"IMC" (space) message & send to 7575

دورئہ بھارت

روایتی سیاستدانوں اور سخت گیر مقتدر قوتوں کے مشوروں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے وزیراعظم نواز شریف نے نریندر مودی کی تقریب حلف بردار ی میں شرکت کرنے کا غیر معمولی فیصلہ کرکے ''اسٹیٹس کو‘‘ مخالف اور غیر روایتی سیاستدان ہونے کا اپنا تاثر مزید گہرا کیا۔یہ کوئی آسان فیصلہ نہ تھا۔اطلاعات کے مطابق دفتر خارجہ کے بابوئوں نے بھارت نہ جانے کا مشورہ دیا ۔اس کے باوجود وزیراعظم نے دہلی جانے اور پاک بھارت تعلقات کی ایک نئی تاریخ رقم کرنے کی ٹھانی، جو پاکستان کے اخلاص کی عکاسی کرتی ہے ۔
وزیراعظم نواز شریف کی طرح مودی کے لیے بھی ان کو مدعو کرنا اور جاری سرد مہری کو نظرانداز کرنا کوئی آسان فیصلہ نہ تھا۔ گزشتہ دس برس میں بھارتیہ جنتا پارٹی نے پاکستان سے تعلقات بہتر کرنے کی من موہن سنگھ کی ہرکوشش کو ناکام بنایا۔مودی ان کوششوں میں پیش پیش تھے۔اب وہ اقتدار کے سنگھاسن پر فائز ہوئے تو پلک جھپکتے میں ماضی کی قید سے آزاد ہوگئے۔ تعصبات سے اوپر اٹھ کر وزیراعظم نوازشریف کو دہلی مدعوکیا۔ان کے اس فیصلے سے کانگریس ہی نہیں بلکہ بھارتی اسٹیبلشمنٹ بھی ششدر رہ گئی۔ توقع تھی کہ مودی برسراقتدار آکر پاکستان کے خلاف جارحانہ حکمت عملی اپنائیں گے ۔ممبئی حملہ آوروں کو سزادینے اور دائود ابراہیم کو بھارت کے حوالے کرنے جیسے پرانے مطالبات دہرائیں گے لیکن انہوں نے تاریخ کا پہیہ الٹا گھمانے کی بجائے مستقبل کے دریچوں میں جھانک کردیکھا اور ایک نئی صبح کا آغاز کردیا ۔اطلاعات کے مطابق مودی نے پاکستانی وزیراعظم کو بھارت بلانے کا فیصلہ خود کیا۔ دفتر خارجہ اور پارٹی کے لیڈروں کو میڈیا سے اطلاع ملی۔اس طرح مودی نے اسٹیبلشمنٹ اور پارٹی کو پیغام دیا کہ تمام اہم فیصلے وہ خود کریں گے۔
اب یہ قصہ تمام ہوا کہ وزیراعظم نواز شریف بھارت جائیں یا نہ جائیں۔اب سوال یہ ہے کہ اس دورے کو کیسے ثمر آور بنایا جائے اور ان قوتوں سے کیسے نبرد آزما ہواجائے جنہیں خوشگوار پاک بھارت تعلقات ایک آنکھ نہیں بہاتے۔جو کشیدگی اور جنگ وجدل کی فضا میں پھلتے پھولتے ہیں۔ پاکستان ہی نہیں بھارت میں بھی ایسی قوتیں بہت طاقتور ہیں۔مثال کے طور پرابھی اسلام آباد میں وزیراعظم کے دہلی جانے کے حوالے سے مشاورت جاری تھی کہ افغانستان کے شہر ہرات میں بھارتی قونصل خانے پر حملہ ہوگیا۔بھارتی میڈیا نے دبے الفاظ میں پاکستان پر انگلی اٹھائی۔ یہ محض ایک ٹریلر تھا ،اصل فلم چلنا باقی ہے۔
دونوں ملکوں میں ایسے عناصر کی کمی نہیں جو کوئی بڑا حادثہ بھی کراسکتے ہیں۔اٹل بہاری واجپائی لاہور آئے تو پرویز مشرف نے کارگل پر چڑھائی کردی۔پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات میں بہتر ی اور کشمیر پر پیش رفت ہوئی تو ممبئی حملے ہوگئے۔اس سے پہلے بھارت میں سمجھوتہ ایکسپریس میں درجنوں پاکستانی شہریوں کو ہلاک کردیا گیا۔بعد میں معلوم ہوا کہ ان حملوں میں بھارت کے اپنے ہی لوگ ملوث تھے۔بتدریج ایک پورا گروہ پکڑا گیا جو بھارت کے اندر تخریب کاری کی کارروائیوں میں ملوث تھا اورالزام پاکستان پر دھرتا تھا۔اس لیے کسی بڑے حادثے سے بچنے کے لیے دونوں ممالک کو مشترکہ حکمت عملی بنانا ہو گی۔ علاوہ ازیں یہ بھی سوچنا ہوگا کہ اگر دہشت گردی کا کوئی بڑا واقعہ رونما ہوجاتاہے تو ردعمل کو کس طرح کنٹرول کیا جائے؟اس کی تحقیقات کا پراسیس کیاہو؟
پاکستان کے اکثر سیاستدان بالخصوص پیپلزپارٹی اور نون لیگ بھارت اور افغانستان کے حوالے سے اسٹیبلشمنٹ کے نقطہ نظر کو صائب تسلیم نہیں کرتے ۔وہ پاک بھارت تعلقات کا نیا باب رقم کرنا چاہتے ہیں۔وہ محض تنازعات پر مفاہمت نہیں بلکہ ان کا غیر روایتی حل تلاش کرنا چاہتے ہیں۔وہ بھارت کے ساتھ رقابت اور مسابقت کو نہ صرف برقرار رکھنا چاہتے ہیں بلکہ اسے بڑھاوا بھی دینا چاہتے ہیں لیکن یہ رقابت اور مسابقت وہ کاروبار،تجارت اور علم کے میدان میں کرنا چاہتے ہیں‘ نہ کہ ٹینک کے بدلے ٹینک اور فوجی کے بدلے فوجی کھڑا کر کے ۔ اب جنگ معیشت کے میدان میں لڑی جانی ہے۔ وزیراعلیٰ شہباز شریف نے کچھ دن قبل بڑا برمحل نکتہ اٹھایا :اگر ہم چین جیسی معاشی طاقت ہوتے تو کشمیر ہماری جھولی میں آکر گرتا۔
اس کے برعکس پاکستان کے اندر ایسے عناصر کی کمی نہیں جو الیکشن میں بلدیہ کی نشست بھی نہیں حاصل کرسکتے لیکن رائی کا پہاڑ بنانے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے۔رائے عامہ انہیں وقعت نہیں دیتی لیکن وہ ملک گیر سطح پر ہیجان پیداکرنے ،جذبات سے کھیلنے اور عوام کو اکسانے کا ہنر جانتے ہیں۔بدقسمتی سے میڈیا میں بھی نہ صرف ان کے ہمدرد موجود ہیں بلکہ اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں۔ یہاں اشتعال دلانے والوں کی بھی کمی نہیں۔نقطہ نظر اور حکمت عملی کے اختلاف کو ملک دشمنی قراردے کر مخالفین کوقربانی کا بکر ابنانا یار لوگوں کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔
خود نون لیگ کی اپنی سیاسی اور فکر ی تربیت اسٹیبلشمنٹ کے کوچے اور سانچے میں ہوئی ہے۔لہٰذا اس کے بہت سارے رہنما پاکستان کے داخلی اور خارجی مسائل کو انہی کی آنکھ سے دیکھتے ہیں۔وزیراعظم کو ان عناصر کے غیظ وغضب کا سامنا کرنا پڑسکتاہے ۔انہیں بھارت اور افغانستان کے باب میں داخلی سطح پر ہر محاذ پر لڑناہوگا۔ یہ کوئی آسان لڑائی نہیں۔ان کا مقابلہ اس ذہنیت سے ہے جو گزشتہ چھ عشروں میں پروان چڑھی اور اس کی پشت پر طاقتور ادارے اور شخصیات کھڑی ہیں۔
بھارت میں بھی کیفیت مختلف نہیں۔ سویلین اور فوجی اسٹیبلشمنٹ پاکستان سے سخت بیزار ہے ۔وہ پاکستان کے ساتھ کشمیر ،افغانستان،بلوچستان اور دنیا کے تمام بڑے دارالحکومتوں میں برسرپیکار ہے۔حال ہی میں نامزد ہونے والے آرمی چیف جنرل دلبیر سنگھ کے بارے میں کہاجاتاہے کہ وہ کشمیر میں تعینات رہے ہیں جہاں وہ اپنی سخت گیر ی کی وجہ سے مشہور تھے۔بھارتی فوج حالیہ برسوں میں پاکستان کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے ایک اہم اسٹیک ہولڈر کے طورپر ابھری ہے۔ وہ نہ صرف حکومت کو مشورہ دیتی ہے بلکہ بسااوقات بعض معاملات میں ہونے والی پیش رفت کو بھی روک دیتی ہے۔بھارتی اسٹیبلشمنٹ اس وقت تک پاکستان سے تعلقات کی بہتری کی روادار نہیں جب تک ممبئی حملہ آوروں کو سزانہیں سنائی جاتی۔ خود بی جے پی ایک پاکستان مخالف جماعت ہے۔علاوہ ازیں بھارتی میڈیا بھی پاکستان کے حوالے سے کافی متعصب ہے۔اس پس منظر کے باوجود مودی دوستی کا ہاتھ کا بڑھارہے ہیں تو اسے جھٹکنا عقلمندی نہیں حماقت ہے۔
بھارت میں عمومی طور پر نواز شریف کے لیے نرم گوشہ پایاجاتاہے۔خاص طور پر بھارتیہ جنتا پارٹی کی قیادت سمجھتی ہے کہ انہیں بھارت کے ساتھ دوستانہ تعلقات کی استوار کرنے کی جسارت پر اقتدار سے محروم کیا گیا ۔تمام تر مصائب کے باوجود نوازشریف نے جلاوطنی کے ایام اور بعدا زاں اقتدار میں آکر بھارت مخالف سیاست نہیں کی۔انہوں نے اس پورے خطے کو شاہراہوں اور ریلوے کے ذریعے مربوط کرنے اور ایک دوسرے کی ترقی اور وسائل کے مشترک استعمال کا پرچار کیا۔وزیراعظم نواز شریف کا امیج ہی ان کی طاقت ہے۔جس کا بھرپور اور مہارت سے استعمال کیا جانا چاہیے۔
یہ ایک مختصر دورہ ہے۔اس سے کسی بڑے بریک تھرو کی توقع نہیں کی جانی چاہیے۔تاہم یہ اگلے برسوں میں ہونے والی ٹھوس پیش رفت کے لیے مضبوط بنیادیں رکھنے کا موقع فراہم کرتاہے۔وزیراعظم کو کوشش کرنی چاہیے کہ مودی کے ساتھ ذاتی تعلق استوار کریں۔مودی کے علاوہ بھارتیہ جنتا پارٹی کے لیڈروں کو پاکستان کا دورہ کرنے کی دعوت دیں۔کشمیر کے حوالے سے مذاکرات کی بحالی پر اصرار کریں۔مودی کو پیشکش کریں کہ کشمیر پر پیش رفت ہوجائے تو دونوں ممالک میں تعاون اور تعلقات کے تمام بند دروازے چوپٹ کھل جائیں گے۔دونوں وزرائے اعظم کو ایک دوسرے کے تحفظات اور سیاسی مجبوریوںکا خیال کرنا ہوگا ۔ اسی صورت میں امن کی کشتی کسی کنارے لگ سکتی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں