"IMC" (space) message & send to 7575

سانپ گزرگیا اب لکیرکیا پیٹنا

حکومت کو ڈانواں ڈول دیکھ کر پاکستان تحریک انصاف نے موقع غنیمت جانا کہ وہ بھی احتجاجی تحریک شروع کردے۔ الیکشن کوگزرے ایک برس بیت چکا۔ جسٹس افتخار محمد چودھری کو ریٹائرڈ ہوئے مدت ہوئی۔ الیکشن کمشنر جسٹس (ر) فخر الدین جی ابراہیم بھی الیکشن کی الجھنوںکو رفت گزشت کرکے آرام فرما رہے ہیں۔ زیرعتاب میڈیا گروپ کل تک عمران خان کی آنکھ کا تارا تھا، اب کانٹا ہے۔انہیں سازش اور دھاندلی میں شراکت دار نظر آتا ہے۔ تحریک انصاف کے احتجاج پر مشہورکہاوت یاد آئی: سانپ گزرگیا اب لکیر پیٹنے کا کیا فائدہ ؟سوال یہ ہے کہ تحریک انصاف اس احتجاج سے کیا حاصل کرنا چاہتی ہے؟کیا لوگ نون لیگ حکومت گرانا یا وسط مدتی انتخابات چاہتے ہیں؟ ہرگز نہیں۔ شہریوں کی نون لیگ کی حکومت سے امیدیں ابھی ٹوٹی نہیں ۔نوازشریف کے ساتھ رومانس قائم ہے اور توقعات بھی۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ گزشتہ ایک سال میں عام شہری کی زندگی میںکچھ نہ کچھ بہتری آئی ہے۔ نون لیگ کی حکومت کوئی آئیڈیل نہیں۔ فرسودہ اور بوسیدہ نظام پرکھڑی عمارت سے زیادہ توقعات بھی سادہ لوحی کے سوا کچھ نہیں، لیکن اسے رخصت کرنے کا ابھی وقت نہیں آیا۔
نون لیگ کی حکومت کو موقع ملنا چاہیے تاکہ وہ اگلے الیکشن میں یہ نہ کہہ سکیں کہ انہیں عوام کی خدمت نہیں کرنے دی گئی۔ پیپلزپارٹی نے پانچ سال پورے کیے۔اس کے بڑے بڑے برج الٹ گئے ۔ قمر زمان کائرہ جیسا شعلہ بیان اور صاحب استدلال جھاگ کی طرح ہوا ہوگیا۔ اب اگر نون لیگ کارکردگی نہ دکھا سکی، لوگوں کی امیدوں پر پوری نہ اتری اور رائے عامہ کو بوجھ محسوس ہوئی تو اگلے الیکشن میں وہ اس کی چھٹی کرادیں گے۔احتجاج کے نام پر جمہوری نظام کا بوریا بسترگول کر نے کی سازش کا حصہ بننا کسی سیاسی جماعت یا شخصیت کو زیب نہیں دیتا۔ پاکستان اس وقت ایک سنگین بحران سے گزررہاہے۔ بظاہر سب اچھا کی رٹ لگائی جاتی ہے لیکن حقیقت میں زیر زمین طوفان اٹھتامحسوس ہوتا ہے۔ ادارے ایک صفحے پر درکنار ایک ورق پر بھی نہیں۔کبھی سوچا بھی نہ تھاکہ یہ سب کچھ اس قدر جلدی ہوجائے گا۔
پرویز مشرف کا مقدمہ حکومت کے لیے لوہے کا چنا ثابت ہوا جسے تھوکا جاسکتاہے نہ نگلا۔ اسٹیبشلمنٹ ناراض ہے اور اس کے حامی سراپا احتجاج۔ طاہر القادری ایک بار پھر میدان لگا چکے ہیں۔ پہلے بھی وہ بے مقصد منصہ شہود نہیں آئے تھے،اس وقت مقتدر حلقوں کا خیال تھا کہ بنگلہ دیش کی طرز پر عبوری مدت کے لیے ٹیکنوکریٹس کی حکومت قائم کی جائے جو ملک کو اقتصادی بدحالی سے چھٹکارا دلائے۔ تین سال بعد الیکشن میںجو بھی فتح یاب ہو، اقتدار کاہما اس کے سر پرسجادیا جائے۔ رائے عامہ اور سیاسی قیادت اس ''منصوبے‘‘ کوبھانپ گئی لہٰذا ملک کے طول وعرض سے طاہر القادری کا ایجنڈا مستردکردیاگیا۔کھسیانی بلی کھمبا نوچے کے مصداق خاموشی سے کینیڈا کے برف زارکو سدھارگئے۔
تحریک انصاف خود ملک کے سب سے زیادہ حساس صوبے خیبر پختونخوا میں حاکم ہے۔اس کی اپنی کارکردگی پر سوال اٹھ رہے ہیں۔ وزیروں اورمشیروں کو بدعنوانی کے الزامات کے تحت وزارتوں سے نکالاگیا ۔ ملک بھر میں خان صاحب کے اس اقدام کی ستائش کی گئی مگر اب پارٹی کے اندر ٹوٹ پھوٹ جاری ہے، لوگ وزیراعلیٰ پرویز خٹک سے خوش نہیں۔پارٹی کے اندر سے ایک دھڑا الگ ہونے کے امکانات مسترد نہیں کیے جاسکتے ۔ خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کی حکومت دھڑام سے زمین بوس ہوسکتی ہے۔ مولانا فضل الرحمان مسلسل تعاقب کررہے ہیں۔ آفتاب شیرپائوکی پارٹی کو صوبائی حکومت سے نکالاگیا،کرپشن کے الزامات پر وہ بھی گھائل ہیں اور بدلا چکانے کے لیے موقع کی تاک میں ہیں ۔
دوسری جانب تحریک انصاف کی سینئر لیڈرشپ میں بھی بے چینی اور اضطراب پایا جاتاہے۔ سب سے بڑی بے چین روح تو خود جاوید ہاشمی ہیں جنہیں زندگی میں کبھی قرار نصیب نہیں ہوا۔ اسلامی جمعیت طلبہ سے سیاسی زندگی کا آغازکیا،اپنی جیل بیتی ''ہاں میں باغی ہوں‘‘ میں لکھتے ہیں : تعلیم مکمل کرنے کے بعد مولانا مودودی کی خدمت میں حاضر ہوا جنہیں میں اپنا مرشد ورہنما تسلیم کرتاہوں۔ عرض کیا کہ تعلیم اور جمعیت سے فارغ ہوچکا۔ جماعت اسلامی میں شمولیت اختیار نہیںکررہا، میر ے لیے دعاکریں۔ '' اے اللہ اس نوجوان سے اپنے دین کی خدمت لے‘‘ مولانا مودودی نے یہ الفاظ کہہ کر انہیں رخصت کردیا۔ موصوف جنرل ضیاء الحق کی کابینہ میں وزیرمملکت بن گئے اور دین کی خدمت کرنے لگے۔ دال نہ گلی، جلد ہی ضیاء الحق کے دربار سے دل اچاٹ ہو گیا۔ نواز شریف کی مسلم لیگ سے ناتہ جوڑا ۔ پرویز مشرف کے عہد آمریت میںبہادری سے جیل کاٹی لیکن جلد ہی نون لیگ سے راہیں جدا ہوگئیں۔ عمران خان کے عروج اور نوجوانوں کے ابھرتے ہوئے سیلاب کو دیکھا تو جاوید ہاشمی میں پنجاب یونیورسٹی والا جذبہ اور جنون لوٹ آیا۔ وہ تحریک انصاف کے قافلے کا حصہ بن گئے۔اب تحریک انصاف جمہوری نظام حکومت کی مضبوطی اور سیاسی استحکام کے بجائے اسے گرانے میں مصروف ہے۔ جاوید ہاشمی ایک بار پھر دوراہے پر کھڑے ہیں۔ باغی کا دل نہیں مان رہا اور وہ اس کشتی سے چھلانگ لگانے والا ہے۔ جاوید ہاشمی کے نکلنے کے بعد پارٹی سے بھاگنے والوں کی لائن لگ سکتی ہے۔
یہ وقت ہے جمہوری قوتوں کے ساتھ ڈٹ کرکھڑے ہونے کا نہ کہ ان کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے کا، خواہ اس کی کتنی ہی بڑی قیمت کیوں نہ چکانی پڑے۔ بہتر ہے کہ عمران خان تذبذب سے باہر نکلیں، ملک میں مزید بحران پیدا نہ کریں۔ انہیں ماضی کے تجربات سے بھی سبق
سیکھنا چاہیے۔ نوے کی دہائی میںنوازشریف کو استعمال کرکے بے نظیر بھٹوکا تختہ الٹاگیا اور پھر نوا زشریف کو بھی چلتاکردیاگیا۔ دونوں نہ صرف اقتدار سے محروم ہوگئے بلکہ انہیں جلاوطن بھی ہونا پڑا۔ اقتدار بے رحمانہ کھیل ہے، یہاں دوست نہیں اتحادی ہوتے ہیں اور وہ بھی اس وقت تک جب تک کام ہوتا ہے۔ عمران خان حکومت کوغیرمستحکم کرنے کے بجائے اپنے ان خدشات اور تحفظات کو رائے عامہ کے سامنے لائیں جن کی بنا پر وہ اگلے الیکشن میں دھاندلی کی دہائی دیتے ہیں۔ شفاف الیکشن کو یقینی بنانے کے لیے انتظامی اور دستوری سطح پر نئے اقدامات تجویزکیے جاسکتے ہیں۔ اس کام میں دوسری جماعتوں کے لوگ بھی تحریک انصاف کے ساتھ اشتراک کرسکتے ہیں۔ مل جل کر دھاندلی سے پاک انتخابی نظام وضع کیا جاسکتاہے۔ اس کے لیے اسلام آباد کے ڈی چوک میں کھڑے ہونے کی نہیں بلکہ اس کے قریب پارلیمنٹ ہائوس میں بیٹھ کر قانون سازی کی ضرورت ہے۔
یہ تلخ حقیقت پیش نظر رہے کہ تحریک طالبان اور دوسری پاکستان مخالف قوتیں چاہتی ہیں کہ پاکستان میں سیاسی بحران جاری رہے۔ مجھے گزشتہ تین ہفتے امریکہ اور برطانیہ میں رہنے اور باخبر لوگوں سے تبادلہ خیال کا موقع ملا ۔ پاکستان کے خیر خواہوں کا مشورہ یہ ہے کہ پاکستان کے خلاف ایک جال پھیلایا جاچکا ہے تاکہ وہاں جمہوری نظام جڑ نہ پکڑسکے، طاقت کا سرچشمہ پارلیمنٹ نہ بن سکے، ہرادارہ اپنے اندر ایک ریاست ہواوردوسروں کو خاطر میں نہ لائے۔ دنیا میں پاکستان کا امیج نااہل اور غیر سنجیدہ ریاست کا ہو، ایک ایسی ریاست جو ناکامی کی منہ بولتی تصویر ہو۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں