بوٹ پالشیئے اور مالشیئے

جنرل راحیل شریف کی بروقت ریٹائرمنٹ پر سب سے زیادہ خوش وہ ہیں جو کل تک یہ دلائل دیتے نہیں تھکتے تھے کہ دونوں شریفوں میں گاڑھی چھنتی ہے اور راحیل شریف سے جمہوریت کو کوئی خطرہ نہیں مگر اب الوداعی ملاقاتیں شروع ہوئی ہیں تو یہی لوگ ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر یہ ثابت کرنے میں مصروف ہیں کہ جمہوریت کے سر سے بلا ٹل گئی اور ان لوگوں کو ناکامی ہوئی جو جنرل راحیل شریف سے کسی غیر آئینی اور غیر قانونی کردار کی توقع کرتے تھے۔
جنرل راحیل شریف نے اپنے تین سالہ دور اقتدار میںنیک نامی اپنے دلیرانہ کردار اور جرأت مندانہ اقدامات سے کمائی۔ فاٹا، کراچی اور بلوچستان کے قبائلی، لسانی اور نسلی دہشت گردوں کے خلاف فوجی آپریشن کی جرأت فوجی آمرجنرل پرویز مشرف کو ہوئی نہ اس کے سویلین جانشینوں آصف علی زرداری اور میاں نواز شریف کو۔ میاں صاحب نے کراچی آپریشن کا آغاز ضرور کیا مگر اس کا کپتان ایک نوے سالہ بزرگ سید قائم علی شاہ کو مقرر کیا۔ جو معمولی نوعیت کے فیصلوں کے لیے بھی کبھی دبئی سے رجوع کرتا اور کبھی اسلام آباد و راولپنڈی کی طرف دیکھتا۔ جنرل راحیل شریف نے دہشت گردی پر قابو پانے کے لیے درست اقدامات کیے مگر ایجنڈا ضرورت سے زیادہ پھیلا لیا‘ عوامی توقعات بہت بڑھا دیں۔ دہشت گردی اور کرپشن کے تال میل پر خوب گرجے برسے، معاشی دہشت گردی کے خاتمے کا عزم ظاہر کیا مگر اس معاملے میں عملی اقدامات کرنے کے بجائے سول قیادت کی طرف اُمید بھری نظروں سے دیکھتے رہے جو اس ایجنڈے کو اپنے ذاتی، خاندانی اور سیاسی مفادات کے علاوہ موجودہ عوام دشمن سیاسی، سماجی اور معاشی نظام کے خلاف سمجھتی اور مہلت حاصل کرنے کے مجرب نسخے آزماتی رہی۔ میاں نواز شریف اورآصف علی زرداری نے مل جل کر معاشی دہشت گردی کے خاتمے کی خواہش کو جس مہارت اور خوش اسلوبی سے ناکام بنایا اس کا اعتراف نہ کرنا زیادتی ہوگی۔ ریٹائرمنٹ پر انہی لوگوں کی باچھیں کھلی ہیں جو معاشی دہشت گردوں کے سپورٹر اور لوٹ مار اور موجودہ موروثی و خاندانی نظام کو جمہوریت کے نام پربرقرار رکھنے کے خواہش مند ہیں۔
جنرل اشفاق پرویز کیانی اور جنرل راحیل شریف نے فوج کو سیاسی معاملات سے دور رکھ کر نیک نامی کمائی اور فوج کی عزت اور مقبولیت میں اضافہ کیا۔ آرمی چیف اور فوج کی یہ مقبولیت مگر ہمارے سیاستدانوں کو ہضم ہوئی نہ امریکہ و بھارت کے فراہم کردہ راتب سے شکم پروری کرنے والی مخلوق کو‘ جو(خاکم بدہن) نیوکلیئر ہتھیاروں سے لیس فوج کو کمزور کرکے پاکستان کو بوسنیا، عراق، لیبیا، مصر اور شام کے انجام سے دوچار کرنے کی خواہش مند ہے۔ فوجی مداخلت کا ہوّا کھڑا کرکے اس ہوائی مخلوق نے ہمیشہ تبدیلی کا راستہ روکا اور اپنی ناقص کارگزاری، کمزور کردار اور مفاد پرستانہ پالیسیوں کی وجہ سے طاقتور ادارے سے خائف سول حکمرانوں کو محاذ آرائی کی طرف دھکیلا۔ سویلین بالادستی کا معجون بیچنے والے ان عطائیوں نے کبھی سوچا نہ سول حکمرانوںکو سوچنے کا موقع دیا کہ مثالی کردار، معیاری کارگزاری، عوام کے بھرپور اعتماد اور اخلاقی برتری کے بغیر فوج پر بالادستی کی خواہش دیوانے کا خواب ہے جو نہ تو امریکی پشت پناہی سے تشنہ تعبیر ہوسکتا ہے نہ پروپیگنڈے اور فریب کاری سے۔ پانامہ سکینڈل اور نیوز لیکس کی دلدل میں پھنسے حکمران جنرل راحیل شریف کی ریٹائرمنٹ سے سول بالادستی کا اہتمام کرسکتے ہیں نہ اپنی مرضی کے آرمی چیف کا تقرر انہیں آب بقائے دوام فراہم کرے گا۔ ماضی کا تجربہ یہی ہے۔ مستقبل کا حال اللہ جانے۔
جنرل راحیل شریف نے تین سالہ دور میں جو مقبولیت حاصل کی وہ بہتر کارگزاری کا ثمر تھی یہ ہمارے حکمرانوں کے لیے بھی سبق آموز ہے۔ تین سال کے دوران ان کا کوئی مالی سکینڈل سامنے آیا نہ اقربا پروری کا الزام لگا۔ حاضر سروس آرمی چیف کے خلاف بات کرنے کا ہمارے رواج ہے نہ اس کے ذاتی خاندانی اور سیاسی معاملات کی کھوج لگانا آسان۔ مگر کھسر پھسر جنرل کیانی کے بھائیوں کے بارے میں ہوتی رہی اور جنرل پرویز مشرف کے بعض کور کمانڈرز ، کروڑ کمانڈر اس وقت قرار پائے جب ان کی طاقت اور اختیارات کا سورج نصف النہار پر تھا۔ تاہم راحیل شریف کے مالی معاملات کے حوالے سے کھسر پھسر کبھی نہیں ہوئی۔ اس کے برعکس سول حکمران عدالتوں میں اپنی صفائی دینے کے لیے قطری شہزادوں کے محتاج ہیں اور بیگانوں کے علاوہ اپنے بھی اس خط کو مشکوک نظروں سے دیکھ رہے ہیں۔ جتنی ریاضت ہمارے سول حکمران اور سیاستدان عدلیہ ، فوج، پولیس، نیب اور دیگر اداروں پر بالادستی حاصل کرنے کے لیے کرتے ہیں اس کا نصف اگر وہ اپنی کارگزاری بہتر بنانے پر کریں تو سول بالادستی کا مسئلہ ہمیشہ کے لیے حل ہوجائے۔ آخر کون چاہتا ہے کہ وہ فاٹا، کراچی، بلوچستان میں ملک دشمنوں سے جنگ لڑے، کنٹرول لائن اور بین الاقوامی سرحد پر صف آراء رہے۔ سول حکمرانوں کے حصے کا کام بھی کرے اور بدنامی بھی مول لے کہ سیاستدانوں کو کام نہیں کرنے دیا جاتا۔ بعض سیاستدان اور دانشور جب ۰یہ کہتے ہیں کہ فوج، وزیراعظم اور ان کی ٹیم کو آزادی سے کام نہیں کرنے دیتی تو میرا جواب عموماً یہی ہوتا ہے کہ پھر حمیّت ‘عزت نفس اور منصبی وقارکو ملحوظ رکھتے ہوئے یہ مجبور و بے بس مخلوق اپنے عہدوں پر چار حرف بھیج کر عوام میں واپس کیوں نہیں آ جاتی‘ یہ طاقتور ادارے سرے محل خریدنے سے روکتے ہیں نہ مئے فیئر کے فلیٹس کی ملکیت اور نہ کمیشن و کک بیکس کی وصولی سے۔ مگر عوامی فلاح و بہبود اور قومی خود مختاری کا معاملہ ہو تو رکاوٹیں کھڑی کرتے ہیں اور کسی کو خوش اسلوبی سے اپنا فرض ادا نہیں کرنے دیتے۔ شکوۂ بے جا بھی کرے کوئی تو لازم ہے شعور۔
پاک فوج اوراس کے طاقتور جرنیلوں کو اپنے فرائض منصبی تک محدود رہنا چاہیے۔ دفاع وطن کا فریضہ اور دشمنوں کا قلع قمع ان کی پہلی اور آخری ترجیح ہے اور ہونی چاہئے، اگر یہ اپنی طے شدہ حدود اور اختیارات سے تجاوز کریں‘ غلطی پر ہوں ‘ تو تنقید کا حق تسلیم۔ مگر تنقید قومی نقطہ نظر سے ہو‘ امریکہ و بھارت کی خواہش اور ایجنڈے کے تحت نہیں۔ ملک کے لیے جان دینے والوں کو اپنا محافظ اور ایٹمی پروگرام کا نگران سمجھ کر ہم تنقید کرسکتے ہیں مگر امریکہ و بھارت کی آنکھ کا کانٹا اور دل کی چبھن سمجھ کر مین میخ نکالنا اور طعن و تشنیع کے تیر برسانا حب الوطنی ہے، نہ خوش ذوقی۔ ہم جنہیں ووٹ دیکر اپنے حقوق و مفادات کا محافظ و نگران مقرر کرتے ہیں ان کے اعمال و افعال کا محاسبہ ہمارا حق اور انہیں راہ راست پر گامزن رکھنا قومی ذمہ داری ہے۔ بندوق برداروں کے بوٹ پالشیئے وہ سیاستدان ہیں جوکبھی چھپ کر اورکبھی برملا ان سے بار بارملتے، مدد مانگتے اور ایک صفحہ پر ہونے کا تاثر اجاگر کرکے لوٹ مار، قانون شکنی‘ بے ضابطگی اور ظلم و استحصال جاری رکھتے ہیں۔ بوٹ والوں کی انگلی پکڑ کر ایوان اقتدار میں داخل ہوتے اور سفارش‘ خوشامد‘ چاپلوسی کے ہتھکنڈے استعمال کرتے ہرگز نہیں شرماتے۔ بغل میں چھری منہ میں رام کی پالیسی پر عمل پیرا یہی لوگ اپنی نااہلی اور غلط کاری کا ملبہ فوج پر ڈال کر اپنے ووٹروں کو بے وقوف بناتے اور تجربہ کار مالشیئوں سے داد پاتے ہیں۔ جبکہ عادی مالشیئے ہر حکمران کو جمہوریت کی علامت اور قوم کا مسیحا قرار دے کر سول ملٹری تعلقات میں رخنہ اندازی کرتے اور 5 جولائی و12اکتوبرکو ممکن بناتے ہیں۔ راحیل شریف کی موجودگی میں یہ ناخورسند تھے اور جانے پر خوش ہیں مگر اگلا آرمی چیف بھی ایوب خان، ضیاء الحق، پرویز مشرف اور راحیل شریف کی طرح فوجی ہوگا۔ممکن ہے کرپشن اور معاشی دہشت گردی کو یہ بھی اپنے ایجنڈے میں سرفہرست رکھے اور قومی سلامتی کو نقصان پہنچانے والے نیوز لیکس کے ملزموں سے وہ سلوک کرے جو راحیل شریف کرنا چاہتے تھے مگر وقت کی قلّت کے سبب نہ کر پائے۔ کوئی فوجی سربراہ کسی کا ذاتی وفادار ہوسکتا ہے‘نہ قومی سلامتی اور مفادات کے تقاضوں سے غافل۔ اپنے فرائض تک محدود رہنا خوبی ہے یا کمزوری؟ سوچنا ضرور چاہئے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں