تبدیلی

فوجی کمان کی ہموار تبدیلی کے ساتھ پاکستان ایک نئے دور میں داخل ہو گیا۔ مستحکم سیاسی اور فوجی روایات کے حامل ممالک میں یہ رسمی کارروائی ہے جو کبھی میڈیا میں زیربحث نہیں آتی۔ پاکستان مگر اس حوالے سے انفرادیت کا حامل ہے۔ ایک ہی گھر میں مقیم دو بھائیوں کی ملاقات کو، جن میں سے ایک وزیراعظم اور دوسرا وزیراعلیٰ ہے، بریکنگ نیوز کے طور پر چلانے والا میڈیا اس واقعہ کو نظرانداز نہیں کر سکتا۔ اور قارئین و ناظرین؟ 
ہم نہ ہوتے تو کسی اور کے چرچے ہوتے
خلقت شہر تو کہنے کو فسانے مانگے
جنرل راحیل شریف نے فاٹا‘ کراچی اور بلوچستان میں ریاست کی رٹ قائم کی اور نواز حکومت کو یہ موقع فراہم کیا کہ وہ امن و امان کی بہتر صورتحال میں قومی تعمیر و ترقی کے منصوبے مکمل کرے جس کا وعدہ اُس نے 2013ء کے انتخابات میں کیا۔ اس کی سوئی مگر لوڈشیڈنگ کے خاتمے اور سڑکوں کی تعمیر پر اٹکی رہی۔ غربت و افلاس اور بیروزگاری کا خاتمہ، عوام کو تعلیم و صحت کی معیاری سہولتوں کی فراہمی، پولیس و انتظامیہ کی اہلیت و صلاحیت میں اضافہ اور میرٹ کے تحت تقرر و تنزّل کا اہتمام اس کی ترجیحات میں شامل نہ مزاج کا حصہ۔ سسٹم کی بقا و استحکام کا شور مچا مگر کون سا سسٹم اور کس کا استحکام؟ ذاتی پسند و ناپسند اور خاندانی و سیاسی ضرورتوں کے تحت تقرر و تبادلے‘ ترقی، مراعات اور سرکاری ٹھیکوں کی الاٹمنٹ کا مکروہ دھندا ماضی کی طرح اب بھی جاری ہے اور سینئر افسروں کو کھڈے لائن لگا کر جونیئر افسروں سے کام لینے کی روایت نے میرٹ کا بیڑا غرق کر دیا ہے۔ قاعدے‘ ضابطے اور قانون کو پس پشت ڈال کر شاہانہ فیصلوں پر عملدرآمد میں سینئر افسر وہ عجلت نہیں دکھاتے جو جونیئرز کا شیوہ ہے۔ کسی علاقے اور قصبے کو سڑک‘ بجلی‘ گیس اور صحت مرکز فراہم کرنا بھی وزیراعظم اور وزیراعلیٰ کی ذمہ داری ہے اور یہ طے کرنا بھی اعلیٰ حکومتی عہدیداروں کا استحقاق کہ کس علاقے کے عوام کو سکول چاہیے‘ مرکز صحت‘ صاف پانی اور ووکیشنل سنٹر یا سڑک اور میٹروبس۔۔۔ تو کہاں کا سسٹم؟ اور کون سے اختیارات کی نچلی سطح پر تقسیم؟ یہ اختیارات تو سعودی عرب کے شاہ سلمان‘ روس کے پیوٹن اور کیوبا کے آنجہانی فیوڈل کاسترو نے بھی شائد کبھی نہ برتے ہوں جنہیں بادشاہ‘ ڈکٹیٹر اور نہ جانے کن کن القابات سے نوازا گیا۔
فوج میں آرمی چیف کو اختیارات کے اعتبار سے آمر مطلق سمجھا جاتا ہے۔ ایک بار جنرل عبدالوحید کاکڑ نے کہا تھا کہ جب آرمی چیف چھڑی گھماتا ہے تو نظم و ضبط کے پابند اور جدید اسلحہ سے لیس چھ لاکھ افراد ایک ساتھ گھوم جاتے ہیں۔ مگر اپنے اختیارات کو اس بے دردی سے کوئی آرمی چیف بھی استعمال نہیں کرتا جس کا مظاہرہ ہمارے سول حکمران‘ وزیراعظم اور وزیراعلیٰ تو درکنار‘ ان کے وزیر‘ مشیر اور چہیتے ارکان اسمبلی کرتے ہیں، قومی وسائل میں بے رحمانہ خورد برد‘ کمیشن‘ کک بیکس اور تقرر و تبادلوں میں من مانی۔ بدکردار‘ راشی‘ قانون شکن اور چاپلوس افسروں و اہلکاروں کی سرپرستی اور نمائشی و آرائشی منصوبوں پر اربوں روپے کا ضیاع‘ حکمران اشرافیہ کا محبوب مشغلہ اور اپنا کام خوش اسلوبی سے انجام دینے والے اداروں اور افراد سے چھیڑ خانی‘ نفسیاتی روگ ہے۔ جس سے قومی سطح پر بے یقینی جنم لیتی اور انتشار و افتراق فروغ پاتا ہے۔ راحیل شریف کے دور میں مسلسل شکایت رہی کہ فوج نے اپنے حصہ کا کام جاں فشانی‘ دلجمعی اور جہادی جذبے سے کیا مگر نیشنل پلان کا وہ حصہ ہنوز تشنہ تکمیل ہے جو سول اداروں کی ذمہ داری تھی۔ کمان کی تبدیلی کی اطلاعات منظر عام پر آنے کے بعد کراچی‘ کوئٹہ اور لاہور میں جس طرح قانون شکن عناصر نے اودھم مچایا اور کئی گروہ سرگرم نظر آئے وہ لمحہ فکریہ ہے۔ 
راحیل شریف کی رخصتی سے ان عناصر کو یقیناً مایوسی ہوئی جو ملکی حالات کی بہتری کے لیے ایک ایسے ''مسیحا‘‘سے توقعات وابستہ کر چکے تھے جو پیشہ ور سپاہی تھا اور جمہوریت کے استحکام کا خواہش مند۔ احتساب کا عمل آگے نہیں بڑھ سکا جس کی اہم ترین وجہ فوجی آمر جنرل پرویز مشرف کو بچانا اور بحفاظت بیرون ملک بھجوانا ہے۔ اس کے بعد سویلین کے احتساب کا مطالبہ مذاق بن گیا۔یوں اپنی نالائقی اور نااہلی پر پردہ ڈالنے کے لیے ہر دوسرے، چوتھے روز فوجی مداخلت کا خدشہ محسوس کرنے اور عمران خان کی ہر سیاسی مہم کے پیچھے غیر مرئی قوتوں کا ہاتھ تلاش کرنے والے نام نہاد جمہوریت پسندوں کے سوکھے دھانوں پر اوس پڑ چکی ہے۔ تاہم راحیل شریف جو ایجنڈا چھوڑ کر گئے ہیں اور جس پر جُزوی عملدرآمد کی وجہ سے راحیل شریف کو غیر معمولی مقبولیت اور بین الاقوامی سطح پر شہرت حاصل ہوئی اس سے انحراف جانشین کے لیے آسان نہیں۔ ہر آرمی چیف اپنی مرضی کا مالک‘ ترجیحات متعین کرنے میں آزاد اور پیشرو سے الگ سوچ کا حامل ہوتا ہے مگر سیاسی‘ مذہبی اور فوجی قیادت کے اتفاق رائے سے طے پانے والے نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد اور ضرب عضب آپریشن کو کامیابی سے ہمکنار کرنا جنرل قمر باجوہ کی ترجیح ہو گی کیونکہ یہ ایجنڈا نتیجہ خیز ثابت ہوا اور کسی کامیاب ایجنڈے اور ماڈل کی بساط لپیٹ دینا آسان نہیں۔
کامیابی کے دعوئوں کے باوجود پاکستان اپنے ہمسایوں بھارت‘ افغانستان اور ایران سے سفارتی تعلقات بہتر بنانے میں ناکام رہا۔ امریکہ سے تعلقات میں بھی سردمہری آئی اور ہماری مشرقی و مغربی سرحدوں کا ماحول خاصا گرم ہے۔ اقتدار کے ایوانوں میں یہ کھسر پھسر ہوتی رہی کہ خارجہ پالیسی کا محاذ سنبھال کر راحیل شریف نے پاکستان کی سفارتی تنہائی کی راہ ہموار کی۔ ڈان لیکس اسی سوچ کا مظہر تھی اور حکمران طبقے سے قربت رکھنے والے دانشوروں اور میڈیا گروپوں کی تان اس پر ٹوٹتی رہی۔ اس حوالے سے جنرل قمر جاوید باجوہ کا لائحہ عمل کیا ہو گا؟ وہ اپنے پیشرو کے نقش قدم پر چلیں گے؟ میاں نوازشریف کی ہمسایوں سے مونچھ نیچی کر کے ہر قیمت پر دوستانہ تعلقات بحال کرنے کی پالیسی کی پیروی کریں گے اور مودی‘ اشرف غنی اور جان کیری کے مطالبات پر کان دھریں گے؟ یا اپنی الگ حکمت عملی ترتیب دیں گے؟ یہ ملین ڈالر کا سوال ہے۔ ناپاک بھارتی عزائم کا سدّباب‘ کشمیریوں کی تاریخ ساز مزاحمتی تحریک کی کامیابی، خالصتان تحریک کے احیا، ڈان لیکس کے ذمہ داروں سے نمٹنے اور پاک‘ بھارت سرحد پر موجود کشیدگی کو ختم کرنے کے لیے اُن کے ذہن میں کیا ہے؟ آرمی چیف کے فرمان امروز (آرڈر آف دی ڈے) اور چیف آف جنرل سٹاف کے تقرر سے اندازہ ہو گا۔ مودی کا نام لے کر للکارنے اور غیر ملکی سازشوں کا قلع قمع کرنے والا کوئی صاف گو جرنیل؟ یا دھیمے مزاج کا پیشہ ور افسر جو پاکستان کو ''خطرہ باہر سے نہیں اندر سے ہے‘‘ کے فلسفے پر کاربند ہو اور یہ سوچنے کی زحمت گوارا نہ کرے کہ یہ اندرونی خطرہ ‘بیرونی سرپرستی‘ مالی و اسلحی امداد اور ہلہ شیری کے بغیر کیسے پروان چڑھا اور اب بھی ٹلنے کا نام نہیں لے رہا تو ذمہ دار کون ہے؟ ابتدا میں جنرل راحیل شریف کی سوچ بھی ایسی تھی مگر پھر وہ دہشت گردوں کے بیرونی آقائوں کو للکارنے لگے۔ سوات‘ جنوبی و شمالی وزیرستان کے علاوہ کراچی اور بلوچستان میں آپریشن سے بچ کر بھاگنے والوں کو بیرون ملک بالخصوص افغانستان میں محفوظ ٹھکانے کس نے فراہم کئے اور پاکستان کے باغیوں کو عیش و عشرت کی زندگی بسر کرنے کے لیے وسائل کون فراہم کر رہا ہے؟ یہ نئے آرمی چیف اور چیف آف جنرل سٹاف کو سوچنا پڑے گا۔
راحیل شریف کو یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ اس نے صرف ملک دشمن عناصر اور بھارتی ایجنٹوں ہی نہیں بلکہ معاشی دہشت گردوں پر بھی ہیبت طاری کی۔ گزشتہ روز سید یوسف رضا گیلانی کے صاحبزادے حیدر گیلانی بتا رہے تھے کہ راحیل شریف کا نام سن کرمیران شاہ اور افغانستان میں اُن کے میزبانوں کا رنگ فق ہو جاتا تھا۔ یہی خوف پاکستان کے کرپٹ عناصر پر بھی طاری رہا مگر اب یہ خوف کم پڑ گیا ہے۔ جنرل قمر باجوہ نے یہ خوف برقرار رکھا تو ہمارے اندرونی و بیرونی دشمنوں اور معاشی دہشت گردوں کو دوبارہ سر اٹھانے اور پاکستان کے خلاف سازشوں کا ازسر نو آغاز کرنے کا موقع نہیں ملے گا۔ اگر، وہ ''ہرکہ آمد عمارت نو ساخت‘‘ کی راہ پر چلے، پھر بھی پاکستان کے اندرونی و بیرونی دشمن سکھ کا سانس نہیں لے پائیں گے۔ بھارتی میڈیا کے مطابق یہ آرمی چیف دوسروں کے مقابلے میں بھارتی عزائم سے زیادہ باخبر ہے اور اس کے ایجنٹوں سے بھی!!

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں