"IMC" (space) message & send to 7575

پل صراط پرسفر

لندن کے زیرزمین ریلوے میں سفرکے لیے جونہی اسٹیشن کے اندر قدم رکھا ، نظر اچانک ایک اشتہار پرجم گئی اور دل کی دھڑکن تیزتر ہوگئی۔ لکھا تھا: شام کی مظلوم عورتوں کے لیے کچھ رقم عطیہ کریں، حکومت بھی اس کے مساوی حصہ ڈالے گی۔ نیویارک اور واشنگٹن میں بھی ایسے مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں۔ مغربی دنیا میں رائے عامہ کوشامی شہریوں بالخصوص عورتوں اوربچوں پر ہونے والے مظالم کی داستانیں نمک مرچ لگا کر سنائی جارہی ہیں۔ان ممالک میں شام سے فرار ہوکر پناہ حاصل کرنے والے شہریوں کی ایک معقول تعداد آباد ہے۔ وہ بلاجھجک بشارالاسدکی حکومت پر نکتہ چینی کرتے ہیں ۔ ریاستی اداروں کے ہاتھوں بے گناہ شہریوں پر ڈھائے جانے والے ظلم کی داستانیں سناتے ہیںاور لوگوں کو رلاتے ہیں۔
ماروش ایک لبنانی ریسٹورنٹ ہے جو اپنے لذیذ کھانوں اور روایتی میزبانی کے لیے مشہور ہے۔ وطن لوٹنے سے قبل احباب نے ماروش میں الوداعی دعوت کا اہتمام کیا۔اتفاق سے ایک صاحب اپنے شامی دوست مومن کو بھی لے آئے۔ مومن کی حالات پرگہر ی نظر ہے اوروہ شام میں پائی جانے والی کشیدگی کا قریبی گواہ بھی ہے۔اس شام وہ تادیر بے تکان گفتگوکرتا رہااورہمارے دلوں کے تاروںکو ہلاتا رہا۔
مومن نے بتایا کہ ہزاروں کی تعداد میں القاعدہ اوردنیا بھرکے سخت گیر عسکریت پسند شام کے مختلف علاقوں میں جمع ہوچکے ہیں۔ ان میں عرب ہی نہیں،یورپی اور پاکستانی جہادی بھی شامل ہیں۔ برطانیہ کے کئی درجن شہری ترکی اور اردن کے راستے شام میں داخل ہوچکے ہیں۔ایک اندازے کے مطابق دنیا کے چالیس ممالک سے سات ہزار کے لگ بھگ جنگجو شام پہنچ چکے ہیں اور یہ سلسلہ جاری ہے۔خلیجی ریاستوں میں سرعام چندے جمع کیے جارہے ہیں، حتیٰ کہ ایک عرب عالم نے فتویٰ دے دیا ہے کہ جنگ کے دوران اسد حکومت کی حامی عورتوں کو باندی یاکنیز بنانے کی شرعی اجازت ہے۔ مساجد میں شامی جنگجوئوں کی کامیابی کی دعائیں مانگی جاتی ہیں۔
شام کے خلاف جاری تیاریوں اور مغربی ممالک کے لیبیا اور عراق کے خلاف کیے گئے کامیاب فوجی آپریشن کے پس منظر میں یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ شام کی موجودہ حکومت کے دن گنے جاچکے ہیں، وہ چند ماہ کی مہمان ہے ۔ بشارالاسد کی حکومت کے خاتمے سے دنیائے عرب کی سیاست کی چولیں ہل جائیں گی۔آج حکومت تبدیل کرانا کوئی بڑا کارنامہ تصور نہیں کیا جاتا بلکہ اس کے بعد آنے والے نظام کو اپنے پائوں پر کھڑاکرنا اور فساد ات پر قابو پانا اصل چیلنج بن جاتاہے۔ لیبیا ، عراق اور افغانستان میں حکومتوں کی تبدیلی کے بعد لاکھوں بے گناہ شہری جاں بحق ہوئے اورابھی تک ان ممالک میں سیاسی استحکام بعید ازامکان ہے۔
شام اب جنگ کا نیا تھیٹر ہے۔ دمشق کے گردونواح میں اس کے بدترین مخالفین اور حامیوں کی کمی نہیں۔ عر ب ممالک اور ترکی اسد حکومت کے خاتمے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگارہے ہیں ، وہ اسے ایک ظالم حکمران کی شکل میں پیش کرتے ہیں۔ خود اسد حکومت نے اپنے شہریوں کے ساتھ کوئی اچھا سلوک نہیں کیا کہ وہ اس کی پشت پر ہوتے۔ دنیا بھر میں رائے عامہ خاندانی حکومتوں اور جماعتوں سے عاجزآچکی ہے، وہ تبدیلی کی ہر لہر کا خیر مقدم کرنے کے لیے منتظر رہتی ہے۔اس کے برعکس ایران اور کسی حد تک روس شامی حکومت کی حمایت کرتے ہیں ۔ بعض مبصرین کہتے ہیں کہ بشارالاسد تہران کے ہاتھوں کٹھ پتلی بن چکا ہے۔
حال ہی میںنون لیگ کی حکومت نے مشرق وسطیٰ میں تعینات اپنے سفیروں کو مشاورت کے لیے اسلام آباد طلب کیاتھا۔ سینئر سفارت کاروں نے حکومت کو مشورہ دیا کہ وہ پرائی آگ میں ہاتھ جلانے سے گریزکرے۔ اس کانفرنس کے بعد وزیراعظم نوازشریف تہران تشریف لے گئے جہاںانہوں نے ایرانی قیادت کو یقین دلایا کہ پاکستان ایران کے ساتھ گہرے دوستانہ تعلقات قائم کرنے کا خواہش مند ہے۔گیس پائپ لائن کو مکمل کرنے کے حوالے سے بھی متبادل راستوں پر غورکیا گیا۔ دورے کابنیادی مقصد ایران کے خدشات اور تحفظات کا ازالہ تھا؛ تاہم اگلے چند ہفتوں میں ہی معلوم ہوگا کہ پاک ایران تعلقات کی اصل نوعیت کیا ہے ۔
عرب ممالک شام میں حکومت کی تبدیلی اور بشارالاسد خاندان کو منظر سے ہٹانے کا تہیہ کرچکے ہیں۔ وہ اس منصوبے کے لیے دیگر مسلم ممالک بالخصوص پاکستان کی حمایت کے حصول کے لیے بے چین ہیں۔
یہ ممالک پاکستان کی خفیہ جنگیں لڑنے کی مہارت سے استفادہ کرنا چاہتے ہیں۔ان کا خیال ہے کہ افغانستان میں سوویت یونین کے خلاف جہاد میں جنگجوئوںکو تربیت دینے کا جو تجربہ پاکستان کو حاصل ہوا وہ کسی دوسرے ملک کو نہیں۔ پاکستان کی اسلحہ ساز فیکٹریاں چھوٹے اور جدید ہتھیار بھی تیار کرتی ہیں جو خفیہ اور محدود جنگوں میں کام آتے ہیں۔ پاکستان سے ایسے ماہرین کے حصول میں بھی دلچسپی ظاہر کی گئی جو شامی حکومت کے خلاف لڑنے والے لڑاکوں کی ٹریننگ کرسکیں۔ابھی تک پاکستان گریز پا ہے لیکن کب تک مزاحمت کرسکے گا، اس بارے میں یقین سے کچھ کہنا قبل ازوقت ہے۔ ڈالروں اور ریالوں کی چکاچوند سے اکثر ہماری آنکھیں خیرہ ہوجایاکرتی ہیں۔
پاکستان کو افغانستان میں جاری کشمکش کا بہت تلخ تجربہ ہوا ہے۔ پاکستان اور ایران دونوں اپنے حامیوں کو افغانستان میں مسلح کرتے رہے اور وہ ایک دوسرے کی گردنیں مانپتے رہے۔ بھارت بھی اس کھیل کا حصہ بنا اورایران کے اشتراک سے دونوں نے مل کر شمالی اتحادکو منظم کیا۔اس وقت افغانستان سے امریکہ اور نیٹو افواج کے انخلا ء کا عمل شروع ہوچکا ہے ، اس پس منظر میںپاکستان ایران کے ساتھ محاذ آرائی کا متحمل نہیں ہوسکتا کیونکہ یہ پاکستان کو عدم استحکام کا شکار کرسکتی ہے۔ علاوہ ازیں اس کے منفی اثرات پوری مسلم دنیا پر مرتب ہوسکتے ہیں۔ مسلم دنیا پہلے ہی تاریخ کے ایک بڑے خلفشار سے گزررہی ہے۔ عرب ممالک کے اندر پائی جانے والی بے چینی ، عربوں اور ایران کے مابین جاری کشمکش نے مسلمانوں کو پوری دنیا میں نہ صرف تقسیم کررکھا ہے بلکہ وہ اکثر مقامات پر ایک دوسرے کے خلاف صف آراء بھی ہیں۔
مغربی ممالک اور امریکہ اس کشمکش کو کھیل تماشا سمجھتے ہیں اور انہیں مسلم ممالک میں سیاسی استحکام سے کم ہی دلچسپی ہے۔ وہ اپنے مفادات کے علاوہ معاشی اور سیاسی بالادستی کو یقینی بنانے میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں۔ پاکستان کے پاس وسائل کم ہیں اور وہ بے پناہ معاشی مشکلات سے بھی دوچار ہے، اس لیے کبھی کبھی یہ رائے غالب آجاتی ہے کہ جہاں سے بھی ملک کو فوری معاشی فائدہ ہواسی قوت کا ساتھ دیا جائے۔ بظاہر یہ منطق صائب نظر آتی ہے لیکن اس کے دور رس منفی اثرات کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ وزیراعظم نواز شریف نے اچھاکیا کہ وہ ایران تشریف لے گئے لیکن انہیں عرب ممالک اور ایران کے مابین توازن برقراررکھنے کے لیے غیر معمولی طور پر محنت کرنا ہوگی۔ ایسے اقدامات سے گریزکرنا ہوگا جو کسی ایک ملک کو ناراض اور دوسرے کو خوش کرنے کا سبب بنتے ہوں۔ یہ کام تنی ہوئی رسی پر چلنے کے متراد ف ہے ، اس لیے اسے پل صراط پر سفر قراردیا گیاہے لیکن پاکستان کو اس پل صراط پر سے بہرحال گزرنا ہوگا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں