"IMC" (space) message & send to 7575

مودی سرکار:پاکستان کیا کرے؟

اگلے پانچ سال تک بھارت پر نریندر مودی کا راج ہوگا۔وہ اس خطے کی تقدیر کے فیصلے کریں گے ۔کوئی پسند کرے یا نہ ، پاکستان اور دنیا کو ان کے ساتھ اشتراک کی راہیں تلاش کرنا ہوں گی۔عملیت پسندی کا تقاضا یہ ہے کہ ماضی کے تلخ تجربات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے مستقبل کے بارے میں غورو فکر کیا جائے۔پاکستان میں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے بارے میں بہت کم معلومات دستیاب ہیں۔غالباًایسی کوئی سیاسی یا مذہبی جماعت یا شخصیت نہیں جس کے بی جے پی کی قیادت کے ساتھ دوستانہ تو درکنار رسمی تعلقات بھی قائم ہوں۔وزیراعظم نواز شریف نے 1999ء میں بھارتی وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی کو لاہور مدعو کیا اور پاک بھارت تعلقات کو نئی جہت دینے کی کوشش کی لیکن'' فاتح کارگل ‘‘پرویز مشرف نے ان کا تختہ الٹ دیا۔بعدازاں پرویزمشرف نے واجپائی کے ساتھ امن عمل کا آغاز کیا ۔متعدد اسباب کی بنا پر یہ بیل منڈھے نہ چڑھ سکی۔ اسی دوران پرویز مشرف کے اقتدار کا سنگھاسن جھولنے لگا۔دوسری جانب بھارتی اسٹیبلشمنٹ کی روایتی سست روی اور وزیراعظم من موہن سنگھ کی کمزور قوت فیصلہ نے بھی پاک بھارت مفاہمت کو روک لگائی۔یہ تاریخی موقع ضائع ہوگیا۔
بی جے پی کے جن راہنمائوں نے پاکستان کے ساتھ مذاکراتی عمل شروع کیا تھا یا اس عمل میں شریک رہے تھے ،اب ان میں سے کوئی بھی نریندر مودی کے قریبی ساتھیوں میں شمار نہیں ہوتا۔جسونت سنگھ کی قائد اعظم کی سوانح لکھنے پر پہلے ہی چھٹی ہوچکی ہے۔واجپائی صاحب فراش ہیں۔عمررسیدہ ایل کے ایڈوانی سیاست میں تو ہیں لیکن بی جے پی کی پالیسی سازی میں ان کا کوئی کردار نظر نہیں آتا ۔ اب جو لوگ نریندر مودی کے گرد جمع ہیں،ان میں سے اکثر کا خارجہ امور کا کوئی خاص تجربہ نہیں۔ان میںسے اکثر پاکستان کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے میں زیادہ دلچسپی بھی نہیں رکھتے۔علاوہ ازیں بھارت کی فوجی اور سول اسٹیبلشمنٹ میں پاکستان سے ایک خاص طرح کا کینہ پایاجاتاہے جو بی جے پی کے انتہاپسندوں کے نقطہ نظر کو مزید تقویت فراہم کرتااور انہیں پاکستان کے بارے میں لچک دار رویہ اختیار کرنے سے روکتاہے۔
حالیہ چند برسوں میںبھارت کی شرح ترقی بری طرح گری ۔ آٹھ فیصد کے بجائے اب یہ چار اور پانچ فیصد پر آکر رک گئی۔من موہن سنگھ کی حکومت نے کرپشن کے بے مثال ریکارڈ قائم کیے ۔بدعنوانی کی سطح غیر معمولی حد تک بلند ہوئی ۔کروڑوں نہیں بلکہ اربوں روپے لوٹے جاتے رہے۔کرپشن میں ملوث شخصیات میں سے کئی ایک ٹھاٹ باٹھ کے ساتھ کابینہ کا بھی حصہ رہے۔ ان کا احتساب کرنے والا کوئی نہ تھا۔ کانگریسی حکومت اہم سیاسی فیصلے لینے سے بھی قاصر رہی ،جس کی بدولت عوامی بہبود کے اہم منصوبوں پر کام رکارہا۔ 
مودی تیز رفتار معاشی ترقی چاہتے ہیں تو انہیں بھارت کے اندر اور پڑوس میں امن درکار ہوگا۔بھارت میں خوشحالی کا ہر راستہ پاکستان سے دوستانہ تعلقات کی دہلیز پر آکر رک جاتاہے۔ تنازعات کے حل سے بھارت دنیا کی پانچ اقتصادی طاقتوں میں شامل ہونے کی صلاحیت رکھتاہے۔ حالیہ دورہ امریکہ کے دوران بروکنگز انسٹی ٹیوٹ کے اسٹرٹیجک امور کے ممتاز ماہر اسٹیفن کوہن نے بتایا کہ مودی ملکی ترقی کے لیے چین کے ساتھ گہرے قریبی تعلقات استوار کرنے چاہتے ہیں۔وہ چین کے ترقی کے ماڈل سے متاثر ہیں ۔چین کی مہارت اور سرمایہ کاری سے استفادہ بھی کرنا چاہتے ہیں۔اسی طرح جاپان کو بھی بھارت میں صنعتی میدان میں بھاری سرمایہ کاری کی ترغیبات دیں گے۔وہ امریکہ سے جدید ٹیکنالوجی اور اسلحہ خریدنے میں دلچسپی رکھتے ہیں ۔چین پاکستان کا بہترین حلیف ہے اور کوہن کے مطابق پاک بھارت تعلقات میں اب چین کا اثر ورسوخ بڑھ جائے گا۔وہ دونوں ممالک کے تعلقات میں استحکام پیداکرنے میں اہم کردار ادا کرنا شروع ہوجائے گا۔کوہن کے مطابق یہ خطے کے لیے اچھی خبر ہے۔درپردہ امریکی اداروں بالخصوص کمپنیوں نے بھی مودی کو برسراقتدار لانے میں اہم کردار ادا کیا ۔وہ بھی اس خطے میں استحکام چاہتی ہیں تاکہ انہیں سرمایہ کاری کا موقع مل سکے۔
تنائو اور تنازعات کی صورت میں عالمی ملٹی نیشنل کمپنیاں بھاگ جاتی ہیں۔سرمایہ کار وں کے بارے میں کہاجاتاہے کہ وہ موسمی پرندوں کی مانند ہوتے ہیں۔ناسازگارماحول ہوتو بوریا بستر سمیٹنے میں دیر نہیں کرتے۔کشیدگی کی موجودہ فضا میں مودی سرکار پاکستان کے راستے وسطی ایشائی ممالک سے تجارتی اور کاروباری روابط استوار نہ کرسکے گی۔افغانستان میں بھی دونوں ممالک کے مابین جاری ٹسل کی موجودگی میں مودی حکومت اپنی توانائیاں ترقی اور ملکی استحکام پر صرف نہ کرسکے گی۔ رجائیت پسند مبصرین کی اکثریت کا خیال ہے کہ مودی کے برسراقتدار آنے سے خطے میں ترقی اور عوامی فلاح وبہبود کے منصوبے شروع کرنے کا صحت مندانہ مقابلہ بھی شروع ہوسکتاہے۔مودی کی طرح وزیراعظم نواز شریف کی حکومت بھی ترقی اور معاشی خوشحالی کا انقلاب برپا کرنے کے نعرے پر برسراقتدارآئی ہے۔وزیراعظم نوازشریف نے کھلے دل کے ساتھ مودی کو الیکشن جیتنے کی مبارک دے کر مثبت پہل کردی ۔پاکستان نے بارہاکہا کہ بھارت میں جو بھی جماعت برسراقتدارآئے وہ اس کے ساتھ کام کرنے کو تیار ہے۔ بسااوقات سخت گیر سیاستدانوں کے ساتھ کام کرنا آسان بھی ہوتاہے کیونکہ ان میں قوت فیصلہ زیادہ ہوتی ہے ۔ انہیں اپنے ملک کے اندر ''غدار‘‘قراردے کر قافیہ تنگ کرنے والے کم ہوتے ہیں۔ممکن ہے کہ مودی من موہن سنگھ کے مقابلے میں پاکستان کے لیے بہتر حکمران ثابت ہوں۔
حکومت کو بلا جھجک مودی کے ساتھ ہر موقع کو تعلقات کی بہتری کے لیے استعمال کرنا چاہیے۔پاکستان کے دہلی میںمتعین ہائی کمشنر نے حالیہ چند ماہ میں غیر معمولی طور پرپبلک ڈپلومیسی کی ۔ وہ بھارت کے تما م اہم شہر وں میں کاروباری شخصیات ، دانشوروں اور صحافیوں کے ساتھ تبادلہ خیال کررہے ہیں۔کوئی دن نہیں گزرتاکہ ہائی کمیشن میں کوئی اجتماع نہ ہورہاہو یا خود ہائی کمشنر عبدالباسط کسی تقریب میں شریک نہ ہوں۔
ہمیشہ تصویر کا منفی پہلو پیش کرنے والوں سے عرض ہے کہ وزیراعظم نواز شریف کی امن کے قیام کی کوششوں کا احترام کریں۔امکان ہے کہ مودی اپنے پیش رو من موہن سنگھ کی طرح وزیراعظم نواز شریف کی کوششوں کا مثبت جواب نہ دیں،پھر بھی یہ گھاٹے کا سودا نہیں۔بظاہر ‘اس طرزعمل سے پاکستان کی قدرے سبکی نظر آتی ہے لیکن حقیقت میں ا س حکمت عملی سے پاکستان نے بہت کچھ حاصل کیا ہے۔آج عالمی سطح پر پاکستان کا امیج پہلے سے زیادہ بہتر ہے۔دنیا کو اعتماد ہے کہ سویلین حکومت خطے میں امن اور تنازعات کے حل کے لیے پوری تندہی سے کوشاں ہے۔کوئی بھی ملک حتیٰ کہ بھارت بھی یہ الزام نہیں لگا سکتاکہ وزیراعظم نواز شریف کی حکومت مخلص نہیں۔
بھارت سے معمول کے تعلقات کی بحالی کی صورت میںکشمیر پر غیر روایتی پیش رفت کے امکانات میں بھی اضافہ ہوجاتاہے۔مسئلہ کشمیر کا غیر روایتی حل جس پر ماضی قریب میں پاکستان کے دفاعی اداروں اور حکومت نے کام کیا تھا اب بھی مذاکراتی عمل کو بنیادی فریم ورک فراہم کرسکتے ہیں۔بھارت میں اس عمل کا آغاز اٹل بہاری واجپائی نے کیا تھا جبکہ پاکستان میں نوازشریف نے۔اب ایک بار پھر اسلام آباد اور دہلی میں دونوں کی حکومتیں قائم ہیں اور چیلنجز وہی ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں