"IMC" (space) message & send to 7575

وقت کی قیمت؟

اپنے ملک اور لوگوں کو کوسنا کبھی بھی اچھا نہیں لگا۔بات بات پرمغرب کی مثالیں دینا اور خود کو مطعون کرنا بھی پسند نہ آیا۔ بیرون ملک ہم وطن اکثر سوال کرتے ہیں کہ پاکستان کے حالات کیوں نہیں بدلتے؟اکثر یہ سوال گول کرجاتاہوں یا موضوع بدل دیتاہوں۔ اس طرح کے سوالوں پر دل بہت جلتا ہے ۔رگ وپے میں مایوسی اور محرومی کا زہر اتر تا محسوس ہوتاہے۔پاکستان سے برسوں بعد آزاد ہونے والے ممالک جدید اور ترقی یافتہ کہلاتے ہیں۔ اکثر خیال آتاہے کہ چھوٹے چھوٹے اقدامات بھی بڑی تبدیلی کی راہ ہموار کرسکتے ہیں یا سماج میں امید کی کرن پیدا کرسکتے ہیں۔اس موضوع پر غوروفکر کرنے کی ضرورت ہے کہ کس طرح مایوسی اور بے زاری کے موجودہ ماحول سے چھٹکارا حاصل کیا جائے۔
چند دن ہوتے ہیں،پاسپورٹ کی تجدید کے لیے دفتر گیا ۔دفتر میں خلقتِ خدا کا ہجوم تھا ۔تل دھرنے کی جگہ نہ تھی۔لمبی لمبی لائنیں۔سوچا واپس چلاجائوں ۔ پھر خیال آیا کہ رش تو کبھی ختم نہ ہوگا لہٰذا قطار میں لگ جاتے ہیں۔یقین کیجئے کہ میرے آگے ایک سو چالیس افراد تھے۔ تین چار کے سوا سب کے سب عنفوان شباب کو چھوتے ہوئے نوجوان۔ پوچھا‘ پاسپورٹ کا کیا کرو گے؟ کہنے لگے،یہاں روزگار ہے اور نہ رزق حلال کمانے کے مواقع۔ لہٰذا پردیس سدھار نے کی کوشش میں ہیں۔ قسمت نے یاوری کی تو باپ کے بڑھاپے کی لاٹھی بنیں گے اور بہنوں کے ہاتھ پیلے کریں گے۔
پاسپورٹ آفس میںعورتوں اور بچوں کی تعداد بھی کچھ کم نہ تھی۔ان تمام لوگوں کے لیے صرف دو کائونٹر تھے جہاں وہ جاکر اپنی 
تصویر بنواتے اور ٹوکن حاصل کرتے۔لیکن دل تھام لیجیے اس سے پہلے انہیں فیس بھر نے کے لیے کم ازکم تین کلومیٹر دور نیشنل بینک جانا پڑتا۔کھلے آسمان تلے ایک چھوٹی سی کھڑکی کے سامنے طویل انتظار ۔ قاعدے کے برعکس کچھ لوگ براہ راست بینک آتے اور چالان جمع کرا دیتے۔اعتراض کریں تو کھڑکی میں موجود صاحب بہادر ناراض ہوتے ہیں۔الجھیں تو کھڑکی بند ہوجاتی ہے۔بینک منیجر سے پوچھا کہ جناب والا ایک کے بجائے دوافراد بٹھا دیں ۔خلق خدا کو دھوپ پیاس سے چھٹکارا ملے گا تو دعا دے گی ۔کہنے لگے سٹاف نہیں۔عر ض کیا: یونیورسٹی کے طلبہ کو انٹرن شپ دے دیں۔موصوف بات ٹال کر نکل گئے۔ سرراہے پاسپورٹ آفس کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر سے مختصر گفتگو کا موقع ملا۔پتلون کوٹ میںملبوس کافی رعب دار شخصیت ہیں۔انہیں بتایا کہ نادرا مصروف اور کاروباری شخصیات سے ایک ہزار روپے زائد فیس لیتاہے لیکن انہیں لائن میں نہیں کھڑا کرتا۔
اسلام آباد میں غیر ملکی سفارت خانوں کو ویزا وغیر ہ کے عمل میں معاونت کرنے والے اداروں نے بھی مصروف اور صاحب حیثیت افراد کے لیے ایسی ہی سروس متعارف کرائی ہے۔شہری ٹیلی فون پر وقت لے کر دفتر پہنچتے ہیں اور تھوڑی سی دیر میں فارغ ہوکر چلے جاتے ہیں ۔عام لوگوں کی قطاروں میں کوئی دخل نہیں دیتا۔وہاں کا عملہ بغیر کسی مداخلت اور پریشانی کے اپنے کاموں میں مصروف رہتاہے۔ اسسٹنٹ ڈائریکٹر نے ان تجاویز کو اچھا اور قابل عمل قراردیا لیکن کہا کہ میر ے پاس اختیار ہی نہیں۔ پھر پوچھا کہ پاسپورٹ کی فیس جمع کرانے لوگوں کو اتنی دور کیوں بھیجاجاتاہے؟یہ انتظام تو اس دفتر کے اندر بھی ہوسکتاہے۔چہرے پر ناخوشگوار تاثرات نمودار ہوئے اور کہنے لگے آپ سوال بہت کرتے ہیں! 
گزشتہ بیس برس کے دوران دنیا کے درجنوں ممالک میں جانے اور بڑی بڑی شخصیات کو قطاروں میں لگے دیکھا۔اپنی آنکھوں سے‘ لند ن میں پاکستانی وزرا اور اعلیٰ حکام کو سڑکیں ناپتے دیکھا۔دوہفتے قبل ابوظہبی ایئر پورٹ پر پاکستان کے ایک وفاقی وزیر کو دیر تک لائن میں کھڑے دیکھا۔ معلوم نہیں کہ ہماری مٹی کی تاثیر مختلف ہے یاآب وہوا کی کوئی خصوصیت ہے کہ ہم سرزمین وطن پر قدم رکھتے ہی بدل جاتے ہیں۔وہی شخص جو امریکہ ،برطانیہ حتیٰ کہ عرب ممالک سے آتے ہوئے معقول شہری ہوتاہے ‘ پاکستانی ایئرپورٹ پر اترتے ہی اس کا مزاج بگڑ جاتاہے ۔اسلام آباد ایئرپورٹ کا تماشا سنیں۔یہاں مخصوص اہلکار امیگریشن حکام سے پہلے کھڑے ہوتے ہیں۔وہ نہ صرف جہاز میں سفر کرنے والی مبارک ہستیوں کے ناموں کے کتبے لیے کھڑے ہوتے ہیں بلکہ آوازیں بھی لگاتے ہیں۔ اکثر یہ لوگ سرکاری افسروں اور سیاستدانوں کی بیگمات اور بچوں کے استقبال کے لیے موجود ہوتے ہیں۔وہ ان کے پاسپورٹ سنبھالتے ہیں اور بغیر کسی قطار یا انتظار کے اپنے مہمانوں کو لے کر نکل جاتے ہیں۔عام شہری حسرت سے دیکھتا رہ جاتا ہے۔ اس کلچر کو بدلا نہیں جاسکتا تو کم ازکم اس طرح کی سہولتوں پر اٹھنے والے فالتو اخراجات کا تقاضا تو ان شرفا سے کیا جاسکتاہے۔
بہت سارے مسائل ایسے ہیں جن کو تخلیقی طریقے اختیار کرکے حل کیا جاسکتاہے۔راولپنڈی میں طویل عرصہ سے ٹریفک کا مسئلہ بہت پیچیدہ تھا ۔ایک شہ دماغ ایس پی ٹریفک کا راولپنڈی تبادلہ ہوگیا۔اس نے یوٹرن کم کردیئے اور بعض مقامات پر ذرا فاصلہ پر کردیئے۔دیکھتے ہی دیکھتے شہرمیں ٹریفک رواںدواں ہوگئی۔ بعدازاں اسلام آباد پولیس بھی ان کی نقالی پر مجبور ہوئی۔سرکاری اداروں کی زبوں حالی کے بہت سارے اسباب میں سے ایک بڑا سبب مسائل کا حل تلاش کرنے کے بجائے انہیں ہاتھ ہی نہ لگانا ہے۔اوپر کے حکم کا انتظار کرتے رہنے میں عافیت سمجھی جاتی ہے۔علاوہ ازیں سرکاری نظام میں اداروں اور کارکنوں کی نگرانی، عملے کی مسلسل تربیت اور انہیں متحرک رکھنے کا کوئی نظام نہیں۔عمومی طور پر اداروں میں خوشامد کا کلچر رائج ہے۔ خرابی کی نشاندہی کا مطلب اپنی ملازمت پر کلہاڑا چلانے کے مترادف سمجھا جاتا ہے۔ اکثر سمجھدار افسر اور کارکن پہل قدمی کو ''حرام‘‘سمجھتے ہیں۔
چھوٹے چھوٹے ملکوں نے محدود ومالی اور انسانی وسائل کے ساتھ متاثر کن ترقی کی ہے۔نہ صرف شہریوں کا معیار زندگی بلند کیا بلکہ انہیں تعلیم اور ہنر کے زیور سے بھی آراستہ کیا۔سری لنکا کی مثال ہمارے سامنے ہے۔کولمبو کی صفائی ستھرائی، طریقہ سلیقہ دیکھتے ہوئے احساس ہوتاہے کہ یہ ایک زندہ قوم اور معاشرہ ہے۔لاکھوں سیاح وہاں کا سفر کرتے ہیں کہ امن و امان مثالی ہے۔پولیس اورانتظامیہ چاق وچوبند ہے ۔ شہریوں کی حفاظت کے لیے جان کی بازی لگادیتی ہے۔
پاکستانیوں کی صلاحیتوں کو زنگ لگا ہے اور نہ وہ دوسری اقوام کے مقابلے میں ذہنی طور پر پست ہیں۔ انہیں محض راستہ دکھانے اور متحرک کرنے کی ضرورت ہے۔اس کے بعد وہ حیران کن نتائج دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔یہی لوگ اگر وقت اور وسائل کی قدر اور درست استعمال کا ہنر سیکھ جائیں تو معجزے برپا کرسکتے ہیں۔انہیں باور کرانا ہوگا کہ تبدیلی کے لیے ہاتھ پر ہاتھ دھرے رکھنا اور حکومت کی طرف دیکھتے رہنا عبث ہے۔ہر شخص کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔اپنے گردونواح کو بدلنا ہوگا۔ اس کے بعد تبدیلی خودبخود آجائے گی۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں