حق تلفی

اب ٹرمپ سے کیا گلہ اور نریندرمودی سے شکایت کیسی؟ اسلام تو پاکستان میں بھی مظلوم ہے۔ ایک ایسے ملک میں جو ''پاکستان کا مطلب کیا‘ لا الہ الا اللہ‘‘ کے نعرے پر تخلیق ہوا اور قائداعظمؒ نے اسے اسلام کی تجربہ گاہ قرار دیا‘ اٹھارہ سال سے کم عمر کے نوجوانوں کے قبول اسلام پر پابندی لگا دی گئی ہے۔
پاکستان کے حق میں قرارداد منظور کرنے والی سندھ اسمبلی میں قانون منظور ہوا ہے کہ کوئی بھی غیر مسلم اٹھارہ سال کی عمر تک پہنچنے سے قبل اسلام قبول نہیں کر سکتا۔ یہ اعزاز ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کی پیپلز پارٹی نے حاصل کیا ہے جو ہمیشہ ایک اسلامی آئین کی منظوری کا کریڈٹ لیتی رہی۔1973ء کے اس آئین کے تحت پاکستان کا سرکاری مذہب اسلام اور ریاست کا فرض معاشرے میں اسلامی اُصولوں کی ترویج اور مسلمان شہریوں کو اپنے عقائد کے مطابق زندگی بسر کرنے کے مواقع کی فراہمی ہے‘ دعویٰ یہ کیا جا رہا ہے کہ قانون غیر مسلموں بالخصوص سندھ میں بسنے والے ہندو شہریوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے منظور کیا گیا ہے۔
ہندو‘ سکھ‘ مسیحی‘ قادیانی اور دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والے لوگ پاکستان کے باعزت شہری ہیں اور ان کی حق تلفی کی اجازت پاکستان کا آئین دیتا ہے نہ اسلام۔ ''رسول اکرمﷺ نے فرمایا کہ جس شخص نے کسی غیر مسلم شہری کی حق تلفی کی‘ میں روز قیامت اس کے خلاف مدعی ہو گا‘‘ شفاعت کا طلبگار کوئی کلمہ گو روز قیامت اپنے اللہ کے حضور اس حال میں حاضر ہونے کا تصّور نہیں کر سکتا کہ سرکار دو عالمﷺ اس کے خلاف مدعی ہوں۔ پاکستان میں ظالم‘ جابر‘ منہ زورقانون شکن اور جرائم پیشہ عناصر طبقات بے آسرا مسلمانوں کی طرح کمزور غیر مسلموں پر ظلم کرتے ہیں‘ حق تلفی کے جس سنگدلانہ کلچر نے معاشرے میں پنجے گاڑ رکھے ہیں وہ مسلم‘ غیر مسلم‘ ہندو‘ مسیحی‘ سکھ کی تفریق کئے بغیر سب کو ایک لاٹھی سے ہانکتا ہے‘ سندھ میں میروں پیروں اور وڈیروں کے ہاتھوں سے اقلیتیں محفوظ ہیں نہ خواتین اور نہ غریب ہاری‘ جب تک فارن فنڈڈ‘ این جی اوز نے جنم نہ لیا تھا اور امریکہ کی سربراہی میں صلیبی اتحاد وجود میں نہ آیا تھا یہاں مظلوم کو مذہب‘ عقیدے اور زبان و نسل‘ علاقے کے خانوں میں بانٹنے اور مخصوص لیبل لگا کر انصاف فراہم کرنے کی سوچ پروان نہ چڑھی۔ مظلوم‘ مظلوم اور ظالم‘ ظالم سمجھا جاتا۔ ظالم کے خلاف مظلوم کے حق میں بلاتفریق مذہب‘ نسل‘ زبان اور علاقہ سب آواز بلند کرتے اور ایک دوسرے کے حق میں گواہی دیتے۔
بجا کہ تنگ نظر مذہبی طبقے نے معاشرے کو تقسیم کیا اور تعصّب و نفرت کی آبیاری کی مگر اس معاملے میں ہمارا لبرل اور سیکولر طبقہ بھی کسی سے پیچھے نہ رہا۔ مشرقی پاکستان میں زبان کا فتنہ مذہبی عناصر کا پیدا کردہ نہ تھا اور مغربی پاکستان میں سندھی‘ پنجابی‘ مہاجر‘ بلوچی‘ پختون تفریق میں بھی مذہبی جماعتوں کا کردار نہیں‘ ایک مخصوص اقلیت کے سوا جو پاکستان کے آئین کو مانتی ہے نہ اکثریت کے تصور اسلام کو‘ کسی اقلیتی گروہ نے مذہبی جماعتوں پر یہ الزام کبھی نہیں لگایا کہ وہ انہیں حقوق سے محروم رکھنے کے لیے سرگرم عمل ہیں‘ یہ شکایت ہندو اور مسیحی اقلیت کو ہمیشہ حکمران اشرافیہ ‘ جاگیرداروں‘ سرمایہ داروں اور وڈیروں سے رہی جو کمزور مسلمانوں کی طرح انہیں بھی اپنے ظلم و ستم‘ دادا گیری اور جبرواستحصال کا نشانہ بناتے ہیں۔ امریکہ کی شہ پر پاکستان میں انسداد توہین رسالتﷺ کے قانون کو ہمیشہ متنازعہ بنایا گیا مگر اس قانون کی زد میں آنے والے ایک بھی غیر مسلم کو ملنے والی عدالتی سزا پر کبھی عملدرآمد نہیں ہوا جبکہ توہین رسالتؐ اور توہین مذہب کے مرتکب افراد کے خلاف قانون کو ہاتھ میں لینے والے افراد سزایاب ہوئے۔ ممتاز قادری تازہ ترین مثال ہے۔ کلمہ گو اکثریت نے اس کا ذمہ دار کبھی کسی اقلیت کو قرار دیا نہ بغض پالا۔ کوٹ رادھا کشن اور جوزف کالونی کے المناک واقعات قوم کے لیے شرمندگی کا باعث بنے اور ہر طبقہ فکر نے ان کی بھرپور مذمت کی۔ مذہبی رہنما پیش پیش رہے اور اسے مذہبی تنازعہ نہ بننے دیا۔ چند روزقبل کوٹ رادھا کشن سانحہ میں ملوث افراد کو سزائے موت دی گئی تو کسی نے اعتراض نہیں کیا۔اس کے باوجود ایک طبقہ مسلسل دبائو بڑھاتا چلا آ رہا ہے کہ ریاست اکثریت کے حقوق‘ عقائد‘ جذبات اور زمینی حقائق کو پس پشت ڈال کر ایسی قانون سازی کرے جوان کے بقول اقلیتوں کو تحفظ فراہم کر سکے۔ 1974ء میں ہونے والی متفقہ آئینی ترمیم اور انسداد توہین رسالتؐ قانون اس طبقے کا خاص ہدف ہے اور امریکہ بہادر کے علاوہ یورپی یونین اس گروہ کی پشت پر ہے۔
سندھ میں ہندو برادری کے مذہبی‘ سیاسی‘ معاشرتی اور معاشی حقوق کا تحفظ حکومت اور ریاست کی ذمہ داری ہے اس برادری کی بچیوں کا اغوا اور سزا سے بچنے کے لیے زبردستی مسلمان بننے پر مجبور کرنا شرعی‘ اخلاقی اور قانونی جُرم ہے۔ جبراً مذہب کی تبدیلی اسلام میں روا ہے نہ مسلمانوں کی روایت۔ برصغیر میں غوری‘ تغلق‘ غزنوی‘ مغل حکمران اگر ہندوئوں کو مسلمان بنانے پر تل جاتے تو یہاں بھارت‘ نیپال‘ بھوٹان اوربنگلہ دیش میں کوئی غیر مسلم نظر نہ آتا۔ اسلام سید علی ہجویری ؒ‘ خواجہ غریب نواز چشتی ؒ‘ گنج شکر ؒاور سید علی ہمدانی ؒ ؒکی تبلیغ اور ریاضت کا نتیجہ ہے جن کا فیض آج بھی جاری ہے سندھ میں ایک آدھ قابل اعتراض واقعہ کی آڑ میں ہر نابالغ غیر مسلم کو اسلام کے دامن رحمت میں داخل ہونے سے روک دینا مناسب ہے نہ تقاضائے قانون ‘انصاف و انسانیت۔ مسلمانوں کے علاوہ ہندو اور مسیحی برادری کے مطالبہ کے باوجود شراب فروشی کی کھلی چھوٹ اور قبول اسلام پر پابندی ایک ایسے وزیراعلیٰ کے دور میں ناقابل فہم ہے جو اپنا سلسلۂ نسب حضور اکرمﷺ سے جوڑتا اور سیّد ہونے پر فخر کرتا ہے۔ خدا کا شکر ہے کہ یہ حکومت اور اسمبلی رسول اکرمﷺ کے دور میں موجود تھی نہ امریکی خواہشات اور ڈکٹیشن کے مطابق عوام کے عقائد‘ حقوق اور خواہشات کی مٹی پلید کرنے والی جمہوریت‘ ورنہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم (عمر 10-8 برس) حضرت عمیر بن ابی وقاصؓ (16 برس) معاذ ؓبن عمر بن جموع (13-12 برس) زیدؓ بن ثابت ابوجہل کو کیفرکردار تک پہنچانے والے معاذ بنؓ عفیر (12 برس) عمیرؓ بن سعد (10 برس) اورابو سعید خدریؓ حضور اکرمﷺ کے دست حق پرست پر اسلام قبول کر پاتے نہ غزوات میں شرکت کا اعزاز۔ باب الاسلام سندھ میں سولہ سترہ سال کے نوجوانوں پر قبول اسلام کے دروازے بند کئے جا رہے ہیں‘ ایسی پابندی یورپ اور امریکہ میں ہے نہ فی الحال بھارت میں۔ مگر پاکستان کی ایک اسمبلی نے یہ اعزاز حاصل کر لیا ہے اب نریندرمودی‘ ڈونلڈ ٹرمپ اور امریکہ و یورپ ہم پر خوش نہ ہوں تو یہ قسمت کی خرابی ہے ہم اپنے خدا اور رسولﷺ کو ناراض کر کے دنیا بھر کو خوش کرنے کی پالیسی پر گامزن ہیں خوش کوئی نہیں ہوتا طعنہ پھر بھی بنیاد پرستی‘ انتہا پسندی اور تنگ نظری کا سننا پڑتا ہے۔ باب الاسلام سندھ میںکم سنوں کے قبول اسلام پر پابندی پر الطاف حسین حالی یاد آئے ؎
اے خاصہ خاصان رُسل وقت دعا ہے
اُمت پہ تری آکے عجب وقت پڑا ہے
جو دین بڑی شان سے نکلا تھا وطن سے
پردیس میں وہ آج غریب الغربا ہے
جو دین کہ تھا شرک سے عالم کا نگہبان
اب اس کا نگہبان اگر ہے تو خدا ہے
جس دین کی حُجّت سے سب دین تھے مغلوب
اب معترض اس دین پہ ہر ہرزہ سرا ہے

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں