نیچاں دی اَشنائی

نریندر مودی ‘واجپائی اور من موہن سنگھ سے بہرحال بہتر بھارتی حکمران ہے‘ پاکستان کے بارے میں جس کے قول و فعل میں تضاد ہے نہ بغل میں چھری ‘ منہ میں رام رام۔ اندرا گاندھی اور راجیو گاندھی کی طرح وہ پاکستان کا کُھلا دشمن ہے اور لگی لپٹی رکھے بغیر اپنے انتخابی نعروں کے مطابق پاکستان اور کشمیری مسلمانوں کو سبق سکھانے پر کاربند ؎
نکل جاتی ہو سچی بات ‘جس کے مُنہ سے مستی میں
فقیہ مصلحت بیںسے‘ وہ رندبادہ خوار اچھا
نریندر مودی پچھلے سال جاتی اُمراء وارد ہوا تو پاکستان میں خوشی کے شادیانے بجنے لگے کہ یہ انتہا پسند ہندو حکمران بالآخر تعلقات بہتر بنانے پر مجبور ہوا مگر چند ہی ہفتوں میں اُس نے اپنے دورے کو شاطرانہ سفارتی چال قرار دیا اور کنٹرول لائن کے علاوہ بین الاقوامی سرحد پر چھیڑ چھاڑ شروع کر دی۔ ہماری زمینی‘ بحری اور فضائی حدود کی خلاف ورزی سے وہ مسلسل دنیا کو باور کرا رہا ہے کہ پاکستان مقابلہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں‘ جبکہ کشیدگی کی اس فضا کو وہ پاک فوج کی کارستانی قرار دیتا اور سول ملٹری تعلقات کو حتی المقدوربگاڑنے کی تدبیر کرتا ہے۔ دشمن سے اس کے سوا کوئی توقع رکھنی بھی نہیں چاہئے۔
نریندر مودی نے پاکستان کی نوجوان نسل کو نظریہ پاکستان اور قیام پاکستان کی افادیت سے روشناس کرایا اور ان لوگوں کے مُنہ پر طمانچہ رسید کیا جو نوجوان نسل کو یہ باور کرانے میں مصروف تھے کہ سرحد کے دونوں طرف ایک ہی قوم بستی ہے جو آلو گوشت کھاتی‘ قمیص دھوتی پہنتی اور لکیر مٹاکر ایک ساتھ رہنا چاہتی ہے۔ امریکہ و بھارت کے وظیفہ خواروں کو تو چھوڑئیے کہ سوویت یونین کی تحلیل کے بعد اُن کی دال روٹی کا انحصار''رَل مِل روٹی کھائیے ‘‘ کے نعرے اور دو قومی نظریے کی مخالفت پر ہے مگر میاں نواز شریف بھی اپنے بعض نورتنوں کے بہکاوے میں آ کر وہی زبان بولنے لگے جو قیام پاکستان سے قبل الگ مُسلم قومی تشخص کے مخالفین اور متحدہ قومیت کے حامی بولا کرتے۔ بھارت سے تجارت کا شوق انہیں اپنے قومی اداروں کی مخالفت کے باوجود نریندر مودی کی حلف برداری میں لے گیا اور انہوں نے حریت کانفرنس کو نظر انداز کر کے بھارتی صنعت کاروں اور تاجروں کو گلے لگایا‘ جس کا فائدہ اٹھا کر بھارتی تاجروں نے ناقص آلو‘ پیاز ‘ ٹماٹر ‘بد ذائقہ و مشکوک گوشت اورمرچ مصالحے بھیج کر غریب پاکستانی کاشتکاروں کو سڑکوں پر نکلنے اور سینہ کوبی کرنے پر مجبور کیا۔ برہان مظفر وانی کی شہادت‘ کشمیری عوام کی پاکستان سے الحاق کے لیے دیوانہ وار جدوجہد اور نریندر مودی کی نفرت رنگ لائی اور آج پاکستان میں بھارت کے شردھالو اورمسئلہ کشمیر کو بالائے طاق رکھ کر دو طرفہ تجارت و تعلقات کے حامیوں میں سے کسی کو یہ جرأت ہے کہ وہ سرحدی کشیدگی اور جنگی جنون کا ذمہ دار پاکستان اور اس کے سکیورٹی اداروں کو قرار دے سکے نہ یہ حوصلہ کہ قومی حمیّت سے محروم فنکاروں‘ تاجروں اور دانشوروں کے جتھے بھیج کر مودی سرکار کی شکایات دور کرنے کا مطالبہ کرے۔اب''رادوسرے ممالک میں مداخلت نہیں کرتی اور آئی ایس آئی کا یہ وتیرہ ہے‘‘ کہنے کی کسی کو جرأت ہے نہ کشمیری عوام کی سرفروشانہ جدوجہد پر پاکستان کے ریاستی اور غیر ریاستی عناصر کی کارستانی کا لیبل لگانے کا یارا۔
بھارتی فوج نے مسافر بس اور ایمبولینس پر حملہ کر کے پاکستان میں مودی کے یاروں اور وفاداروں کو اس قابل نہیں چھوڑا کہ وہ کشیدگی کا الزام حافظ سعید‘ مسعود اظہر اور آئی ایس آئی پر لگا کر حق نمک ادا کر سکیں ۔نوجوان نسل کو بھی بھارت کا اصل چہرہ دیکھنے کو مل رہا ہے اور بھارت سے ہر قیمت پر تعلقات کے خواہش مند ہمارے سیاستدانوں و دانشوروں کی ذہنی کم مائیگی اور بھارتی عزائم سے بے خبری کا علم ہونے لگا ہے۔ سونے پر سہاگہ مودی کا یہ بیان ہے کہ دریائے ستلج ‘ بیاس اور راوی کا بوند بوند پانی روک کر بھارت پاکستان کو صحرا میں بدل دے گا۔ عالمی معاہدوں اور قوانین سے قطع نظر بھارت یہ اہلیت بھی رکھتا ہے یا نہیں؟ میاں نواز شریف اور حکومت کے کسی با اختیارعہدیدار نے اس کا جواب نہ دے کر قوم کو مایوس کیا۔ورلڈ بنک اور دیگر عالمی ادارے برسوں قبل یہ خدشہ ظاہر کر چکے ہیں کہ آئندہ مختلف اقوام اور ممالک کے مابین جنگیں پانی کے مسئلہ پر ہوں گی۔ اگر بھارت اس جنگ کی راہ ہموارکر رہا ہے تو مدمقابل نیو کلیر پاور آخر کب تک تحمل و برداشت کا مظاہرہ کریگی۔ بھارت کے خلاف قوم اس وقت جس قدر متحد اوریکسو ہے1971ء میں تھی نہ 1999ء میں کرگل جنگ کے دوران۔ یہ اتحاد پاکستان کی کسی حکومت نے پیدا کیا نہ ہماری سیاسی قیادت نے جو آج بھی باہم دست و گریباں اوربھارتی عزائم سے بے پروا ہے۔عشروں تک پاکستان کے خلاف بھارت کا ساتھ دینے والا روس اب اقتصادی راہداری میں شرکت کا خواہشمند ہے۔ یہ زور زبردستی کی بجائے دوستی‘ مفاہمت اور شریفانہ معاہدے کے ذریعے گرم پانیوں تک رسائی کی خواہش ہے اور اُن احمقوں کے لیے چشم کشا جو کہتے ہیں روس کبھی گرم پانیوں تک رسائی کا خواہش مند نہ تھا۔
سرحدی جھڑپیں ہوں یا مودی کی دھمکیاں‘ دونوں کا مقصد پاکستانی فوج کی جوابی اہلیت کو چیلنج اور عوام کے حوصلوں کو پست کرنا ہے۔ بھارت سرکار پاکستانی عوام کو مسلسل یہ باور کرانے میں مصروف ہے کہ ہم سرجیکل سٹرائیک اور ورکنگ بائونڈری پر گولہ باری سے پاکستانی فوج کی تضحیک کر رہے ہیں مگر وہ موثر جواب دینے کے بجائے محض زبانی دھمکیوں سے کام چلا رہی ہے۔ حکومت کی خاموشی کو وہ غنیمت سمجھتی ہے جس نے سفارتی محاذ پر زیادہ بھاگ دوڑ کی نہ مودی کے بیانات کا جواب اس مردانہ زبان میں دیا ہے جو بھارتی قیادت سننے کی عادی ہے۔ راجیو گاندھی نے براس ٹیک مشقوں کے نام پر اپنی فوج گولہ بارود سمیت پاکستانی سرحد پر لا کھڑی کی تو جنرل ضیاء الحق نے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ایسا پیغام دیا کہ صرف چوبیس گھنٹوں میں فوج واپس چلی گئی مگر اب جوابی فوری کارروائی کے احکامات کے باوجود کبھی معصوم شہری نشانہ بنتے ہیں کبھی بہادر فوجی۔ شاید یہ میاں صاحب کی خاموشی کا نتیجہ ہے یا بھارت کی کوئی نئی چال۔ مودی کے بیانات کو صرف پنجاب اور یو پی میں ریاستی انتخابات کے موقع پر عوام کو متاثر کرنے کا حربہ سمجھ کر نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ سرحدوں پر کشیدگی اورروزانہ پاکستان کے شہریوں اور فوجیوں کی شہادت مذاق نہیں۔ جواب تو ہمیں دینا ہی پڑے گا کہ لاتوں کے بھوت باتوں سے ماننے والے نہیں۔ جنگ کے خوف سے موثر جوابی کارروائی نہ کرنا بزدلی ہے اور پرلے درجے کی ناعاقبت اندیشی جس کی متحمل کوئی نیو کلیر پاور نہیں ہو سکتی۔
امن کی یکطرفہ خواہش سے جنگ ٹلتی ہے نہ کمینے دشمن کا دل چکنی چپڑی باتوں سے موم ہوتا ہے۔ میاں صاحب اپنی ہر تقریر اور گفتگو میں جتنا غصہ اپنے سیاسی دشمن عمران خان پر نکالتے ہیں اس کا نصف توپاکستان کے دشمن مودی پرنکالیں۔ وزیروں‘ مشیروں کی ایک بٹالین عمران خان کے لتّے لینے کے لیے وقف ہے تو ایک بریگیڈ مودی کے لیے بھی مختص ہو جو دشمن کو منہ توڑ جوا ب دے۔مرضی کا آرمی چیف مقرر کرنے کے بعد انہیں فوج سے خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں ۔ بھارت سے دوستانہ تعلقات اور تجارت کی خواہش کو مودی نے خود رد کیا۔ میاں صاحب اور ان کے ساتھیوں کو بھی اب یہ خیال ذہن سے نکال کر بھارت کو اینٹ کاجواب پتھر سے دینے کی پالیسی ترتیب دینی پڑیگی۔ قائد اعظم نے برہمن ذہنیت کو سمجھا‘ جب تک ہم اس پالیسی پر عمل پیرا رہے بھارت نے سرحدی چھیڑ چھاڑ سے گریز کیا ۔ امریکی مشوروں پر جب سے ہم نے اسے اپنا دوست گردانا اور تجارت و مفاہمت کے لیے بیتاب ہوئے یہ اکڑ کر آنکھیں دکھانے لگا کہ یہی اس کی سرشت ہے ؎
نیچاں دی اَشنائی کولوں فیض کسے نہ پایا
ککر تے انگور چڑھایا ہر گُچھا زخمایا
جنرل راحیل شریف کے بعد فوجی قیادت کشمیریوں کی مزاحمت اوربھارت کی خرمستیوں کو کس نگاہ سے دیکھتی ہے؟ اور میاں صاحب خارجہ پالیسی میں کیا تبدیلیاں کرتے ہیں؟ چند ہفتے اہم ہیں‘ میرا نہیں خیال کہ امریکہ اور بھارت کے وفاداروں کی اُمیدیں برآئیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں