ایک زود فراموش قوم کا مقدّر ایسے ہی حادثے ہوتے ہیں۔ دلخراش اور جگر سوز‘ سبق مگر کوئی حاصل نہیں کرتا‘ حکمران نہ عوام۔ جولائی 2006ء میں ملتان ایئر پورٹ سے اُڑنے والا فوکر طیارہ چند منٹ بعد انجن کی خرابی کے باعث ایئر پورٹ کے قریب گر گیا۔41 افراد جاں بحق ہوئے جن میں لاہور ہائی کورٹ کے دو جج اور ایک مایہ ناز ڈاکٹر شامل تھے۔ جسٹس نواز بھٹی مرحوم سے دیرینہ شناسائی تھی اور لاہور میں موجودگی کے دوران نماز جمعہ ایک مسجد میں ادا کرتے تھے۔ اسی جہاز میں ہمارے دیرینہ دوست اقبال ہاشمی کی صاحبزادی اور مخدوم جاوید ہاشمی کی نوبیاہتا بھانجی کنول ہاشمی اپنے میاں سلیم ہاشمی کے ساتھ سوار تھیں جنہیں لاہور کی کوٹ لکھپت جیل میں اپنے ماموں سے ملاقات کے بعد عمرہ پر چلے جانا تھا۔ لہٰذا اس حادثے نے ذاتی دکھ دیا جس کی کسک آج تک محسوس ہوتی ہے۔ اکتالیس قیمتی انسانی جانوں کا ضیاع قومی سانحہ تھا‘ اس حادثہ کے بعد پی آئی اے نے فوکر طیاروں کو گرائونڈ کر کے اے ٹی آر طیارے خریدنے کا فیصلہ کیا مگر اس سانحے کا افسوسناک بلکہ شرمناک پہلو یہ بھی تھا کہ تحقیقات میں حادثے کی ذمہ داری پائلٹ پر عائد کی گئی اور معاملہ داخل دفتر ہو گیا۔ انجن کی خرابی‘ ناقص جانچ پڑتال اور عمر رسیدہ طیاروں کی پرواز کا ذمہ دار‘ کسی کو قرار دیا گیا نہ مستوجب سزا۔
اتنے بڑے حادثے پر سزا تو خیر کسی کو کیا ملنی تھی ملتان ایئر پورٹ کے منیجر کو خصوصی ایوارڈ سے نوازا گیا۔ ہوا یوں کہ حادثے کے فوری بعد ایک ریٹائرڈ بریگیڈیئر صاحب نے‘ جو پنجاب میں سول ایوی ایشن کے مدار المہام اور جنرل پرویز مشرف کے لنگوٹیے تھے‘ سفارش کی کہ حادثے کے روز ملتان ایئر پورٹ کے منیجر سب سے پہلے جائے حادثہ پر پہنچے اور امدادی سرگرمیوں کی نگرانی کی لہٰذا انہیں خصوصی ایوارڈ دیا جائے۔ جنرل پرویز مشرف کو یہ فائل پیش کی گئی تو وہ غصہ کھا گئے اور بقول شخصے کہا''طیارے کا ایک مسافر زندہ نہیں بچا‘ سب جل کر راکھ ہو گئے‘ ایئر پورٹ منیجر کو کیا اس خدمت کا انعام دیا جائے؟‘‘ یوں فائل مسترد ہو گئی مگر جونہی دو سال بعد منتخب حکومت کو اقتدار منتقل ہوا تو وزیر اعظم مخدوم یوسف رضا گیلانی نے موصوف کو یہ ایوارڈ عطا کیا کہ مبینہ طور پر مجوسیئں کے ہم پیالہ و ہم نوالہ تھے۔
طیاروں کے حادثات دنیا بھر میں ہوتے ہیں حال ہی میں برازیل کا طیارہ گرا جس میں قومی فٹ بال ٹیم سوار تھی مگر ایسے حادثات کے بعد بے لاگ تحقیقات کا ڈول ڈالا جاتا ہے‘ کوتاہی کے ذمہ داروں کا تعین ہوتا ہے اور انہیں عبرت ناک سزائیں دی جاتی ہیں، غفلت و لاپروائی اور حادثات کی روک تھام کا یہ مجرب نسخہ ہے۔
یہاں کا باوا آدم مگرنرالا ہے،1951ء سے اب تک وقوع پذیر ہونے والے فضائی حادثات کی تحقیقات کا کوئی نتیجہ سامنے نہیں آیا‘ حتیٰ کہ جنرل ضیاء الحق اور جنرل اختر عبدالرحمن کے علاوہ امریکی سفیر آرنلڈ رافیل سمیت بہاولپور حادثے کی نذر ہونے والے اہم حکومتی و فوجی عہدیداروں کی موت آج تک معمّہ ہے چونکہ ایسے حادثات میں کوتاہی کے مرتکب افراد کا کبھی تعین ہوا نہ کسی کو سزا ملی ۔یوں ایک کے بعد دوسرا سانحہ ظہور پذیر ہوتا اور چند روزہ آہ و بکا‘ شور و غوغا کے بعد سرکاری فائلوں کے انبار میں گم ہو جاتا ہے۔ اس لاپروائی بے حسی‘ ڈھٹائی کی وجہ؟ جب اے ٹی آر طیاروں کی خریداری کے موقع پر تجربہ کا انجینئرز اور پائلٹس کی رائے مسترد کر کے طیارے خریدے جائیں‘ پرانے جہازوں کی جگہ نئے جہاز خریدنے کے بجائے سری لنکا سے چند پرانے جہاز کرائے پر لے کر ''برینڈ نواز شریف‘‘ کی ٹوئیٹس کی جائیں‘جب پی آئی اے کے کھٹارا جہازوں کی بروقت جانچ پڑتال سے غفلت مگر حکمرانوں کی آمدو رفت کے لیے مختص جہازوں کی دیکھ بھال کے لیے کروڑوں کا بجٹ مختص ہو اور دو اڑھائی سال تک پی آئی اے کا چیئرمین رہنے والا شخص اپنی ذاتی ایئر لائن بنا لے، کوئی پوچھنے والا نہ ہو‘ ایک بی ایم ڈبلیو گاڑی کی فروخت سے ایک کروڑ روپے سے زائد منافع ہو اور پی آئی اے کا جہاز صرف ستاون لاکھ روپے میں بیچ کر کمشن کھرا کر لیا جائے ‘ مبینہ طور پر ‘ ایک انجن کی خرابی کے باوجود جہاز کو چترال جیسے پیچیدہ و خطرناک روٹ پر چلایا جائے تو نتیجہ یہی برآمد ہو گا جو گزشتہ روز المناک سانحے کی صورت میں سامنے آیا اور 47خاندانوں کو زندگی بھر کے لیے سوگوار کر گیا۔
یہ اتفاقی حادثہ ہے نہ ماضی میں ہونے والے بیشتر حادثات اتفاقی تھے۔ کرپشن‘ سفارش‘ اقربا پروری اور غلط بخشی کے، منحوس کلچر نے پاکستان کو جکڑ رکھا ہے، کرپشن جرم ہے نہ دوست نوازی عیب اور نہ من مانی باعث ندامت۔ نظام عدل کرپٹ مافیا کے لیے موم کی ناک،قانون تارعنکبوت اورعوام بے بس و بے حس تماشائی۔ یہ حادثہ اس کلچر کا منطقی نتیجہ ہے۔ ہر حادثے کا ذمہ دار پائلٹ کو قرار دے کر اصل کرداروں کو انسانی ہمدردی کے تحت نہیں بچایا جاتا‘ یہ بھی طے شدہ حکمت عملی کا حصہ ہوتا ہے اور ایک دوسرے کی پردہ پوشی کا روائتی طریقہ۔ قومی اداروں میں تقرر میرٹ پر ہوتا ہے نہ ترقی قواعد و ضوابط اور مسلّمہ طریقہ کار کے مطابق ملتی ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو مرحوم نے تباہ شدہ پی آئی اے کا سربراہ ایک معروف صنعت کار رفیق سہگل مرحوم کو مقرر کیا مگر یہ اقربا پروری تھی نہ دوست نوازی۔ رفیق سہگل مرحوم نے ذاتی سرمایہ لگایا‘ بھر پور محنت کی اور قومی ایئر لائن کو ایک بارپھر ایئر مارشل اصغر خان اور ایئر مارشل نور خان کے دور کا منافع بخش ادارہ بنا دیا ۔بعدازاں مگر ہر فوجی اور سول حکمران نے اپنے چہیتوں کو اس ایئر لائن کی باگ ڈور سونپ کر کرپشن‘ نااہلی اور سفارشی بھرتیوں کا ریکارڈ توڑا۔ ضیاء الحق ‘ نواز شریف‘ بے نظیر بھٹو ‘ پرویز مشرف اور آصف علی زرداری میں سے کوئی مستثنیٰ نہیں۔ انہی ادوار میں ازکار رفتہ جہازوں اور ناکارہ پرزوں کی خریداری‘ سفارشی بھرتی، نااہل افراد کے تقرر‘ بے تحاشہ کرپشن اور من پسند افراد کے لیے، بے جا مراعات کے سکینڈل سامنے آئے اور دنیا کی بہترین ایئر لائن پاکستان ریلوے اور سٹیل ملز کے حشر سے دوچار ہوئی۔ کراچی کے ہوٹل اور حویلیاں میں رینجرز اور فوج کو موجود اور سول ڈیفنس سمیت دیگر سول اداروں کو غائب پا کر سول بالادستی کے علمبردار کسی شخص کو ندامت محسوس ہوئی؟
جنید جمشید کو اللہ تعالیٰ کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے نیک مقصد کے لیے نکلے تھے شہادت کے بلند مرتبہ پر فائز ہوئے۔ شہرت‘ دولت‘ شوبز کی چمک دمک اور منہ زور جوانی کے مشاغل سے منہ موڑ کرسنت نبویؐ یعنی دعوت و تبلیغ کو معمول بنانے، عشق رسولﷺکی جوت جگانے اور نعت خوانی سے عاشقان رسولؐ کے دل موہ لینے والا یہ شخص اندرون و بیرون ملک کروڑوں انسانوں کو رُلا گیا۔ جہاد بالنفس کو سرور کائنات ؐ نے جہاداکبر قرار دیا اور جنید جمشید نے سچے عاشق رسولؐ کی طرح یہ کارنامہ انجام دیا‘ اپنی طرح ہزاروں دیگر بھولے بھٹکے انسانوں بالخصوص نوجوانوں کی زندگی بدلی۔ یہی جہاد اکبر ہے۔ جنید نے فوزو فلاح کی راہ اختیار کی اور کامران رہا ۔
شیر شاہ سوری جیسے کسی قدامت پسند حکمران کے دور میں یہ سانحہ رونما ہوتا تو قومی ایئر لائن کے فیصلہ سازوں اور ان کے سرپرستوں کی خیر نہیں تھی‘ ہر ایک پر دفعہ 302(قتل عمد) کا مقدمہ درج ہوتا اور 47 بے گناہوں کے قاتل کیفرکردار کو پہنچتے، جمہوری دور میں یہ'' اتفاقی‘‘ حادثہ ہے جس کی ڈیڑھ دو سال بعد رپورٹ میں مرحوم پائلٹ کو ذمہ دار قرار دے کر فائل داخل دفتر کردی جائے گی، کہ یہی ہماری قومی عادت اور زود فراموش قوم کا مقدّر ہے۔ سوگواروں کے سوا کس کو فکر کہ یہ رونے نہیںجاگنے اور گریبانوں پر ہاتھ ڈالنے کا لمحہ ہے۔ سبق حاصل کرنے کا بھی ؎
بچھڑ جائیں گے ہم لیکن
ہماری یاد کے جگنو‘تمہاری شب کے دامن میں
ستارہ بن کے چمکیں گے
تمہیں بے چین رکھیں گے
بہت مصروف رہنے کے بہانے تم بنائو گے
بہت کوشش کرو گے تم
کہ اب موسم جو بدلیں تو تمہاری یاد نہ آئے
مگر۔ایسا نہیں ہو گا
کہیں جو سرد موسم میں
دسمبر کی ہوائوں میں
تمہارے دل کے گوشوں میں
جمی ہیں‘ برف کی طرح
وہ یادیں کیسے پگھلیں گی
بچھڑ جائو!! مگر سن لو
ہمارے درمیان‘ ایسی کوئی تو بات بھی ہو گی
جسے تم یاد رکھو گے
(شائستہ نزہت)