امریکہ سمیت کس ملک کا حکمران یہ دعویٰ کر سکتا ہے کہ دوست ملک کے بادشاہ نے چپ چاپ اس کے اکائونٹ میں خطیر رقم منتقل کی،کرے تو حشر کیا ہوگا؟ پاناما پیپرز میں لندن کے فلیٹس کا انکشاف ہوا تو قطر کے شہزادے نے یہ بیان دے کر جان چھڑا دی کہ یہ میرے باپ کی کمائی ہے مگر میں نے اپنے باپ کے دوست کے بچوں کو ہدیہ کر دیے تاکہ وہ سعودی عرب میں رہتے ہوئے بھی لندن میں واقع ان فلیٹس سے استفادہ کر سکیں۔
شریف خاندان کاروباری ہے‘ بھٹو اور پرویز مشرف کے دور میں نقصان اٹھا چکا۔ ابن خلدون اور افلاطون جیسے سیاسی فلاسفرز نے تاجروں کی کاروبار حکومت میں شرکت کو اس بنا پر ناپسند کیا کہ یہ ذاتی نفع‘ نقصان کے حوالے سے سوچتے ہیں، قومی حمیّت اور ریاستی مفاد کو ثانوی حیثیت دیتے ہیں، مگر پرویز مشرف تو فوجی اور سیّد تھے، انہیں شاہ عبداللہ کا احسان اٹھانے اور نقد رقم لینے کی کیا ضرورت تھی؟ پاک فوج نے انہیں عزت‘ دولت‘ مقبولیت سے نوازا‘ آئین کو بالائے طاق رکھ کر کمانڈو جرنیل نے وزیر اعظم نواز شریف کو چلتا کیا تو فوج اس کے پیچھے کھڑی رہی۔ مقدمہ بغاوت بنا تو فوج کی مدد سے اُسے محفوظ راستہ ملا۔ اسلام آباد اور کراچی میں عالیشان گھر اور کروڑوں روپے کے اثاثے مگر دبئی‘ لندن میں عیش و عشرت کے لیے موصوف نے شاہ کی بخشیش قبول کر لی اور جواز یہ پیش کیا کہ وہ بڑے بھائی تھے‘ انکار مناسب نہ سمجھا۔ کوئی پوچھے اگر پرویز مشرف فوج کے سربراہ اور پاکستان کے غاصب حکمران نہ ہوتے تو سعودی عرب میں کوئی شُرطہ انہیں بادشاہ سلامت کے قریب نہ پھٹکنے دیتا مگر ملک اور فوج کی طرف سے ملنے والی عزت اور شہرت کے باعث بادشاہ سے تعلقات استوار ہوئے اور ریٹائرمنٹ کے بعد چھوٹے بھائی یا دوست کے بجائے ضرورت مند بن گئے ‘ساری عزت خاک میں ملا دی۔
جنرل (ر) حمید گل کو اللہ تعالیٰ کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے‘ عمرہ کے لیے سعودی عرب گئے تو شاہی مہمان قرار پائے۔ رخصت ہونے لگے تو غالباً ولی عہد کی طرف سے انہیں دیگر تحائف کے ساتھ ایک بریف کیس پیش کیا گیا۔ حمید گل مرحوم نے استفسار کیا کہ بریف کیس میں کیا ہے؟ بتایا گیا کہ معمولی مالی ہدیہ‘ اُن خدمات پر جو جنرل نے سوویت یونین سے افغانستان کی آزادی اور عالم اسلام کے اتحاد کے لیے انجام دیں۔ جنرل نے کرنسی نوٹوں سے بھرا بریف کیس کھولا‘ چہرے پر تکدّر کے آثار نمایاں ہوئے اور سلیقے سے معذرت کر لی۔ پروٹوکول افسر نے بتایا کہ شاہی ہدیہ ٹھکرانا غیر دوستانہ فعل ہے۔ جنرل نے سو ریال کا ایک نوٹ اٹھایا اور کہا کہ میزبان کو ٹوکن قبولیت کا بتا دیجیے اور معذرت کا بھی۔ بعدازاں یہ نوٹ انہوں نے ہوٹل کے ملازم کو ٹپ کے طور پر دے دیا۔ پرانا واقعہ ہے، یادداشت سے لکھ رہا ہوں، ممکن ہے جُزیات مختلف ہوں مگر یہ حقیقت ہے کہ رقم انہوں نے قبول نہ کی کہ یہ ایک پاکستانی جرنیل کے لیے باعث توہین ہے۔ مگر اس فوج کے سابق سربراہ نے شاہ عبداللہ کی بخشیش قبول کرنے میں شرم محسوس نہ کی جبکہ اُ نیس کروڑ آبادی کے نیو کلیٔر اسلامی پاکستان کا دولت مند حکمران خاندان انیس لاکھ کی آبادی کی ایک چھوٹی سی ریاست کے ایک شہزادے کے خط کا محتاج ہے جو پاناما لیکس کے حوالے سے چلنے والے مقدمہ سے اس کی جان چھڑا سکے۔ سیاست اور مالی معاملات سے اخلاقیات اور عزت نفس کے احساس کا عنصر منہا کر دیا جائے تو یہی نتیجہ نکلتا ہے اور انسان دھڑلے سے بتاتا پھرتا ہے کہ میری گزر بسر فلاں ابن فلاں کی بخشیش پر ہے اور میری جائیداد اس کاروبار کی بچت سے خریدی گئی جس کے بارے میں برسوں کسی کو علم ہوا نہ اس کا کوئی حساب کتاب موجود ہے۔
ایک گھسا پٹا لطیفہ ہے کہ میراثی کا باپ مرا تو نماز جنازہ کے بعد رسمِ دنیا‘ موقع اور دستور کے مطابق اُس نے اعلان کیا کہ جس بھائی نے میرے باپ سے کچھ لینا ہو بتا دے، میں ادا کر دوںگا۔ اعلان کے بعد بہت سے لوگوں نے ہاتھ کھڑے کیے اور بتایا کہ مرحوم ان کا مقروض تھا۔ میراثی قرض خواہوں کی اتنی زیادہ تعداد دیکھ کر گھبرا گیا مگر حاضر جواب تھا، بولا! آپ کا دعویٰ سر آنکھوں پر مگر جب تک میرے مرحوم باپ زندہ ہو کر بتا نہیں دیتے کہ میں فلاں فلاں کا مقروض تھا، میں زبانی دعوے پر ادائیگی نہیں کر سکتا، آخر قیامت کے روز باپ کو مُنہ دکھانا ہے۔ یہی حال جنرل(ر) پرویز مشرف اور شہزادہ حمد بن جاسم کا ہے۔ سعودی عرب کے شاہ عبداللہ اور شہزادہ حمد کے والد جاسم بن جبر الثانی اب قبر سے اٹھ کر آنے اور لین دین کی حقیقت بتانے سے تو رہے۔ اب تو اللہ اور اس کے فرشتے ہی ان سے پوچھ سکتے ہیں کہ سچ کیا ہے؟ امریکہ میں ٹیکساس یونیورسٹی کے ایک پروفیسر نے ہمیں رات کے کھانے پر بلایا۔ ہمارے امریکی اسکارٹ آفیسر نے تلقین کی کہ تحفہ ضرور لے کر جانا کہ آداب معاشرت کا حصہ ہے۔ شام کو ہم اپنے دیگر تین ساتھیوں ظہیرالحق ‘ جہانگیر (بنگلہ دیش) اور بنرجی (بھارت)کے ساتھ ہوٹل سے نکلنے لگے تو اسکارٹ افسر نے تاکید کی یہ تحفہ پچاس ڈالر سے زائد مالیت کا نہیں ہونا چاہیے ورنہ پروفیسر صاحب قبول نہیں کریں گے، یہ جرم ہے اور معیوب بھی۔ مگر مسلمان حکمران اور عوام ایسی کسی پابندی سے مستثنیٰ ہیں۔ کوئی قانونی اور اخلاقی ضابطہ نہ عوامی باز پرس کا خوف۔ بخاری شریف کی ایک روایت کے مطابق رسول اکرم ﷺ نے ایک شخص کو چند قبائل کی جانب زکوٰۃ اور صدقات وصول کرنے بھیجا۔ اس نے واپسی پر کچھ مال علیحدہ اپنے پاس رکھ لیا اور عذر پیش کیا کہ یہ مال اُسے بطور ہدیہ ملا ہے۔ آپ ﷺ نے لوگوں سے فرمایا: ''میں تم لوگوں میں سے کسی کو ایک کام سپرد کر کے بھیجتا ہوں اور وہ واپسی پر کہتا ہے کہ یہ تم لوگوں کا مال ہے اور یہ میرا ہے جو مجھے بطور تحفہ دیا گیا ہے۔ وہ شخص کیوںنہیں اپنے ماں باپ کے گھر میں بیٹھتا تاکہ اس کا تحفہ اس کے گھر پہنچے۔ اللہ تعالیٰ کی قسم تم میں سے کوئی بھی شخص ایسا نہیں جو کوئی مال بغیر کسی حق کے قبول کرے اور روز قیامت اس حرام مال کا بوجھ اٹھائے ہوئے اللہ کے سامنے پیش نہ ہو‘‘۔
حضرت عمر ؓ کا ایک بیٹا تلاش روزگار میں عراق گیا۔ سال بعد واپس لوٹا تو مال سے لدے ہوئے اونٹ ساتھ تھے۔ حضرت عمرؓ نے پوچھا: ''بیٹے اتنا مال کہاں سے آیا؟‘‘ صاحبزادے نے جواب دیا کہ تجارت کی۔ امیر المومنین نے پوچھا تجارت کے لیے پیسہ کہاں سے آیا؟ بیٹے نے جواب دیا، چچا نے قرض دیا تھا جو لوٹا چکا ہوں۔ چچا سے مراد کوفہ کا گورنر تھا۔ حضرت عمرؓ نے گورنرکوفہ کو طلب کیا اور پوچھا،کیا وہاں بیت المال میں اتنی دولت جمع ہو گئی ہے کہ ہر شہری کو قرض دے سکتے ہو؟ گورنر بولا ''نہیں ایسا تو نہیں‘‘۔ پھر تم نے میرے بیٹے کو کس خوشی میں قرض دیا؟ صرف اس لیے کہ وہ میرا بیٹا ہے اور میں مسلمانوں کا حکمران ہوں۔ حضرت عمرؓ نے گورنر کو معزول کر دیا اور سارا مال بیت المال میں جمع کرا دیا۔ لیکن اسلامیہ جمہوریہ پاکستان میں حکمران خواہ منتخب سویلین ہوں یا فوجی، کب ان چیزوں کی پروا کرتے ہیں۔ کثرت کی خواہش نے انہیں دیوانہ بنا رکھا ہے اور سیاسی و اخلاقی طور پر یہ اپنا مقدمہ ہار کر بھی حیلہ جوئی سے کام نکالنا چاہتے ہیں۔ مگر اس دولت کا یہ اعجاز بہرحال ہے کہ قانون دان‘ دانشور‘ تجزیہ کار‘ صحافی اور اصحاب جُبہ و دستار ان کی حیلہ سازی اور بنی اسرائیل طرز کی تاویلات کے حق میں دلائل تراش رہے ہیں۔ لارڈ کلائیو پر موجودہ دور میں الزام لگتا تو وہ خود کشی کرنے کے بجائے ان چرب زبانوںکی خدمات حاصل کرتا اور جے للیتا اور لالو پرشاد یادیو کو ایسوں کی کمک ملتی تو وہ جیل جانے سے بچ جاتے۔ اپنی اپنی قسمت کی بات ہے! 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں