"IMC" (space) message & send to 7575

عمران خان کی تحریک

وقت اور حالات نے عمران خان جیسے سیدھے سادے شخص کو بھی آزمودہ کار سیاستدان بنادیاہے۔ انہوں نے الیکشن میں ہونے والی دھاندلی کے خلاف ملک گیر تحریک شروع کر کے ایک تیر سے کئی شکار کئے ہیں۔ دفاعی کے بجائے جارحانہ کھیل کھیل کر تحریک انصاف کی صوبائی حکومت گرانے اور اسے ناکام بنانے کی کوششوں اور سازشوںکو ناکام بنادیا۔ جلسے جلوسوں نے تحریک انصاف کے اندر جاری توڑپھوڑ کو بھی روک دیا۔ مایوس نوجوان حامیوںاور پارٹی کارکنوں میں روایتی جوش وخروش دوبارہ عود کر آگیا ۔علاوہ ازیں خیبر پختون خوا (کے پی کے) کی صوبائی حکومت کو سکون کا کچھ موقع مل گیا ۔
نون لیگ نے اپنے بہترین سیاسی مہرے مہتاب عباسی کو خیبر پی کے کا گورنر بنا کر ترپ کا پتہ پھینکا تھا۔خیال تھا کہ بتدریج خان کو دبائو میں لایاجائے۔فضل الرحمن، آفتاب شیرپائو اور اسفند یار ولی کے اشتراک، گورنر ہائوس کی سرپرستی اور نون لیگ کے ماتحت وفاقی افسروں اور اداروں کے تعاون سے تحریک انصاف کی حکومت کو گرادیا جائے یا کم ازکم ناکام بنا دیا جائے۔ لیکن عمران خان کے جوابی حملے نے نہ صرف اس چال کو ناکام بنادیا بلکہ نون لیگ کے شہ دماغ حکمت کاروں کو بھی مات دے دی۔ سیاسی کھیل کو نون لیگ بمقابلہ تحریک انصاف بنا دیا۔ اب ایسا لگتاہے کہ باقی جماعتیںحکومت کا دُم چھلا ہیں۔
عمران خان نے ڈی چوک کے بعدفیصل آباد میں خوب میلہ لگایا۔عوام بھی بہت بڑی تعداد میں تھے اور تقریریں بھی پرجوش ہوئیں ۔ایسا لگا کہ تحریک انصاف کا عہد شباب لوٹ آیا ہو۔ خود عمران خان کا بھی ہنگاموں، احتجاجوں اور معرکہ آرائی میں دل لگنے لگا ہے ۔ مقابلہ آرائی میں ان کی خوابیدہ صلاحیتیں کِھل اٹھتی ہیں۔ عمران خان کی تقریر کافی جامع تھی اور اس میں غیر معمولی ٹھہرائو بھی تھا۔ وہ کافی پراعتماد دکھائی دیئے۔ واضح نظرآتا تھا کہ تقریر کی تیاری میں کافی محنت کی گئی ہے۔ کبھی وہ ایک سماجی مصلح کے اسلوب میں کلام کرتے جو لوگوں کو انصاف ،اصول اور میرٹ کا درس دیتا ہے۔ کبھی لگتا کہ وہ مذہبی رہنما ہیں جو دینی حوالے دے کر حاضرین کو اپنا نقطہ نظر سمجھا رہے ہیں۔ انہوں نے بڑے مدلل انداز میں الیکشن کے نظام میں پائے جانے والے نقائص اور انتخابات کرانے والی مشینری کی نااہلی کا پول کھولا۔ یہ مشینری دھاندلی روک سکتی ہے نہ شکایات کاازالہ کرنے کے قابل ہے۔انہوں نے دھاندلی کے حوالے سے متاثر کن اعداد وشمار پیش کیے جنہوں نے پورے نظام کی قلعی کھول کر رکھ دی ہے۔ عمران خان نے کافی مربوط انداز میں خیبر پختون خوا میں آنے والی بہتری کی طرف اشارے کیے اور اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ خیبر پی کے سے کرپشن کو جڑ سے اکھاڑپھینکیں گے۔
عمران خان کے جلسوں کو سرسری طور پر لینے اور ان کا ٹھٹھا اڑانے سے مسائل حل نہیں بلکہ مزید پیچیدہ ہوتے نظر آتے ہیں۔ حکومت کو فوری طور پردھاندلی کی شکایات کے ازالے کے لیے دوسطحوں پر اقدامات کرنے ہوں گے۔ جن حلقوں میں دھاندلی کے الزامات ہیں‘ ان کی شفاف تحقیقات کرائی جائیں۔ مقامی عملہ ملوث ہو یا امیدوار‘ انہیں عبرت ناک سزائیں دی جائیں تاکہ مستقبل میں کوئی بھی شخص یا ادارہ انتخابات میں دھاندلی کا تصور بھی نہ کر سکے۔ ایسا کرنے میں بہت سے خطرات پنہاں ہیں کہ اس طرح الیکشن کا پورا عمل ہی مشکوک ہو سکتاہے لیکن یہ خطرہ مول لیے بنا کوئی چارہ نہیں۔
مستقبل میں ایسی صورت حال سے بچنے کی خاطر حکومت کو دیگرسیاسی جماعتوں کی مشاورت سے الیکشن کے نظام میں پائی جانے والی خرابیوں کی اصلاح کا شفاف میکانزم بنانا ہو گا۔ دنیا میں شفاف الیکشن کرانے کے بہت سے جدید طریقے رائج ہیں۔ ان سے استفادہ کیا جا سکتا ہے۔ بائیو میٹرک سسٹم ان میں سے ایک ہے۔ کئی ممالک میںالیکٹرانک مشین کے ذریعے ووٹ ڈالے جاتے ہیں۔ علاوہ ازیں جعلی ووٹ ڈالنے اور سرکاری یا غیر سرکاری سطح پر دھاندلی کے مرتکب افراد کے لیے نہ صرف عبرت ناک سزا تجویز کی جائے بلکہ اس پر برق رفتاری سے عمل درآمد کو بھی یقینی بنایا جائے۔ اسے ناقابل معافی جرم قراردیا جائے۔انتخابی عذرداریوں کے مقدمات کے فیصلے کو لٹکانے کے بجائے چند دنوں میں نمٹایا جانا چاہیے۔
بہت ہو چکا۔ اب پاکستان چونکہ جمہوری شاہراہ پر گامزن ہوچکاہے لہٰذایہاں ہرقیمت پر شفاف الیکشن کے نظام کو یقینی بنانا ہوگا۔ ماضی میں جوکچھ ہوا وہ عبرت انگیز اور شرم ناک ہے۔ایک ایک شخص درجنوں ووٹ ڈالتارہا ۔ اسے پوچھنے اور روکنے ٹوکنے والا کوئی نہ تھا۔ایک صوبے میں ایک سیاسی جماعت پورا نظام ہائی جیک کرتی رہی اور الیکشن کمیشن تماشا دیکھتا رہا۔ اندرون سندھ ،بلوچستان اور خیبرپختون خوا میں جہاں سرداروں ،وڈیروں اور خانوں کا زور چلتا وہ من مانی کرتے رہے۔ پنجاب میں تحریک انصاف نے پہلی بار نون لیگ کو چیلنج کیا ۔اس کی کوششوں سے یہ حقیقت آشکار ہوئی کہ انتخابی نظام میں نہ صرف اصلاح کی ضرورت ہے بلکہ الیکشن کمیشن ہی کو ازسر نو استوار کرنا ہوگا۔جمہوریت اور ووٹ چوری ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے۔ یہ دونوں ایک دوسرے کی ضد ہیں۔
اگر حکومت تحریک انصاف کے الزامات کا ٹھوس جواب نہیں دیتی تو بتدریج اس کے خلاف ایک بڑا محاذ بنتا نظر آتا ہے۔ قاف لیگ پہلے ہی فوج کی حمایت کے نام پر پنجاب میں جلسے جلوس کر رہی ہے۔ کچھ مذہبی جماعتیں بھی وزیراعظم نوا زشریف کے بھارت جانے پر کبیدہ خاطر ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ ایک ٹی وی چینل اور پرویز مشرف کے خلاف چلنے والے مقدمات سے نہ صرف ناراض بلکہ رنجیدہ ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جاوید ہاشمی جیسا سیاستدان جو چند ہفتے قبل جمہوریت کے لیے وزیراعظم نواز شریف کے ساتھ کھڑا ہونے کے اعلان کیا کرتا تھا، اب حکومت کی رخصتی کے دن گن رہا ہے۔
جلسے میں عمران خان نے جس طرح مذہبی اصلاحات کا بے محابہ استعمال کیا،اس سے آسانی سے یہ قیاس کیا جا سکتا ہے کہ وہ تحریک انصاف کو ایک نئی شناخت دینے جارہے ہیں۔جس میں مذہب اور حب الوطنی کا تڑکا خوب استعمال کیاجائے گا۔کرپشن کے خلاف وہ پہلے ہی بے نیام تلوار ہیں۔اس الزام میں آفتاب شیرپائو کی جماعت قومی وطن پارٹی کو مخلوط صوبائی حکومت سے نکال چکے ہیں۔تحریک انصاف کے کچھ صوبائی وزراء کو بھی اس الزام کا سامنا کرنا پڑا۔چند ہفتے قبل وزیرصحت شوکت یوسف زئی کی چھٹی کرائی گئی‘حالانکہ وہ عمران خان کے بہت قریب تصور کیے جاتے تھے۔صوبائی حکومت نے سرکاری پروٹوکول کا سلسلہ بھی کافی کم کردیاہے۔پشاور کے صحافی گواہی دیتے ہیں کہ سرکاری نظام میں بہتری کے آثار نمایاں ہیں۔ 
خیبر پختون خوا کو سدھارنا کوئی آسان کام نہیں۔یہ پاکستان کا سب سے مشکل صوبہ ہے۔اس کے پچھواڑے میں قبائلی علاقہ جات ہیں جہاں گزشتہ تیرہ برس سے جنگ جاری ہے۔وہاں ہزاروں غیر ملکی پناہ گاہیں قائم کئے ہوئے ہیں اور پاکستان پر حملے کرتے ہیں۔ا س پس منظر میں خیبر پختون خوا میں آنے والی معمولی تبدیلی کو قومی سطح پر سراہا جاناچاہیے۔ خیبر پختون خوا کاپنجاب سے مقابلہ کرنا سراسر ناانصافی ہے۔پنجاب میں عشروں سے زندگی معمول پر رہی ۔علاوہ ازیں پنجاب کو نسبتاً اچھی صوبائی حکومتیں ملتی رہی ہیں۔شہبازشریف سے پہلے بھی پرویز الہٰی اور گورنر خالد مقبول نے زبردست کارکردگی کا مظاہرہ کیا تھا۔ لاہور ،سیالکوٹ، گوجرانوالہ اور فیصل آباد صنعتی مراکز ہیں۔اس کے برعکس خیبر پختون خوا میںصنعت وحرفت کا وجود ہی عنقا ہے ۔ اسی کی دہائی میں یہ خطہ افغانستان میں سوویت یونین کی جارحیت کے خلاف مزاحمت کا عالمی مرکز بنا ۔کسی نے یہاں کے لوگوں کو روزگار ،تعلیم اور صحت کی سہولتیں فراہم کرنے پر توجہ نہیں دی بلکہ انہیں جنگ کا ترنوالہ بنایاگیا۔اگر خیبر پی کے میں سیاسی استحکام آ جاتا ہے اور وہ خوشحالی کی راہ پر چل پڑتاہے تو یہ تحریک انصاف کی بہت بڑی کامیابی ہوگی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں