"IMC" (space) message & send to 7575

ایک قوم ایک خون

عرصہ ہوا پشاورکے ایک گرجا گھر میں عبادت کی غرض سے آنے والوں کو خاک وخون میں نہلادیا گیا تھا اور ملک کے طول وعرض میں شہری بلبلا اٹھے تھا ۔ اگلے دن میں اسلام آباد کے ایک پوش علاقے سے گزررہاتھا کہ ہڑبونگ کا احساس ہوا۔ یکایک ننگ دھڑنگ ، سیاہ رنگت والے میلے کچیلے لوگوں کا ایک ہجوم امڈ آیا۔ انہوں نے One Nation One Blood '' ایک قوم ایک خون ‘‘ کا بہت بڑا بینر اٹھا رکھا تھا۔ میں بھی اس جلوس کے ساتھ چلنا شروع ہوگیا۔ بپھرے ہوئے اور جذبات سے مغلوب یہ شہری اپنے ہم وطنوں سے تعاون اوردادرسی کے طلب گار تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ اسلام آباد کے باسی ان کے احتجاج میں شریک ہوں، ان کے ساتھ مل کر آنسو بہائیںاور غم بانٹیں۔ افسوس ! دکھ کی اس گھڑی میں ان کے ہمراہ سوائے چند خواتین وحضرات کے کوئی دوسرا کھڑا نہ ہوا۔ ملک کے ممتاز شہری لمبی تان کر سوتے رہے۔ گھر لوٹا تو اظہار یکجہتی کے لیے اپنے فیس بک پر اس بینرکی تصویر لگادی جس پر جلی حروف سے لکھاتھا : ایک قوم ایک خون ۔ 
دانشور اورکالم نگار خورشید ندیم نے اطلاع دی کہ انہوں نے اہل دانش ‘اہل سیاست اوراہل مذہب کی ایک محفل برپا کی ہے جس کا موضوع ''ایک قوم ‘ایک مستقبل‘‘ رکھا گیا ہے تو مجھے مذکورہ واقعہ یاد آگیا۔'' ایک قوم ‘ایک مستقبل ‘‘ اچھوتا موضوع ہے ، اس کے اندر معنی کا ایک جہاں آباد ہے۔ دراصل یہ ایک اعتراف ہے کہ ہمیں ایک قوم بننے کے لیے ابھی بہت کچھ کرنا ہے۔ 
چنانچہ یہ محفل منعقد ہوئی ۔ یہ دیکھ کر بے پناہ مسرت ہوئی کہ کتابی دنیا میں زندہ رہنے والے ہی نہیں بلکہ نون لیگ، تحریک انصاف اور پیپلزپارٹی کے ارکان قومی اسمبلی سمیت سابق سرکاری افسر اور صحافیوں نے بھی اس مجلس میں نہ صرف شرکت کی بلکہ کھل کر اپنے خیالات کا اظہارکیا۔ عام طور پر ایسی مجالس میں سیاستدان شرکت سے گریز کرتے ہیں اور قومی امور پر بحث ومباحثہ محض اہل علم تک محدود رہتاہے یا ریٹائرڈ لوگ ایسے موضوعات پر مغزماری کرتے ہیں۔
اسلام آباد کا ایک مسئلہ اور بھی ہے۔ اس شہر میں ایک سے ایک بڑا شہسوار فروکش ہے لیکن ہرکوئی اپنے اپنے گھونسلے تک محدود ہے۔ لوگ ایک دوسرے کی زندگی میں مخل ہونے سے گریزکرتے ہیں۔کلچرل سرگرمیاں ہیں نہ علمی و ادبی۔ لاہوراورکراچی میں ہروقت کچھ نہ کچھ ہوتا نظر آتا ہے۔ درجنوں شخصیات نے رونق لگا رکھی ہے۔دعوتیں، محفلیں اور بحث ومباحثہ ، سیاست، لٹریچر، ادب اورکاروبار سب ساتھ ساتھ چلتاہے اور خوب چلتاہے۔ اسلام آباد اس حوالے سے بور ہی نہیں بلکہ بانجھ شہرہے۔ یہاں ڈی چوک پر جلسے ہوتے ہیں جہاں حاضرین کی بڑی تعداد کو گردونواح سے بسوں میں بھر کر لایاجاتاہے ۔ان کی سیر ہوجاتی ہے اور بعض کی دیہاڑی بھی لگ جاتی ہے۔ 
خورشید ندیم کی دعوت پر اکٹھے اتنے سارے لوگوںکو دیکھ کر حوصلہ ہوا کہ غالباً اب اس'' شہرسرکار ‘‘ میں بھی لوگوں کو احساس ہوگیا ہے کہ پاکستان جس مشکل اور عبوری مرحلے سے گزر رہاہے‘ اس سے باہر نکلنے کے لیے اجتماعی دانش کو متحرک کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ۔ قومی وحدت پہلے ہی دہشت گردوں کے حملوں اور قتل وغارت گر ی سے پارہ پارہ ہوچکی تھی کہ اب ایک نئی کشمکش نے معاشرے میں مزید تلخی گھول دی ہے ۔ سیاسی درجہ حرارت بہت بڑھ گیا ہے۔
خاص طور پر الیکٹرانک میڈیاکاکردار ہر مجلس میں زیر بحث ہے۔ شہری بے مقصد گفتگو اور بے ہنگام ٹاک شوز سے عاجز آچکے ہیں۔ 
اس حقیقت کو تسلیم کیے بنا چارہ نہیں کہ جوکچھ آج ہورہاہے یہ محض کسی حادثے یا غلطی کا نتیجہ نہیںبلکہ عشروں پر محیط ہمارے اجتماعی رویوںکا فطری ردعمل ہے۔ افسوس! معاشرہ بھی ایسے ہی عناصرکو قبولیت عطا کرتاہے جو جذبات بھڑکاتے ہیں ، جلتی پر تیل چھڑکتے ہیں اوردھڑے بندی کی سیاست پروان چڑھاتے ہیں۔ ایسے افراد جو صلح جوئی اور مفاہمت کی بات کرتے ہیں ، تنوع اور اشتراک کے ذریعے ملک اور قوم کو آگے لے جانے کے داعی ہیں ان کی پذیرائی کرنے والے چراغ لے کر ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتے۔ ظاہر ہے کہ میڈیا ہمارے معاشرتی رجحانات اور رویوں کی عکاسی کرتاہے۔ اس میں خدمات سرانجام دینے والے ہمارے ہی وجودکا حصہ ہیں۔ وہ بھی بھی انہی معاملات کے اسیر ہیں جن کا پورا معاشرہ ۔ وہ بھی ایسے ہی افراد کو نمایاں کرتے ہیں جو عوامی زبان بولتے اور لوگوں کو اپنے ذاتی اور گروہی مفادات کے لیے استعمال کرنے کا ہنر جانتے ہیں۔ ایسا محسوس ہوتاہے کہ پاکستان میں ہرکوئی ہجوم کی نفسیات کا شکار ہے۔ 
اختلاف رائے معاشرے کا حسن کہلاتا ہے۔ مذہبی اور سیاسی موضوعات پر ہمیشہ سے متضاد نقطہ نظر آتا رہا ہے ۔ دنیا نے اختلافات اور تنازعات کو اپنی طاقت بنایا نہ کہ کمزوری۔ ملائشیا میں جو دنیا کی بہت بڑی معاشی طاقت بن چکا ہے، غیر مسلموں کی بہت بھاری تعداد آباد ہے اورکاروبار پر ان کی بالادستی ہے۔ امریکہ میں 38فیصد لوگ بیرونی ممالک سے آکر آباد ہوئے، ان میں سے ایک امریکہ کا صدر بارک اوباما بھی ہے۔ ہمارا حال یہ ہے کہ اعتدال پسند اسلامی سکالر کے لیے زمین تنگ کردی جاتی ہے حتیٰ کہ وہ ہجرت کرجاتا ہے۔ ان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے کئی اوراہل علم بھی ملک سے رخت سفر باندھ چکے ہیں۔ یہ سلسلہ چلتارہا توپاکستان فکری دیوالیہ پن کا شکار ہوجائے گا۔
اس گھٹن زدہ ماحول سے باہر نکلنے کے لیے ضروری ہے کہ میڈیا اور سوسائٹی مشترکہ کوششیں کرے۔ اعتدال پسند عناصرکو سیاست، صحافت ہی نہیں بلکہ ہر شعبہ زندگی میںپروموٹ کیاجائے۔ میڈیا میں ان لوگوںکو نمایاں جگہ دی جائے جو معاشرے میں ہیجان پیدا کرنے کے بجائے اس کی تربیت کر سکتے ہوں ، اس میں قرار پیدا کرسکتے ہوں۔ انتشاری زبان بولنے کو بتدریج پس منظر میں دھکیلا جائے تاکہ پاکستان میں آزادانہ بحث ومباحثہ کی حوصلہ افزائی کی جاسکے۔ حکومت کو بھی اس کام میں اپنا حصہ ڈالنا چاہیے۔ سیاسی جماعتیں بھی ایسے افرادکو سامنے لاسکتی ہیں جو تحمل سے بات کرتے ہوں ۔ 
ایک قوم ایک مستقبل کا خواب اسی وقت پورا ہوسکتاہے جب ہم ہر معاملے میں مذہب کا تڑکا لگانا بند کردیں گے۔ غیر ضروری طورپر مذہب کے نام پر محروم اور کمزور طبقات کا استحصال مذہب اور پاکستان دونوں کی بدنامی کا باعث بنا۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ جولوگ مذہب کا نام استعمال کرتے ہیں ان کی اپنی نجی زندگی میں مذہب کا کوئی گزر نہیں۔ اس دوغلے پن سے نجات حاصل کیے بغیر نہ قوم بن سکتی ہے اورنہ اس کا کوئی بہتر مستقبل نظرآ سکتا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں