"JDC" (space) message & send to 7575

سربجیت سنگھ

جاسوسی دنیا کے دو قدیم ترین پیشوں میں سے ایک ہے۔ دوسرے پیشے کا تعین میں آپ کی پروازِ تخیل پر چھوڑ دیتا ہوں۔ دنیا کے اکثر ممالک بڑے منظم طریقے سے جاسوسی کرتے ہیں۔ شاید آپ کا خیال ہو کہ جاسوسی صرف دشمن ممالک کے بارے میں کی جاتی ہے۔ جی نہیں ،دوست ممالک بھی ایک دوسرے کے ساتھ اس فعلِ قبیح کا ارتکاب کرتے نظر آتے ہیں۔ مثال کے طور پر امریکہ میں اسرائیل کے لیے جاسوسی کرنے والا جوناتھن پولارڈ آج تک امریکی جیل میں قید کاٹ رہا ہے۔ جاسوسی اور تخریب کاری کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ بھارتی قیدی سربجیت سنگھ جسے چند روز پہلے لاہور میں موت کے بعد ہندوستان میں قومی ہیرو قرار دیا گیاوہ ان دونوں جرائم یعنی جاسوسی اور تخریب کاری میں سزا یافتہ تھا۔اُسے سزائے موت سنائی گئی تھی جسے حکومت پاکستان سیاسی وجوہات کی بنا پر موخر کرتی رہی۔ اجمل قصاب اور افضل گورو کی پھانسی کے بعد سربجیت کو انسانی ہمدردی کی بنا پر چھوڑنا بھی ناممکن ہوگیا تھا۔ سربجیت سنگھ کی کہانی ابن صفی کے ناول یا جیمز بانڈ کی فلم سے کسی طور پر کم حیرت انگیز نہیں۔ اس سسپنس سے بھرپور کہانی میں سچ اور جھوٹ ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر چلتے ہیں۔ سربجیت کو اگست 1990ء میں قصور کے قریب بارڈر کے پاس پاکستانی رینجرز نے گرفتار کیا۔ پہلی فرد جرم میں یہ لکھا گیا کہ یہ شخص غیرقانونی طور پر سرحد پار کرکے پاکستان آیا ہے۔ تفتیش کے بعد پاکستانی پولیس کو اندازہ ہوا کہ یہ وہی شخص ہے جس نے ایک ماہ قبل یعنی جولائی میں لاہور اور فیصل آباد میں تخریب کاری سے چودہ پاکستانی شہید کیے۔ چنانچہ فرد جرم میںجاسوسی اور تخریب کاری کا اضافہ کیا گیا۔ فرد جرم کے اس سقم کو دفاع کرنے والے وکیل نے اپنے موکل کی بے گناہی کے لیے بنیاد بنایا۔ سربجیت کے دفاع میں یہ کہا گیا کہ وہ شراب کے نشے میں غلطی سے بارڈر کراس کر گیا تھا جبکہ استغاثہ کی طرف سے یہ الزام تھا کہ وہ گرفتاری سے چند ماہ قبل بطور جاسوس اور تخریب کار پاکستان آیا تھا اور گرفتاری کے وقت ہندوستان واپس جارہا تھا۔ گرفتاری کے وقت اس سے پاکستانی شناختی کارڈ ملا جس میں اس کا نام خوشی محمد ولد اللہ رکھا لکھا ہوا تھا۔ گرفتاری کے وقت سربجیت 26سالہ جوان تھا۔ لمبا قد اور مضبوط جسم جواس کے پہلوانی کے شوق کی بدولت تھا۔ وہ غریب کسان تھا۔ دوسروں کی زمینوں پر کام کرتا تھا۔ دو چار سال پہلے شادی ہوئی تھی۔ دو بیٹیاں ہوئیں تو گھر کے خرچے بڑھنے لگے۔ بارڈر کے قریب رہنے والے ایسے جوان پیسے کے لالچ میں اکثر خفیہ ایجنسیوں کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں۔ 1991ء میں پاکستانی سپریم کورٹ نے سربجیت سنگھ کو سزائے موت دی۔ مشرف کے زمانے سے لے کر آج تک اس کی رحم کی کئی اپیلیں مسترد ہوئیں۔ حکومت پاکستان ہندوستان سے تعلقات درست کرنے کی پالیسی پر گامزن تھی۔ ہندوستان کی حکومت نے مطالبہ کیا کہ سربجیت کو انسانی ہمدردی کی بنا پر رہا کر دیا جائے لیکن حالات کا دھارا دوسری طرف بہہ رہا تھا۔ اس کہانی کا ایک نہایت ہی دلچسپ موڑ دسمبر 2010ء میں وقوع پذیر ہوا۔ چندی گڑھ میں منجیت سنگھ رتو نامی شخص جعلی چیک لکھنے کے الزام میں گرفتار ہوا۔ وہ اس سے پہلے کینیڈا میں تین سال کی قید کاٹ چکا تھا۔ اس کی شکل سربجیت سے ملتی جلتی تھی اور عمر بھی تقریباً وہی۔ سربجیت کی بہن دلبیر کور نے ہندوستانی میڈیا کو بتایا کہ پاکستان میں 1990ء میں دھماکے کرنے والا شخص دراصل منجیت سنگھ رتو تھا۔ منجیت سنگھ نے اس الزام کی تردید کی۔ اب ایک اور دلچسپ موڑ آیا۔ سربجیت سنگھ کے پاکستانی وکیل اویس شیخ نے دلبیر کور کے موقف کی حمایت کی بلکہ انٹرنیٹ پر موجود معلومات کے مطابق یہ بھی کہا منجیت سنگھ رتو دھماکوں کے ایام میں نہ صرف پاکستان میں موجود تھا بلکہ انہی دنوں میں اس نے ایک پاکستانی خاتون سے شادی بھی کی۔ اسی عرصہ میں ایک اہم گواہ شوکت سلیم بھی اپنے پہلے بیان سے منحرف ہوچکا تھا۔ اب شوکت سلیم کا کہنا تھا کہ سربجیت کے دھماکوں میں ملوث ہونے کا بیان اس نے پولیس کے دبائو میں دیا تھا۔ اب تو ہندوستانی لابی کے پاس ایسے دلائل تھے کہ وہ ہر سطح پر پاکستان کو سربجیت کے بے گناہ ہونے پر قائل کرنے لگی۔ ہندوستانی حکومت، انسانی حقوق والی این جی اوز، ہندوستانی میڈیا‘ انگلینڈ اور کینیڈا میں سکھ کمیونٹی متحرک ہوگئے کہ ہمارا بندہ بے گناہ ہے۔ بے چارہ غلطی سے بارڈر کر اس کرنے کی پاداش میں بیس سال سے زیادہ کا عرصہ جیل میں گزار چکا ہے۔ ’’یو ٹیوب‘‘ اور فیس بک پر پاکستانی عدالتی نظام اور حکومت کے خلاف پراپیگنڈہ زور و شور سے جاری رہا۔ ایک تو بھانڈا سرجیت سنگھ نے پھوڑا تھا ،اب رہا سہا شک ہندوستانی حکومت نے نکال دیا ہے۔ سربجیت سنگھ کی لاش کو ترنگے میں لپیٹا گیا۔ اکیس توپوں کی سلامی دی گئی۔ بھارتی پنجاب کی حکومت نے تین دن کے سوگ کا اعلان کیا۔ جنازے میں راہول گاندھی نے شرکت کی اور وزیراعظم منموہن سنگھ نے سربجیت کو وطن کا بہادر بیٹا کہا۔ یہ سربجیت کی ’’خدمات‘‘ کا اقرار تھا۔ مجھے ذاتی طور پر علم ہے کہ یونان میں غیرقانونی طور پر داخل ہونے کی کوشش کرتے ہوئے درجنوں بھارتی شہری گرفتار ہوجاتے ہیں یا لقمۂ اجل بن جاتے ہیں۔ ان کی لاشیں جب ہندوستان جاتی ہیں تو انہیں ترنگے میں کیوں نہیں لپیٹا جاتا۔ فرق یہ ہے کہ سربجیت سنگھ کا مسئلہ سیاسی بنا لیا گیا ہے۔ کانگریس پارٹی اس مسئلے کو ووٹ جیتنے کے لیے استعمال کررہی ہے۔ سکھوں کے ووٹ حاصل کرنے کا یہ سنہری موقع تھا جس کا کانگریس والوں نے خوب استعمال کیا۔ آئندہ پاکستان بھیجے جانے والے جاسوسوں کو ہلاّ شیری دینا بھی مقصود ہے۔ یہ بات واضح ہے کہ بھارت اور پاکستان آئندہ بھی ایک دوسرے کے خلاف جاسوسی کرتے رہیں گے لیکن پاک بھارت مخاصمت کا سب سے بڑا نقصان سربجیت سنگھ اور ثناء اللہ کو ہوگا یعنی عام شہری کو۔ تو کیا یہ ضروری نہیں کہ دونوں حکومتیں مذاکرات کی میز پر بیٹھ کر بدقسمت قیدیوں کے ساتھ اچھے سلوک کے بارے میں بات چیت کریں۔ مشترکہ ٹیمیں بنائیں جو گاہے بگاہے دونوں ممالک میں جیلوں میں جا کر قیدیوں کی حالت دیکھیں۔ یہ نہ بھولیں کہ سربجیت سنگھ اور ثناء اللہ بھارتی اورپاکستانی ہونے کے علاوہ انسان بھی ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں