"IMC" (space) message & send to 7575

برطانوی ارکانِ پارلیمنٹ کے ساتھ مکالمہ

ایک مرتبہ پھر برطانوی ہائوس آف کامن کی کسی تقریب میں شرکت کا موقع ملا۔ برطانوی پارلیمنٹ کے پرجوش رکن سائمن ڈینزوک ہمارے میزبان تھے۔دریائے ٹیمزکے کنارے صدیوں قبل تعمیر ہونے والی پارلیمنٹ کی پرشکوہ عمارت ماضی کے جاہ و جلال کی عکاس ہے۔ پارلیمنٹ کا اجلاس جاری تھا اور وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون بھی سیشن میں موجود تھے ۔ پارلیمنٹ کے ایک بغلی کمرے میں سائمن نے کشمیر ڈویلپمنٹ فاؤنڈیشن (کے ڈی ایف ) کے اشتراک سے کشمیری نقطہ نظر کو برطانوی ارکان پارلیمنٹ اور برطانوی رائے عامہ تک پہنچانے کی غرض سے اس تقریب کا انعقاد کیا ۔اس طالب علم کو بھی دعوت دی گئی کہ وہ کشمیر میں ظہور پذیر ہونے والی حالیہ تبدیلیوں کے تناظر میں ان خطوط کی نشاندہی کرے جن پر مستقبل کی حکمت عملی وضع کی جاسکتی ہو۔اس لحاظ سے یہ غیر معمولی اجلاس تھا کہ اس میں برطانوی پارلیمنٹ کے انتہائی اہم ارکان نے شرکت کی اور بعض آخری وقت تک بحث مباحثے میں حصہ لیتے رہے۔ پارلیمنٹ کے رکن اور خارجہ امور کی سلیکٹ کمیٹی کے رکن مائیک گیپس ، ممبر پارلیمنٹ سر جیرالڈ کوفمین، ممبر پارلیمنٹ اور چیئرمین کمیونٹیز اینڈ لوکل گورنمنٹ کلائیو بیٹس، ممبر پارلیمنٹ سٹیو بیکر، ممبر پارلیمنٹ ڈیوڈ وارڈ اور جاسن میک کارٹنی جیسے سینئر سیاستدانوں نے کھل کر اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ ساری گفتگو کا حاصل یہ تھا کہ پاک بھارت مذاکراتی عمل میں کشمیریوں کی رائے کو بھرپور اہمیت دی جائے تاکہ عشروں سے جاری کشمیر کے تنازع کو شہریوں کی خواہشات اور تمناؤں کے مطابق حل کیا جا سکے۔ برطانیہ میں آٹھ لاکھ کے لگ بھگ کشمیر ی آباد ہیں اس لیے یہاں کی سیاست اور میڈیا پر کشمیر چھایا رہتاہے بالخصوص الیکشن کے زمانے میں ہر پارٹی کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ کشمیر ی ووٹر ز کو اپنی طرف متوجہ کرے۔ 
کشمیر ڈویلپمنٹ فاؤنڈیشن گزشتہ نو سال سے برطانیہ میں سرگرم ہے۔ اس نے یہاں نمایاں مقام بنانے میں تیزی سے کامیابی حاصل کی۔اس کے جواں سال اور متحرک ایگزیکٹو ڈائریکٹر سردار آفتاب خان نے کہا کہ کشمیری تارکینِ وطن جموں و کشمیر میں قیام امن میں مؤثر اور بھرپور کردار ادا کر سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا : کشمیر میں کھلا معاشرہ ہے جہاں فکر اور عقیدے کی آزادی ہے۔ ہم صدیوں سے کثیر النسل و مذہب معاشرے میں بقائے باہمی کی قدیم اقدارپر مبنی زندگی گزارنے والے لوگ ہیں ۔ جموں و کشمیر کے لوگ پُرامن معاشرے کے قیام کے لیے کوشاں ہیں،ایسا معاشرہ جہاں لوگوں کو زندگی، آزادی اور سلامتی کا حق حاصل ہو۔ 
پارلیمنٹ کے ممبر اور خارجہ امور کی سلیکٹ کمیٹی کے رکن مائیک گیپس نے کہا:بھارت اور پاکستان نے بات چیت کے عمل میں کشمیریوں کو شامل نہیں کیا۔ اگرچہ دونوں ملکوں نے اس تنازع میں کچھ پیش رفت کی ہے ؛تاہم بھارت اور پاکستان کے اندر کی سیاست، حکومتوں کی طرف سے کیے گئے فیصلوں پر اثر انداز ہو جاتی ہے اور پھر پیش رفت رک جاتی ہے۔بھارت کے عام انتخابات میں نریندر مودی کی جیت کے امکانات روشن ہیں۔ ایسی صورت میں کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ اس کے مسئلہ کشمیراورپاک بھارت مذاکراتی عمل پر کیا اثرات مرتب ہوں گے۔ پاکستان میں جمہوری حکومت ہے لیکن ہم جانتے ہیں کہ جمہوری حکومت پاکستان کی ساری سیاست پر کنٹرول نہیں رکھتی۔ پارلیمنٹ کے ممبر سر جیرالڈ کوفمین نے مسئلہ کشمیر کو وسیع علاقائی اور عالمی تناظر میں پیش کرتے ہوئے فکرانگیز انداز میں کہا :بین الاقوامی متنازع امور میں کشمیر کا تنازع سب سے پرانا ہے حتی کہ فلسطین سے بھی پرانا۔ بین الاقوامی کمیونٹی کے لیے شرم کا مقام ہے کہ اس مسئلے کو ابھی تک حل نہیں کیا جا سکا،جو کسی وقت بھی عالمی امن و سلامتی کے لیے خوفناک بحران کی صورت اختیار کر سکتا ہے ؛کیونکہ بھارت اور پاکستان دونوں کے پاس ایٹمی ہتھیار ہیں اور وہ کشمیر پر کئی جنگیں لڑ چکے ہیں۔ بین الاقوامی دنیا اس خطرناک صورت حال کو سمجھ نہیں پا رہی کیونکہ ان کے ہاں بصیرت کی کمی ہے ۔یہ انتہائی ناگوار صورت حال ہے کہ برطانوی حکومت اس معاملے میں کسی بھی سطح پر خود کو شامل کرنے کی روادار نہیں اور سمجھتی ہے کہ اس مسئلے کا حل بھارت اور پاکستان کو خودکرنا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ جموں و کشمیر میں معاشی ترقی بہت ضروری ہے اور کشمیریوں کی آواز ضرور سنی جانی چاہیے۔
ممبر پارلیمنٹ اور کمیونٹیز اینڈ لوکل گورنمنٹ سلیکٹ کمیٹی کے چیئرمین کلائیو بیٹس نے کہا: مسئلہ کشمیر کو صرف بھارت اور
پاکستان پر ہی نہیں چھوڑ دیا جانا چاہیے بلکہ جموں و کشمیر کے لوگوں کو اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا حق دیاجانا چاہیے۔ کشمیریوں کا حق خود ارادیت ہی اصل راستہ ہے اور امید کی جانی چاہیے کہ برطانوی پارلیمنٹ اور بین الاقوامی برادری اسے اہمیت دے گی اور اسے اپنے ایجنڈے میں شامل کرے گی۔ممبرانِ پارلیمنٹ سٹیو بیکر اور ڈیوڈ وارڈ نے حقوق کے لیے کشمیریوں کی مہم میں، پیشہ ورانہ مہارت لانے اور تمام کمیونٹیز کے ساتھ روابط قائم کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ممبر پارلیمنٹ جاسن میکارٹ نے کہا:لوگوں کوحق خود ارادیت دینے کا وقت آنے والا ہے۔ ہم سکاٹ لینڈ میں اور برطانیہ کے اندر یورپی یونین پر ریفرنڈم کرانے جا رہے ہیں۔چنانچہ میں یہ سمجھتا ہوں دنیا بھر میں آنے والا وقت حق خودارادیت پر فیصلوں کا ہے۔ 
اس موقع پر میں نے عرض کیا کہ پائیدار اور انصاف پر مبنی حل کو یقینی بنانے کے لیے کشمیر پر ہونے والے ہر طرح کے مذاکرات میں کشمیریوں کی شمولیت کو یقینی بنانا ضروری ہے۔ پالیسی ساز اداروں اور شخصیات کواپنا وقت، وسائل اور دانشورانہ توانایاں مسئلہ کشمیر کے حل پر وقف کرنا ہوں گی ،تاکہ خطے کے امن کو تباہ ہونے سے بچایا جاسکے۔شرکاء کو ان اخباری اطلاعات کی طرف بھی متوجہ کیا جو عندیہ دیتی ہیں کہ کشمیر میں تعلیم یافتہ نوجوانوں کی فعال شرکت سے عسکری سرگرمیوں کا از سر نو آغاز ہو سکتا ہے۔ حکومتوں نے پچھلے دس سالوں میں لائن آف کنٹرول پر جاری جنگ بندی اور عسکری سرگرمیوں میں کمی کے باعث نسبتاً پرسکون ماحول کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مذاکرات اور امن کے قیام میں نمایاں پیش رفت نہیں کی۔اب خدشات ہیں کہ مستقبل قریب میںلائن آف کنٹرول پر عسکریت پسندوں کی سرگرمیوں اور تشدد میں اضافہ دیکھنے کو مل سکتا ہے۔ 
ستم ظریفی ہے کہ ہر کوئی کشمیریوں کو مسئلہ کا بنیادی فریق تسلیم کرتاہے لیکن انہیں نہ تو بات چیت کا حصہ بنایا جاتاہے اور نہ ہی ان سے مشاورت کی جاتی ہے۔امن عمل میں شہریوں کی شرکت کا کوئی طریقۂ کار، کوئی سرکاری نظام اور عملی صورت نہیں ہے کہ جس کے ذریعے مقامی سوچ کو پالیسی ساز افراد کی سطح پرپہنچایا جا سکے۔ایک ایسا ڈھانچہ تشکیل دیے جانے کی ضرورت ہے جس کے ذریعے کشمیری شہری اسلام آباد اور دہلی تک اپنا نقطہ نظر پہنچا سکیں۔
امریکہ کے بعد برطانیہ میں ہونے والی ملاقاتوں اور گفتگوئوں سے یہ تاثر مزید پختہ ہوا کہ کشمیر پر بیانیے میں جوہر ی تبدیلی لائے بنا عالمی برادری کی حمایت کا حصول محال ہے۔سیاسی نقطہ نظر کو بیان کرنے کے ہنر پر محنت کرنا ہوگی۔روایتی استدلال کی نوک پلک سنوارنے پر توجہ دینا ہوگی۔رٹی رٹائی تقریروں اور بیانات کو دہرانے کا وقت لد چکا ہے۔دنیا ایسی باتیں سننے کی روادار نہیں جن میں کوئی نیا پن نہ ہو۔کشمیر پر گفتگو کے لیے نئے چہرے سامنے لانا ہوں گے جو جدید علم الکلام میں خطاب کرسکتے ہوں ۔ کشمیری نقطہ نظر کو، عالمی تناظر پیش نظر رکھتے ہوئے بیان کرنے کی اہلیت رکھتے ہوں۔ اس ملک میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو نئے راستے تلاش کرنے کے متمنی ہیں اور کشمیریوں کو مسئلہ کے حل میں مرکزی کردار دینے کے خواہش مند ہیں ۔اس موضوع پر مزید گفتگو ہونی چاہیے تاکہ سوچ وبچار کی مزید راہیں کھل سکیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں