"IMC" (space) message & send to 7575

بکائو مال

بیرسٹر احمد رضا قصوری بہادر ہیں لیکن ہارے ہوئے لشکر کا مقدمہ لڑرہے ہیں ۔انہوں نے اپنی مایوسی اور ناامیدی کا غصہ اسلام آباد کے ایک صحافی پر اتارا۔قصوری کا برافروختہ ہوناہرگز اچنبھے کی بات نہ تھی،صرف قصوری ہی نہیں یہاں اکثر مضبوط اعصاب کے دعوے دار وںکے اوسان بھی خطا ہوجاتے ہیں۔ان کے نزدیک معیارحق وباطل یہ ہے کہ جو ہمارے نقطہ نظر سے اتفاق کرتاہے وہ محب وطن اور باقیوں کا اللہ ہی حافظ ہے۔طالبان یا شدت پسندوں کے حامی سیاسی رہنما ہی نہیں‘ قلمکار بھی جارحانہ انداز گفتگواختیار کرتے ہیں ، بغیر کسی ثبوت اور دلیل کے مخالفین کو بکائو مال قراردیتے ہیں۔ احساس محرومی کا شکار بعض افراد بھی اس طرح کی مہم میں شامل ہوجاتے ہیں اور کردارکشی کا سلسلہ دراز ہوتاجاتاہے۔
قصوری کی تلخ کلامی اور الزام تراشی محض ایک شخص کی ذاتی مایوسی کی نشان دہی نہیں کرتی بلکہ ہماری اجتماعی ذہنیت بالخصوص سماج کی نظریاتی اور سیاسی تقسیم کی بھی عکاسی کرتی ہے۔قیام پاکستان کے ساتھ ہی حکمران طبقے نے حب الوطنی کے سرٹیفکیٹ تقسیم کرنے کا کاروبار شروع کردیاتھا ۔افسوس !معاشرے میں ہر اہم سیاسی اور سماجی مسئلے پر سخت گیر اور قدامت پرستانہ نقطہ نظر کا پرچار کرنے والوں کو پذیرائی ملتی رہی۔ان افراد کو سرآنکھوں پر بٹھایاگیا جنہوں نے سازشی تھیوریاں گھڑنے کی فیکٹریاںلگائی رکھی تھیں۔وہ نظریاتی اور سیاسی مخالفین کا ابطال استدلال کے بجائے کردار کشی کے ہتھیار سے کرتے رہے۔
عدم برداشت کے رویے میں شدت جنرل ایوب خان کے مارشل لاء کے زمانے سے ہی آنا شروع ہوگئی تھی۔انہوں نے مخالفین کا عرصہ حیات تنگ کیا ، سیاستدانوںکو جیلوں میں ڈالااور گاہے ان کی تذلیل کی گئی۔مادرملت فاطمہ جناح جیسی ہستی کو بھی نہ بخشاگیا ، ان کے کارٹون بنائے گئے ، نجی زندگی پر بھی رکیک حملے کیے گئے۔ذوالفقار علی بھٹو کی وزارت عظمیٰ میں مخالفین کا نہ صرف ناطقہ بند کیا گیا بلکہ خواجہ رفیق اور ڈاکٹر نذیر احمد جیسے بے باک ارکان پارلیمنٹ کو موت کے گھاٹ اتارا گیا۔ان کے قتل کا الزام بھٹو حکومت پر لگا لیکن شفاف تحقیقات کے ذریعے مجرموںکو کیفرکردار تک نہیں پہنچایا گیا۔جنرل ضیاء الحق نے سیاسی مخالفین کی زندگی ہی اجیرن نہیں کی، انہوں نے شدت پسند مذہبی طبقہ کو بڑھاوا بھی دیا۔ان کی سرپرستی میں سیاست اور مذہب کا ایسا ملغوبہ تیار ہوا کہ عدم برداشت معاشرے کا طرئہ امتیاز بن گیا ۔
پرویز مشرف نے شدت پسندی کو ریورس گیئر لگانے کی بہت کوشش کی۔علماء سے مذاکرات کیے ، مدارس کے نصاب میں تبدیلی کے لیے مالی وسائل فراہم کیے ، ماڈل مدرسے بنائے گئے۔کمپیوٹر ،ریاضی اور انگریزی کو بھی نصاب کا حصہ بنایا گیالیکن کوئی خاص فرق نہ پڑا کیونکہ افغانستان میں امریکا اور اتحادی فوجوں نے جس طرح عام افغان شہریوں کو برتا اس نے بحث ومباحثہ کا رخ ہی بدل دیا۔اسی اثناء میںاسٹیبلشمنٹ کی امریکا سے کشیدگی پیداہوگئی تو اس نے اخبارنویسوں کے ایک ایسے طبقے کو پروان چڑھایا جو دن رات امریکہ مخالف جذبات بھڑکاتا ہے۔اب اس کی روزی روٹی کا دارومدار اسی کاروبار سے وابستہ ہے۔
لاہورکے ایک موقر روزنامہ میں لکھنے والے ایک قلم کارسے ملاقات ہوئی، وہ مسلسل بھارت مخالفین مضامین لکھتے ہیں۔اکثر ان میں کوئی نئی بات نہیں ہوتی ، اس کے باوجود قلم گھسیٹ رہے ہیں۔ان سے استفسار کیا : آپ کا اخبار کالموں یا مضامین کا اتنا کم اعزازیہ دیتاہے کہ اس سے گزر اوقات تو درکنار بجلی و گیس کا بل بھی نہیں بھرا جاسکتا۔انہوں نے بڑی رازداری سے بتایا کہ مجھے کچھ ادارے مالی معاونت فراہم کرتے ہیں۔اخبار کے کالم اور مضامین تو محض پروپیگنڈا مہم کا ایک حصہ ہیں۔ وید بھسین جموں اور سری نگر سے نکلنے والے انگریزی روزنامہ کشمیر ٹائمز کے ایڈیٹر ہی نہیں بلکہ ایک بہت ہی معتبر شخصیت ہیں۔انہوں نے بتایا کہ ان کے اخبار میں ایک ریٹائرڈ سرکای افسر ہر ماہ چار مضامین لکھتے ہیں،ان میں سے دو لازماًپاکستان مخالف ہوتے ہیں۔تحقیق کی تو پتا چلا کہ کچھ ادارے ان مضامین کے عوض موصوف کی بھی'عزت افزائی‘ کرتے ہیں۔
ریاستی ادارے خود بکائو مال پیدا کرتے ہیں ، ان کی سرپرستی کرتے ہیں ، جب ان کا واسطہ آزاد منش اخبار نویسوں سے پڑتاہے تو وہ یقین نہیں کرتے کہ کچھ لوگوں میں اپنے ضمیر کے مطابق کسی کی حمایت یا مخالفت کا دم ہوسکتاہے۔ خود ساری زندگی اس طرح کے سیاہ کارناموں میں ملوث رہتے ہیں کہ سوچ بھی نہیں سکتے کہ دنیا میں آزاد اخبار نویس نامی شے بھی پائی جاتی ہے۔
کراچی میں جب ایم کیوایم کا طوطی بولتاتھا تو چند اخبار نویس اس کے سامنے تن کر کھڑے ہوگئے ، ایم کیوایم کے طرزسیاست کو مسترد کیا۔بعدمیں فوجی آپریشن ہوا تو انہی اخبارنویسوں نے شہریوں کے ساتھ ہونے والے ناروا سلوک کی کہانیاں رقم کیں اور ریاستی اداروں کو ندامت کا سامنا کرنا پڑا۔اس آزادانہ طرزعمل کا انہیں خمیازہ بھی بھگتنا پڑا لیکن وہ جھکے اور نہ بکے۔پاکستان میں صحافیوں نے سرگرم جدوجہد کے بعد یہ مقام حاصل کیا کہ اب ریاستی ادارے اور حکمران ان کی بات دھیان سے سنتے ہیں۔ وہ قانون کی بالادستی کو یقینی بنانے پر اصرار کرتے ہیں۔لاپتا ہونے والے شہریوں کی کتھا عوام کو سناتے ہیں۔شدت پسندوں اور ان کے سیاسی حامیوں کے بیانات کو مسترد کرتے ہیں۔اس لیے انہیں قصوری کی طرح کے لوگ بکائو مال قراردیتے ہیں ،انہیں ملک دشمن باورکرانے کی کوشش کرتے ہیں ، ان کی بے باکی اکثر سٹیک ہولڈرز کو بھی پسند نہیں آتی لہٰذا وہ انہیں بدنام کرنے کی مہم چلاتے رہتے ہیں۔
کالی بھیڑیں کہاں نہیں ہوتیں ۔ میڈیا بھی ان سے پاک نہیں لیکن زیادہ تر لوگ اصولوں پر مفاہمت نہیں کرتے۔حق بات کرتے ہیںاور ہمیشہ استدلال کے سامنے سرجھکاتے ہیں۔یہی لوگ صحافت کے ماتھے کا جھومر ہیں۔صحافیوں کی تحریریں اور گفتگو سے یہ عیاں ہوجاتاہے کہ وہ آزادی کے ساتھ اپنا مافی الضمیر کا اظہار کررہے ہیں یا نہیں۔صحافی کو ہر روز ون ڈے کرکٹ میچ کی طرح کھیلنا ہوتاہے ۔ اسی دن اس کی فتح اور شکست کا فیصلہ ہوجاتاہے ، اس لیے وہ زیادہ محتاط اور حقائق کے قریب رہتاہے۔اس کے برعکس بیرسٹر قصوری اور ان کے ہم پیشہ افراد کسی بھی مقدمہ کی پیروی کرسکتے ہیں۔انہیں رائے عامہ کی نہیں بلکہ محض اپنے معقول معاوضے کی فکر ہوتی ہے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں