"IMC" (space) message & send to 7575

وزیراعظم کو بھارت جانا چاہیے؟

سارک ممالک کے سربراہوں کی آڑ میں وزیراعظم نوازشریف کو نریندر مودی نے وزارتِ عظمیٰ کا حلف اٹھانے کی تقریب میں مدعو کر کے زبردست چھکا مارا ہے ۔ وزیراعظم نواز شریف پہلے ہی بھارت کے ساتھ تعلقات بہتر کرنے کی کوشش میں تھے کہ نریندر مودی نے سفارتی پہل قدمی کرکے ایک ایسا موقع پیدا کردیا جس کے استعمال سے دونوں مقبول سیاسی رہنما دوطرفہ تعلقات کو نیا رخ دے سکتے ہیں۔ یہ دعوت بہت سوچ بچار کے بعد دی گئی۔ پس منظر میں بہت سارا ہوم ورک بھی کیا جا چکا ہے۔ قارئین کو یاد ہوگا کہ چند ہفتے قبل ہماری حکومت بھارت کو تجارت کے لیے انتہائی پسندیدہ ملک قرار دینے والی تھی‘ پھر اچانک یہ فیصلہ ملتوی کردیا گیا۔ شنید یہ ہے کہ بھارتیہ جنتاپارٹی (بی جے پی) کی لیڈر شپ کی طرف سے اسلام آباد کو پیغام دیا گیا کہ وہ نئی حکومت بننے کا انتظار کرے۔ اسلام آباد میں ان کی رائے کا احترام کیا گیا۔
بی جے پی اور نون لیگ کی حکومت کے مابین کافی وقت سے درپردہ سلسلہ جنبانی بھی جاری ہے۔وزیراعظم نواز شریف ابھی تک سابق بھارتی وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی کے دورئہ لاہور کو نہیں بھلا پائے۔وہ نجی محفلوں میں یاد کرتے ہیں کہ کس طرح دونوں رہنمائوں کے درمیان مفاہمت کا جذبہ پید اہوچکا تھا ۔ واجپائی نے مینار پاکستان جاکر پاکستان کو ایک زندۂ جاوید حقیقت تسلیم کرکے اپنی نیک نیتی کا ثبوت بھی دیا۔افسوس!سابق صدر جنرل (ر)پرویز مشرف حقائق کا ادراک نہ کرسکے اور ساری پیش رفت خاک میں مل گئی۔
موجودہ حکومت ان دنوں داخلی طور پر مشکلات میں گھری ہوئی ہے۔ ایک نجی ٹی وی چینل کے تنازع نے غیر ضروری طوالت اختیار کر لی۔ حکومت کی ساری توانائیاں اور وقت اس تنازع سے نمٹنے میں صرف ہو رہا ہے۔ حکومت اپنے ہی بعض اداروں کے ساتھ ہم آہنگ دکھائی نہیں دیتی۔ ملک میں جلسے جلوس ہو رہے ہیں اور لوگ حکومتی بے عملی اور گستاخی پر مبنی پروگرام کے خلاف غم وغصہ کا اظہار کر رہے ہیں۔ حکومت کے کچھ خیر خواہوں کا خیال ہے کہ ان حالات میں خطرہ مول لینے کی ضرورت نہیں۔ہنوز دلی دوراست۔
سرشام چمکتی دمکتی ٹی وی سکرینوں پر عسکری اور خارجہ امور کے ماہرین براجمان ہوکر جمع تفریق کرتے ہیں۔ ان میں سے بیشتر بال کی کھال اتارتے رہتے ہیں۔ اکثر کانقطہ نظر ہے کہ بھارت کے سامنے ڈٹ کر رہا جائے۔ لچک دار رویہ اختیار کرنے سے ''بنیا‘‘ چڑھ دوڑے گا۔یہ بھی کہاجاتاہے کہ من موہن سنگھ دس سال ''گولی ‘‘دیتے رہے اور پاکستان کا دورہ نہ کیا۔اس دوران آصف علی زرداری ، یوسف رضا گیلانی حتیٰ کہ راجہ پرویز اشرف بھی دہلی گئے۔ اگرچہ وہ اجمیر شریف کی زیارت کو گئے لیکن گئے تو بھارت ہی۔من موہن سنگھ ٹالتے رہے حتیٰ کہ ان کی مدت اقتدار تمام ہو گئی۔ سابق سفارت کاروںکی بھی رائے اس سے ملتی جلتی ہے۔ انہیں پاکستان کی سبکی اور بھارتی شملہ اونچا ہوتانظر آتاہے۔
یہ دلائل اپنی جگہ لیکن اس دعوت کو غیر روایتی انداز سے بھی دیکھنے اور پرکھنے کی ضرورت ہے۔سیاست تو نام ہی خطرات مول لینے کا ہے۔ تاریخ میں بھی وہی سیاستدان یاد رکھے گئے ہیں جنہوں نے خطرات سے کھیلا۔ ہوائوں کا رخ بدلا نہ کہ ہوا کے رخ پر سفر کرنے لگے ۔وزیراعظم نواز شریف کو بھی اس موقع پر بھارت جانے کاجرأت مندانہ فیصلہ کرنا چاہیے۔ انہوں نے سرکاری افسروں اور بابوئوں کی رائے پر بھروسہ کیا تو پاک بھارت تعلقات میں قیامت تک بہتری کا کوئی امکان پید ا نہ ہو گا۔ دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی اور محاذ آرائی سرحد کے دونوں اطراف کی افسر شاہی کی وجہ سے پھلتی پھولتی ہے ۔سیاستدان کی عزت اور شہرت مشکل حالات میں بڑا قدم اٹھانے میں پنہاں ہے۔اسے گرینڈانیشی اٹیو کہا جاتاہے۔دونوں ملکوں کی بیوروکریسی کی فکری تربیت سرد جنگ کے سائے میں ہوئی۔ وہ اسی زمانے میں جیتے اور اسی سانچے میںسوچتے ہیں۔ اس کے برعکس سیاسی لیڈر شپ بدل چکی اور اجتماعی سوچ کو بھی بدلنا چاہتی ہے لیکن گزشتہ چھ عشروں میں دونوں ملکوں کے مابین ہونے والے جنگ وجدل کے اثرات کو سمیٹنے کے لیے وقت چاہیے۔ جو بھی روایتی بیانیے کو چیلنج کرتاہے اسے اس جسارت کی بھاری قیمت چکانا پڑتی ہے۔وزیراعظم نوا زشریف نے واجپائی کو لاہور مدعو کرکے اس کی قیمت چکائی ۔قید وبند کی صعوبتیں برداشت کیں اور جلاوطنی قبول کی۔
نریندر مودی کے اردگر د جلد ہی سویلین اور فوجی اسٹیبلشمنٹ کا گھیرا تنگ ہو جائے گا۔ وہ انہیں وہی فرسودہ رٹی رٹائی پٹی ازبر کرانے کی کوشش کریں گے۔اس سے پہلے ان کی وزیراعظم نواز شریف سے ملاقات ہو جائے تو عمومی فضا بدل جائے گی۔اس سے خوشگوار ماحول پیداہوسکتاہے۔بھارتیوں کو یہ باور کرانے کی کوشش کی جانی چاہیے کہ دونوں ممالک میں خوشگوار تعلقات اور تنازعات کے حل کی جانب حقیقی پیش رفت پاکستان میں جمہوریت کی جڑیں گہری کر سکتی ہے اور سیاسی قیادت کو پائوں جمانے کا موقع دے سکتی ہے۔ اعتدال پسند سیاستدانوں اور جمہوری قوتوں کے لیے کشیدگی اور محاذ آرائی کی فضا میں کام کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ سخت گیر اور شدت پسند عناصر پاک بھارت کشیدگی کا فائدہ اٹھاتے ہیں اور قومی سیاسی منظر نامے پر چھاجاتے ہیں۔ دونوں ممالک کے درمیان باقاعدہ تجارت سے دونوں طرف کے عوام کو فائدہ ہو گا۔ تجارت کو سیاست سے پاک کرنا چاہیے۔ چین اور امریکہ کے آپس میں تعلقات جیسے بھی ہوں‘ لیکن ان کی باہمی تجارت میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔ امریکہ میں اس وقت چینی تیزی سے اپنی جگہ بنا رہے ہیں۔ ہر دوسری یا تیسری شے پر میڈ اِن چائنا لکھا ہوتا ہے۔ تجارت میں ہر کوئی اپنا فائدہ دیکھتا ہے۔ ہمیں بھی اپنا فائدہ ہی دیکھنا ہے۔ نقصان کی تجارت کا مشورہ تو کوئی کم عقل ہی دے گا۔
اگر نواز شریف بھارت جاتے ہیں تو اس سے طویل المدتی مذاکرات کے لیے فضا سازگار ہوجائے گی۔ کشمیر میں حالیہ لوک سبھا کے الیکشن میں حکمران اتحاد نیشنل کانفرنس اور کانگریس کو عبرت ناک شکست ہوئی۔ فاروق عبداللہ اورعمر عبداللہ کے اوسان خطا ہوچکے ہیں۔ کانگریس کے سینئر رہنما غلام نبی آزاد جیسے برج بھی الٹ گئے۔ کانگریس اور نیشنل کانفرنس کی کٹیا لٹ چکی ہے۔مفتی محمد سعید کی پیپلزپارٹی ڈیموکریٹک پارٹی اور جموں سے بی جے پی نے الیکشن میں کامیابی حاصل کی۔چند ماہ بعدریاستی الیکشن متوقع ہیں۔غالب امکان ہے کہ یہ دونوں جماعتیں الیکشن کے بعد مخلو ط حکومت قائم کرنے میں کامیاب ہوجائیں گی جیسے کہ انہوں نے اٹل بہاری واجپائی کے زمانے میں کیا تھا۔ اگر یہ سیاسی منظر نامہ بن گیا تو پھر کشمیر پر پیش رفت کو کوئی روک نہ سکے گا۔ مفتی سعید پہل قدمی کرنے والے سیاستدان ہیں۔وہ اسٹیٹس کو سے باہر نکل کر دیکھنے اور کھیلنے کی ضرور کوشش کریں گے۔کشمیر پر کچھ نئی راہیں کھل سکتی ہیںجن کا آج تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔
بھارت کے ساتھ کشیدگی کم ہونے کی صورت میں پاک افغان تعلقات میں بھی بہتری پیدا ہونے کے امکانات ہیں۔ پھر بھارت افغان سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال نہیں کرسکے گا۔علاوہ ازیں تحریک طالبان پاکستان اور بلوچ علیحدگی پسندوں کی جو پیٹھ ٹھونکی جاتی رہی ہے وہ سلسلہ بھی رک سکتاہے۔اس طرح پاکستان کے اندر امن واستحکام کی بحالی کے امکانات روشن ہوسکتے ہیں۔داخلی شورش پر قابو پانا سہل ہوجائے گا۔
پاکستان لگ بھگ گزشتہ چودہ برس سے چومکھی جنگ لڑرہا ہے۔ بھارت اورافغانستان کے ساتھ تو الجھا ہی ہوا ہے ‘ایران بھی ناخوش اور امریکہ بھی غضب ناک ہے۔چین بھی مضطرب اور داخلی طور پر کئی گروہوں نے ریاست کے سینے پر بندوق تانی ہوئی ہے۔پاکستان کو محاصرے کی سی موجودہ کیفیت سے باہر نکالنا اشد ضروری ہے۔ اسے سستانے کے لیے کچھ وقت ملنا چاہیے۔رک کر اپنی حکمت عملی کا ازسر نو جائزہ لینے کی فرصت بھی درکار ہے تاکہ اس دوران حکومت معیشت استوار کرنے اور ملک کانظم وضبط بحال کرنے پر کچھ وقت اور توانائی صرف کرسکے ۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں